سورۃ الجن: آیت 13 - وأنا لما سمعنا الهدى آمنا... - اردو

آیت 13 کی تفسیر, سورۃ الجن

وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا ٱلْهُدَىٰٓ ءَامَنَّا بِهِۦ ۖ فَمَن يُؤْمِنۢ بِرَبِّهِۦ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہوگا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna lamma samiAAna alhuda amanna bihi faman yumin birabbihi fala yakhafu bakhsan wala rahaqan

آیت 13 کی تفسیر

اور اب وہ ہدایت کا پیغام سننے اور سمجھنے کے بعدیہ کہتے ہیں :

وانا لما ................ امنا بہ (27 : 31) ” اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جب کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے “۔ اور ہدایت کا پیغام سننے والے ہر شخص کا فریضہ یہی ہے۔ یہ لوگ قرآن کو یہاں ہدایت کا نام دیتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن کی اصل ماہیت ہدایت ہی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ہدایت ہے .... اور ان کو اپنے رب پر پورا اعتماد بھی ہے۔ جس طرح ہر ایمان لانے والے کو اپنے آقا پر ہونا چاہئے۔

فمن یومن ........................ رھقا (27 : 31) ” اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا ، اسے کسی حق تلفی یا ظلم (یعنی طاقت سے زیادہ کام دینے) کا خوف نہ ہوگا “۔ ایک مومن ایمان کے بعد اللہ پر پورا پورا بھروسہ کرنے لگتا ہے۔ اور اسے اللہ کے عدل پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور یہی ہے ایمان کی حقیقت کہ اللہ عادل ہے۔ وہ کسی مومن کا حق نہیں مارتا۔ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ نہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ ڈیوٹی دیتا ہے۔ اللہ مومن بندے کو اس کے استحقاق سے ذرہ بھر بھی محروم نہیں کرتا۔ اور اللہ اپنے بندے کو رھق سے بھی بچاتا ہے۔ رھق کے معنی ہیں طاقت سے زیادہ جہدومشقت میں ڈالنا۔ لہٰذا کوئی اور شخص بھی ایک مومن پر ظلم کرنے کی جرات نہ کرسکے گا کیونکہ مومن اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک مومن بعض اوقات اس دنیا کی سہولیات سے محروم رہتا ہے لیکن یہ محرومیاں ” نحس “ کے مفہوم میں نہیں آتیں۔ بعض اوقات ایک مومن کو اذیتیں بھی دی جاتی ہیں اور یہ اس زمین کی بعض چھوٹی قوتوں کی طرف سے ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اذیتیں رھق کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں کیونکہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون کس قدر مشقت برداشت کرنے کا اہل ہے اور کون کس قدر سہولیات کا اہل ہے۔ اور اللہ بعض بندوں کو مشقتوں میں ڈال کر ان کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اور یہ ان کے لئے مفید ہوتی ہیں۔

لہٰذا ایک مومن نفسیاتی لحاظ سے حق تلفی اور قوت برداشت سے زیادہ مشقت اٹھانے سے محفوظ ہوتا ہے۔ اس لئے اسے۔ فلا یخاف ................ رھقا (27 : 31) ” کسی حق تلفی سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے اور یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس پر اس کی قوت برداشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ تصور انسان کے اندر اطمینان ، آرام اور سکون پیدا کردیتا ہے۔ انسان قلق ، چبھن اور بےچینی محسوس کرتا ۔ یہاں تک کہ وہ اگر مشقت میں ہو پھر بھی جزع فزع نہیں کرتا ، نہ ڈرتا ہے ، نہ اپنے اوپر دروازے بند کرتا ہے۔ وہ مشقت کو آزمائش سمجھتا ہے۔ صبر کرتا ہے اور اللہ سے فراخی کی امید رکھتا ہے۔ اور اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے۔ لہٰذا امارت وغربت اور ضعف وقوت دونوں حالتوں میں وہ فائدے میں رہتا ہے۔ اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اور جنوں کے اس گروہ نے اس حقیقت کو بہت ہی اچھے انداز سے ذہن نشین کرایا اس کے بعد یہ لوگ اب ہدایت وضلالت کی حقیقت ذہن نشین کراتے ہیں اور ہدایت وضلالت پر جزاء وسزا کا ذکر کرتے ہیں۔

آیت 13{ وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓی اٰمَنَّا بِہٖ ط } ”اور یہ کہ ہم نے جونہی اس ہدایت الہدیٰ کو سنا ہم اس پر ایمان لے آئے۔“ { فَمَنْ یُّؤْمِنْ مبِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا۔ } ”تو جو کوئی بھی ایمان لائے گا اپنے رب پر اسے نہ تو کسی نقصان کا خوف ہوگا اور نہ زیادتی کا۔“ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے نیک اعمال کا پورا پورا اجر دے گا ‘ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا حق تلفی کا معاملہ نہیں ہوگا۔

آیت 13 - سورۃ الجن: (وأنا لما سمعنا الهدى آمنا به ۖ فمن يؤمن بربه فلا يخاف بخسا ولا رهقا...) - اردو