سورۃ الجن: آیت 10 - وأنا لا ندري أشر أريد... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورۃ الجن

وَأَنَّا لَا نَدْرِىٓ أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِى ٱلْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا رب اُنہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna la nadree asharrun oreeda biman fee alardi am arada bihim rabbuhum rashadan

آیت 10 کی تفسیر

وانا لا لندری ................................ رشدا (27 : 01) ” اور یہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برامعاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے “۔ یہ تمام غیبی امور صرف اللہ کے علم کے حوالے ہیں ، جن کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ پس پردہ تقدیر سے کیا چیز نمودار ہوتی ہے۔ آیا انسانوں پر کوئی مصیبت آرہی ہے اور وہ گمراہی میں مزید آگے جائیں گے یا ان کے لئے ہدایت اور رحمت کے دروازے کھل گئے ہیں۔ انہوں نے ہدایت کو شر کے مقابلے میں ذکر کیا گویا حقیقی خبر ہے ہی ہدایت۔

جب وہ ذریعہ ہی اس بات کی تردید کردے ، جس کی طرف کاہن اپنا یہ دعویٰ منسوب کرتے تھے کہ وہ اپنے مزعومہ افکار وہاں سے لیتے ہیں ، تو پھر کاہنوں کے مزعومہ دعوﺅں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ جنوں نے یہ کہہ دیا کہ وہ تو علم غیب نہیں جانتے۔ لہٰذا بات ختم ہوگئی ، ہر قسم کے زعم باطل قرار پائے اور کاہنوں اور عرافوں کے دعوﺅں کا اعتبار جاتا رہا۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ غیب صرف اللہ جانتا ہے۔ لہٰذا نہ کوئی غیب کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ پیشن گوئی کرسکتا ہے۔ یوں قرآن کریم نے انسانی عقل کو ہر قسم کے اوہام و خرافات سے پاک کردیا اور ان تمام مزعومات کے دروازے بند کر دئیے ، جو کیے جاسکتے تھے اور اعلان کردیا کہ اب انسانی عقل سن رشد کو پہنچ گئی ہے اور انسانی افکار کے اندر اوہام و خرافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

آسمانوں کے یہ پہریدار کس طرح کھڑے ہیں ، یہ شیاطین کو کس طرح روکتے ہیں ؟ شہاب ثاقب کس طرح فائر کرتے ہیں۔ تو اس بارے میں نہ قرآن نے ہمیں کچھ بتایا ہے اور نہ صحیح احادیث میں اس کی تفصیلات ہیں اگر قرآن وسنت اس کی ضرورت محسوس کرتے کہ اس میں انسانوں کے لئے کوئی خیر ہے تو ضرور بتلادیتے۔ جب اللہ نے کچھ بتایا تو یہ کوشش ہی عبث ہے۔ اس سے ہماری زندگی اور ہمارے علم میں کوئی تعمیری اضافہ نہیں ہوسکتا۔

شہابوں کے بارے میں بھی کسی جدل ومباحثے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ شہاب دراصل اس کائنات کے نظام کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی ایسے تھے ۔ اور بعد میں بھی اور ان کا ضابطہ عمل وہی ہے جس کو سائنس دان اب معلوم کرنے کی سعی کررہے ہیں جن کی سوچ کبھی درست نکلتی ہے اور کبھی غلط ہوکر ترمیم پذیر ہوجاتی ہے۔ اگر سائنس دان اب معلوم کرنے کی سعی کررہے ہیں جن کی سوچ کبھی درست نکلتی ہے اور کبھی غلط ہوکر ترمیم پذیر ہوجاتی ہے۔ اگر سائنس دانوں کے موجودہ نظریات درست بھی ہوں تو اس سے قرآن کے فرمان کی نفی نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اور ممکن ہے کہ یہ شہاب شیطانوں کے لئے رجم ہوں اور یہ کام اللہ کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہو جس کا ابھی تک ہمیں پورا علم نہیں ہے۔

جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک تمثیل ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ کلام الٰہی میں کوئی التباس نہیں ہوسکتا اور اس میں باطل کی آمیزش کرنے والے نہیں کرسکتے اور یہ کہ اس آیت کو اپنے ظاہری مفہوم میں نہیں لیا جاسکتا ، تو ان بےچاروں کی حالت یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے سائنسی نظریات پر قطعی ایمان لاکر قرآن کے پاس آتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ نظریات جدید سائنسی نظریات سے آتے ہیں۔ پھر یہ قرآن کی تفسیر ان مزعومہ نظریات کے مطابق کرنے بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ ملائکہ کو قوائے خیر اور قوائے مطیعہ کی تفسیر و تمثیل قرار دیتے ہیں ، شیاطین کو قوائے شر اور قوائے مفسدہ کی تمثیل کہتے ہیں اور رجوم شیاطین کو تمثیل حفظ قرآن قرار دیتے ہیں اس لئے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی موجودہ ہو اور مشاہدے سے باہر ہو ، وہ ملائکہ ، جنات اور شیاطین کے وجود کو اس طرح مشاہدہ کرسکیں کہ جس طرح وہ انسانوں اور دوسرے طبیعی اجسام کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ان غیر مرئی اجسام اور موجودات کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن اگر انہی سے پوچھا جائے کہ تمہارے ان مزعومات کی حقیقت کیا ہے ، جن کے اوپر تم قرآن وسنت کو پرکھتے ہو تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اور اسلامی تصور کی تشکیل اور تشریح کا صحیح طریقہ ہی یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن سے پہلے تمام افکار و تصورات نکال دے اور قرآن کو کسی سابقہ تحفظ کے بغیر مطالعہ کرے۔ یہ سابقہ تصورات ، عقلی ہوں ، شعوری ہوں یا نفسیاتی ہوں اور قرآن کا مطالعہ کرکے اپنے تصورات اور افکار کی تشکیل قرآن کے مطابق کرے۔ اور اس کائنات کے حقائق کی روشنی میں ، سنت نبوی کے حدود کے اندر کرے۔ یہ نہ ہو کہ قرآن اور سنت کی بیرونی افکار ونظریات کے کٹھرے لاکر کھڑا کردیا جائے اور ان پر محاکمہ کیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ہرگز کسی ایسی چیز کا انکار نہ کریں جسے قرآن ثابت کرتا ہے۔ نہ ان میں تاویلات کریں۔ نہ ایسے امور کو قطعی سمجھیں جن کا قرآن انکار کرتا ہے۔ ہاں قرآن وسنت کی منفلیت اور ثابت شدہ حقائق کے دائرے سے باہر انسان آزاد ہے کہ اپنی عقلی اور سائنسی جدوجہد کے ذریعہ جو چاہے نظریات قائم کرے۔

یہ بات ہم قرآن کے بارے میں ، اہل ایمان کی عمومی روش کے پیش نظر کہہ رہے ہیں ، جو قرآن کی نصوص کی تاویلات اپنے ذہنی افکار کے مطابق کرتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا کو اپنے افکار کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں ، میں خوداپنے آپ کو اس روش سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا ، ظلال القرآن کے ابتدائی حصوں میں ، میں خودبھی غیر شعوری طور پر اس طرف جھک گیا ہوں گا ، لیکن اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو آئندہ ایڈیشنوں میں اس قسم کے رجحان کی اصلاح کر دوں گا۔ یہاں میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہی حق ہے ، اور یہ اللہ کی طرف سے میرے لئے خاص عنایت اور ہدایت ہے۔

رہے وہ لوگ جو سرے سے قرآن پر ایمان ہی نہیں لاتے ، اور ان حقائق کے انکار میں ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں اور محض اس لئے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ابھی تک انہوں نے ان کا ادراک نہیں کیا ہے ، تو ایسے لوگوں کا طرز عمل مضحکہ خیز ہے۔ کیونکہ سائنسی ابھی تک ان حقائق کا بھی پوری طرح ادراک نہیں کرسکی۔ جو اس کے سامنے موجود ہیں۔ ان حقائق پر ابھی سائنس تجربہ کررہی ہے۔ لہٰذا ان حقائق کے عدم ادراک سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ موجود نہیں۔ نیز حقیقی سائنس دانوں نے اہل دین کی طرح رب عالم مجہول کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے ، اگر وہکتب سماوی کے طریقے پر کسی چیزکو تسلیم نہیں کرتے تو کسی چیز کا انکار بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ انہوں نے سائنسی تجربات کے ذریعے معلوم کرلیا ہے کہ انسان دراصل عالم الغیب کی ایک وسیع دنیا کے دروازے پر کھڑا ہے۔ جبکہ کچھ عرصہ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے تمام حقائق دریافت کرلیے ہیں۔ چناچہ اب سائنس دانوں نے بھی اپنی علم کم مائیگی کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ اور ان کا انداز اب ان مدعیان علوم سائنس کا سا نہیں ہے جہ سماوی حقائق ، نامعلوم حقائق کا انکار بطور فیشن کرتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی اس وسیع و عریض کائنات میں نامعلوم حقائق اور اسرار کے انبار لگے ہوئے ہیں اس کائنات کے اندر بےپناہ قوتیں ہیں اور یہ سورت ہمیں اس کائنات کا ایک حصہ بتاتی ہے۔ چناچہ ان نامعلوم حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کائنات کے بارے میں ہم صحیح اور متوازن تصورات ذہنوں میں رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح اس جہاں کا مادی قوتوں ، روحانی موجودات ، ارواح ، حیوانات ، ہمارے ماحول طبیعی کے حقائق ، ہماری زندگی ، ہماری ذات اور ہمارے افعال کے بارے میں ہماری سوچ درست ہوجاتی ہے۔ یہ متوازن سوچ ہی ایک مسلم کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اچھی طرح نکھار کر ممتاز کردیتی ہے۔ نہ وہ اوہام و خرافات کو تسلیم کرتا ہے ، اور نہ وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اس کائنات کے تمام حقائق پر عبور حاصل کرلیا ہے۔ اور اس متوازن سوچ کا ماخذ ، قرآن اور سنت ہیں۔ چناچہ ایک مسلم اپنی سوچ کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور تمام حقائق کو قرآن وسنت کے مطابق جانچتا ہے۔ خواہ وہ اخلاقی حقائق ہو یا طبیعی۔

عالم نامعلوم کے میدانوں میں اترنے کے لئے اور عقل انسانی کی ترک تازیوں کے لئے متعین راستے موجود ہیں۔ اسلام عقل انسانی کو ان میدانوں میں اترنے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ لیکن ان متعین راستوں اور میدانوں سے آگے کچھ ایسے جہاں بھی ہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے عقل کے اندر کوئی قوت نہیں ہے۔ یہ میدان عقل سے ماوراء ہیں۔ پھر عقل انسانی کو ان جہانوں تک پہنچنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ، کیونکہ اس زمین پر قدرت نے انسانوں کے لئے جو فریضہ منصبی متعین کیا ہے اور جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ، یعنی انسان بطور خلیفة اللہ فی الارض ، تو اس زاویہ سے انسانوں کو ان نامعلوم جہانوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ جس قدر علم کی اسے ضرورت تھی اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعہ اسے یہ علم دے دیا ہے ، تاکہ انسان اس جہاں میں ، اس زمین پر اپنے مقام اور حیثیت اور اپنے ماحول کو جان سکے ، کیونکہ یہ علوم حاصل کرنا انسان کی قدرت ہی میں نہیں ہے اور غیوبات یعنی ملائکہ ، فرشتوں ، جنات اور شیاطین سب اس زمرہ میں آتے ہیں۔ اسی طرح روح انسان ، انسان کی تخلیق اور اس کا انجام اسی دائرے میں آتے ہیں۔ یہ ایسے میدان ہیں جہاں عقل انسانی صرف وحی پر بھروسہ کرسکتی ہے۔

رہے وہ لوگ جو سنت الٰہیہ کی ہدایت کی روشنی میں چلتے ہیں۔ وہ ان میدانوں کے حدود پر جاکر رک جاتے ہیں جو خدا اور رسول نے انسان کو بتادیئے ہیں۔ اللہ اور رسول ﷺ نے ان غائب جہانوں کے بارے میں انسان کو یہ شعور دیا ہے کہ یقین کرلو کہ اللہ بہت ہی عظیم ہے اور وہ بہت بڑا حکیم ہے اور یہ کہ اس جہاں میں انسان کا منصب کیا ہے ؟ اور اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس سلسلے میں انسان کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پہنچ کے دائرے میں ، اپنے ماحول کے اندر ہی غور وفکر کرے ، اور جس قدر اس کی طاقت میں ہے وہ کام کرے۔ اور اپنی طاقت کے حدود کے اندر جس قدر ٹیکنالوجی وہ دریافت کرلے ، اسے اس جہاں میں پیداوار کے اضافے اور سہولیات حیات کی فراہمی کے لئے استعمال کرے اور یہاں اللہ کے نائب ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے۔ اللہ کی ہدایات کے مطابق کام کرے ، اللہ کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے چلے ، اور اس قدر بلندی اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھے ، جس قدر اللہ نے اس کے لئے پسند کیا ہے۔

رہے وہ لوگ جو اللہ کی ہدایات کو تسلیم نہیں کرتے تو وہ دو بڑے گروہوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ایک گروہ تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے صرف اپنی عقل کے ہتھیار کو کام میں لاتا ہے ۔ حالانکہ عقل انسانی محدود ہے اور ذات باری لامحدود ہے۔ یہ گروہ غیبی حقائق کو کتب منزلہ کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنی عقل کے زور پر معلوم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گروہ فلاسفہ ہے ، جنہوں نے اس کائنات اور اس کے رابطوں کی عقلی توجیہ کی ہے۔ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ بچے ایک ایسے عظیم پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لئے نکلیں جس کی بلندی کا علم ہی نہ ہو اور وہ گرتے پڑتے آگے بڑھ رہے ہیں یا چند بچے ہوں جنہوں نے ابھی تک حروف تہجی بھی نہ سیکھے ہوں ، لیکن وہ اس کائنات کے وجود کو دریافت کرنے کی سعی کررہے ہوں۔ انہی لوگوں میں یونان کے بڑے بڑے فلسفی شمار ہوتے ہیں اور خود مسلمانوں میں سے وہ فلسفی اور منطقی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ جو یونانی فلاسفہ کی لائن پر سوچتے رہے ہیں۔ اور اسی زمرے میں وہ جدید فلاسفہ بھی آتے ہیں جو اسلامی لائن پر نہیں سوچتے۔ یہ تو رہا ، ایک گروہ۔

دوسرا گروہ وہ ہے جو اس انداز فکر سے مایوس ہوگیا۔ اس گروہ نے اپنے آپ کو تجربے پر مبنی علم تک محدود کردیا۔ اور یہ طبقہ تمام مجہولات سے صرف نظر کرتا ہے۔ اس کی علمی دنیا میں ان میدانوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں یہ طبقہ بھی قرآن وسنت سے کوئی ہدایت لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ طبقہ خدا اور رسول کی ہدایت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ سمجھتا ہے کہ انسان کے لئے خدا کا تجرباتی ادراک ممکن نہیں ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی علمی دنیا پر یہ طبقہ چھایا رہا۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے اس طبقے نے معلوم کرلیا کہ اس کا یہ علمی غرور بھی لاعلمی پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ اس طبقے کے لوگ اس مادے پر تجرباتی کام کرتے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مادہ بھی دراصل ایک نور اور چمک سے قریب ہے اور نور اور چمک کا بھی ابھی تک حقیقی ادراک نہیں کرسکے۔ اور نور کا قانون اور اس کی حقیقت بھی دراصل انسان کے دائرہ ادراک سے ماوراء ہے۔ اس لئے بیسویں صدی کے طبیعی سائنس دانوں کو بھی اپنی تنگ دامانی کا اچھی طرح ادراک ہوگیا ہے۔

اس کے بعد یہ جنات اللہ کی ہدایت کے حوالے سے ، اپنا حال اور موقف بیان کرتے ہیں۔ یہ کہ وہ بھی بعینہ انسانوں کی طرح ، ہدایت وضلالت کی استعداد رکھتے ہیں اور انسانوں کی طرح ذمہ دار مخلوق ہیں۔ یہاں وہ رب تعالیٰ کے بارے میں اپنا عقیدہ بتاتے ہیں کہ ہم جو ایمان لائے ہیں وہ یہ ہے اور وہ اپنا نظریہ ہدایت وضلالت واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔

آیت 10{ وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ } ”اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے لیے کسی شر کا ارادہ کیا جا رہا ہے“ { اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا۔ } ”یا ان کے لیے ان کے رب نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔“ جنات کی اس بات سے ایسے لگتا ہے جیسے وہ تورات کے عالم تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اس کے دو امکانی نتائج میں سے ایک نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے۔ یا تو متعلقہ قوم اپنے رسول پر ایمان لا کر ہدایت کے راستے پر چل پڑتی ہے یا اس کا انکار کر کے تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے تو اس قوم میں رسول مبعوث کر کے اتمامِ حجت ضرور کرتا ہے ‘ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَـبْعَثَ رَسُوْلًا۔ } ”اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں“۔ چناچہ آسمانوں پر غیر معمولی سخت حفاظتی انتظامات دیکھ کر جنات یہ تو سمجھ گئے کہ اہل زمین کے لیے وحی و رسالت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوچکا ہے ‘ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سلسلے کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے اس فیصلے سے انسانوں کی بھلائی مطلوب ہے یا اس نے اہل زمین کو قوم نوح علیہ السلام ‘ قومِ ہود علیہ السلام اور قوم صالح علیہ السلام کی طرح ایک مرتبہ پھر تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر عذاب بھیجنے سے پہلے رسول مبعوث کر کے وہ ان لوگوں پر اتمامِ حجت کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے نبوت و رسالت ِمحمدی ﷺ تو انسانیت کے حق میں سراسر خیر ہی خیر ہے ‘ لیکن ان جنات کو اس وقت تک اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔

آیت 10 - سورۃ الجن: (وأنا لا ندري أشر أريد بمن في الأرض أم أراد بهم ربهم رشدا...) - اردو