سورۃ الجن: آیت 11 - وأنا منا الصالحون ومنا دون... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ الجن

وَأَنَّا مِنَّا ٱلصَّٰلِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna minna alssalihoona waminna doona thalika kunna taraiqa qidadan

آیت 11 کی تفسیر

وانا منا .................... حطبا

یہ تو ضیحات کہ جنوں میں سے بعض لوگ اچھے ہیں اور بعض برے ہیں ، بعض مسلم ہیں اور بعض منکر ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ جن بھی دوہری شخصیت کے مالک ہیں ، جس طرح انسان دوہری شخصیت کا مالک ہے ، جو نیکی اور بدی دونوں کی استعداد رکھتا ہے ، ہاں جنوں میں سے بعض لوگ خالص شر اور خالص بدی کے مجسم ہوگئے ، مثلا ابلیس اور اس کے قبیلے کے لوگ ، ان توضیحات کی بڑی اہمیت ہے اور ان کی وجہ سے اس مخلوق کے بارے میں ہمارے خیالات درست ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اکثر لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جن صرف شرارت کی فطرت رکھتے ہیں اور صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کے اندر خشروشر کے دونوں پہلو ہیں۔ اور انسانوں کے یہ خیالات اس لئے تھے کہ ان کو قرآن کی فکری اصلاح پر غور کرنے کا موقعہ نہ ملا تھا لیکن قرآن کی ان توضیحات کے بعد تو انسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے خیالات کو درست کرلیں۔

جنوں کے اس گروہ کا قول ہے :

وانا منا .................... ذلک (27 : 11) ” اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں “۔ اور اپنا عمومی حال وہ یوں بیان کرتے ہیں۔

کنا طرائق قددا (27 : 11) ” ہم مختلف طریقوں سے بنے ہوئے ہیں “۔ یعنی ہر شخص نے اپنے لئے ایسا طریقہ اپنا لیا ہے جو دوسرے سے مختلف ہے اور کٹا ہوا ہے اور وہ ایمان لانے سے پہلے کے اپنے عقائد یوں بیان کرتے ہیں۔

آیت 1 1{ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط } ”اور یہ کہ ہم میں نیک لوگ بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف قسم کے بھی ہیں۔“ یہاں نیک کے مقابل میں ان کا اشارہ تو ظاہر ہے سرکش اور فسادی جنات ہی کی طرف ہے ‘ لیکن انہوں نے ان کا ذکر ایسے الفاظ کے ساتھ نہیں کیا۔ یہ دراصل حکمت تبلیغ کا اہم اصول ہے کہ برے کو بھی برا نہ کہو۔ { کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا۔ } ”ہم مختلف راستوں پر پھٹے ہوئے تھے۔“ طَرَائِق جمع ہے طَرِیْقَۃ کی اور قِدَد جمع ہے قِدَّۃٌ کی ‘ یعنی مختلف الرائے فرقے۔ قَدَّ یَقُدُّ قَدًّاکے معنی پھاڑنے یا کاٹنے کے ہیں۔ جیسے سورة یوسف کی آیت 25 میں آیا ہے : { قَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ } ”اس عورت نے پھاڑ دی آپ علیہ السلام کی قمیص پیچھے سے۔“

جنات میں بھی کافر اور مسلمان موجود ہیں جنات اپنی قوم کا اختلاف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں ہم مختلف راہوں پر لگے ہوئے تھے۔ حضرت اعمش ؒ فرماتے ہیں کہ ایک جن ہمارے پاس آیا کرتا تھا۔ میں نے ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تمام کھانوں میں سے تمہیں کونسا کھانا پسند ہے ؟ اس نے کہا چاول۔ میں نے لا کردیئے تو دیکھا کہ لقمہ برابر اٹھ رہا ہے لیکن کھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ میں نے پوچھا جو خواہشات ہم میں ہیں کیا تم بھی ہیں ؟ اس نے کہا ہاں، میں نے پھر پوچھا کہ رافضی تم میں کیسے گنے جاتے ہیں ؟ کہا بدترین۔ حافظ ابو المجاج مزنی فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے، ابن عساکر میں ہے حضرت عباس بن احمد دمشقی فرماتے ہیں میں نے رات کے وقت ایک جن کو اشعار میں یہ کہتے سنا کہ دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوگئے ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں اس کی جڑیں جم گئی ہیں اور اللہ کی محبت میں حیران و پریشان ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور انہوں نے مخلوق سے تعلقات کاٹ کر اپنے تعلقات اللہ سے وابستہ کر لئے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں ہمیں معلوم ہوچکا کہ اللہ کی قدرت ہم پر حاکم ہے ہم اس سے نہ بھاگ کر بچ سکیں نہ کسی اور طرح اسے عاجز کرسکیں۔ اب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت نامے کو سنتے ہیں اس پر ایمان لا چکے، فی الواقع ہے بھی یہ فخر کا مقام۔ اس سے زیادہ شرف اور فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ رب کا کلام فوری اثر کرے، پھر کہتے ہیں مومن کے نہ تو عمل نیک ضائع ہوں نہ اس پر خواہ مخواہ کی برائیاں لا دی جائیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا01102) 20۔ طه :112) یعنی نیک مومن کو ظلم و نقصان کا ڈر نہیں۔ پھر کہتے ہیں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض حق سے ہٹے ہوئے عدل کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان تو نجات کے متلاشی ہیں اور ظالم جہنم کی لکڑیاں ہیں۔ اس کے بعد کی آیت (وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّاۗءً غَدَقًا 16؀ۙ) 72۔ الجن :16) ، کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر تمام لوگ اسلام پر اور راہ راست پر اور اطاعت الٰہی پر جم جاتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور خوب وسعت سے روزی دیتے، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ۭمِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ 66؀) 5۔ المآئدہ :66) یعنی اگر یہ توراۃ و انجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں اور فرمان ہے آیت (وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ 66؀) 5۔ المآئدہ :66) یعنی اگر یہ توراۃ و انجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں اور فرمان ہے آیت (وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 96؀) 7۔ الاعراف :96) ، یعنی اگر بستی والے ایمان لاتے متقی بن جاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے یہ اس لئے کہ ان کی پختہ جانچ ہوجائے کہ ہدایت پر کون جما رہتا ہے اور کون پھر سے گمراہی کی طرف لوٹ جاتا ہے، حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں اتری ہے جبکہ ان پر سات سال کا قحط پڑا تھا، دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ سب کے سب گمراہی پر جم جاتے تو ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے جاتے تاکہ یہ خوب مست ہوجائیں اور اللہ کو بالکل بھول جائیں اور بدترین سزاؤں کے قابل ہوجائیں، جیسے فرمان باری ہے آیت (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀) 6۔ الانعام :44) ، یعنی جب وہ نصیحتیں بھلا بیٹھے تو ہم نے بھی ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے جس وہ مست بن گئے کہ ناگہاں ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ مایوس ہوگئے، اسی طرح کی آیت (اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55؀ۙ) 23۔ المؤمنون :55) ، بھی ہے۔ پھر فرماتا ہے جو بھی اپنے رب کے ذکر سے بےپرواہی برتے اس کا رب اسے درد ناک سخت اور مہلک عذابوں میں مبتلا کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ (صعد) جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں جہنم کے ایک کنوئیں کا نام ہے۔

آیت 11 - سورۃ الجن: (وأنا منا الصالحون ومنا دون ذلك ۖ كنا طرائق قددا...) - اردو