سورہ جاثیہ: آیت 7 - ويل لكل أفاك أثيم... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ جاثیہ

وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ

اردو ترجمہ

تباہی ہے ہر اُس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waylun likulli affakin atheemin

آیت 7 کی تفسیر

آیت نمبر 7 تا 10

جیسا کہ ہم نے اس سورت کے مقدمے میں بھی وضاحت کی کہ مکہ میں مشرکین نے جس طرح دعوت اسلامی کا استقبال کیا ، اس کی تصویر کشی ان آیات میں کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے باطل موقف پر اصرار کیا۔ ایسی سچی دعوت کا ایک لفظ بھی سننے سے انکار کیا جو حق پر مبنی تھی اور جو اپنی ذات میں واضح تھی۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب تھی۔ انہوں نے اس حقیقت کے ماننے میں اس قدر ہٹ دھرمی سے کام لیا کہ یوں نظر آتا تھا کہ گویا یہ دعوت ان کے ہاں اذہان تک پہنچی ہی نہیں ہے بلکہ الٹا وہ اللہ کے معاملے میں گستاخ ہوگئے۔ اور قرآن کی جو آیات ان تک پہنچی ان سے منہ موڑنے لگے قرآن کریم نے ان کے اس رویے کی نہایت شدید مذمت کی ہے۔ اور سخت دھمکی دی ہے ان کے لئے سخت بربادی ہے اور ان کو شدید توہین آمیز اور دردناک عذاب سے دوچار ہونا ہوگا۔

ویل لکل افاک اثیم (45 : 7) “ تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لئے ”۔ ویل ، یعنی ہلاک ہے۔ افاک ، بہت بڑا جھوٹا جو جھوٹ باندھنے میں مہارت رکھتا ہو۔ بہت زیادہ گناہ کاریاں اور بدکاریاں سمیٹنے والا۔ یہ دھمکی ہر اس شخص کے لئے ہے جس میں یہ صفات موجود ہیں۔ یہ اللہ قہار و جبار کی دھمکی ہے جو ہلاک کرنے اور برباد کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس کی دھمکی اور ڈراوا اور تہدید بالکل سچی ہوتی ہے۔ اس لیے اس فقرے میں جو دھمکی دی گئی ، وہ بہت ہی خوفناک ہے۔

ایسے افاک جھوٹے اور بداعمال اور بدکار کی صفت و علامت کیا ہے ؟ یہ کہ وہ باطل پر اصرار کرتا ہے ، سچائی کے مقابلے میں جھکنے کی بجائے اور اکڑتا ہے ، اللہ کی نشانیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے منہ موڑتا ہے اور شریفانہ رویہ اختیار نہیں کرتا بلکہ گستاخی کرتا ہے۔

یسمع ایت اللہ ۔۔۔۔۔ لم یسمعھا (45 : 8) “ جس کے سامنے اللہ کی آیات بڑھی جاتی ہیں اور وہ ان کو سنتا ہے پھر پورے غرور کے ساتھ اپنے کفر پر اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں ”۔ یہ نہایت ہی قابل نفرت تصویر ہے۔ اگرچہ یہ مشرکین مکہ کے ایک گروہ کی تصویر ہے جو اس وقت ایسا تھا ، مگر ہر نظام جاہلیت میں یہ تصویر اسی طرح دہرائی جاتی ہے۔ آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی۔ اس زمین پر کتنے ہی ایسے لوگ ہیں اور نام نہاد مسلمانوں میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور وہ ان کو سنتے ہیں مگر اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں اور غرور میں منہ موڑ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے موافق اور ان کے مالوفات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں اور یہ آیات باطل پر تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ اس شر کی تائید نہیں کرتیں جس پر وہ مصر ہوتے ہیں اور یہ آیات اس سمت پر نہ خود چلتی ہیں اور نہ لوگوں کو چلاتی ہیں جس سمت پر وہ جارہے ہیں۔

فبشرہ بعذاب الیم (45 : 8) “ ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو ”۔ خوشخبری تو کسی اچھے کام پر ہوتی ہے۔ یہاں ان کے لئے بطور استہزاء خوشخبری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اگر کوئی ڈرانے والے اور متنبہ کرنے والے کی بات نہیں مانتا تو پھر اگر ہلاکت آتی ہے تو آنے دو ، وہ خود ہلاکت طلب کرتا ہے۔

واذا علم من ایتنا شیئا اتخذھا ھزوا (45 : 9) “ ہماری آیات میں سے جب کوئی چیز اس کے علم میں آتی ہے ، تو وہ ان کا مذاق بنا لیتا ہے ”۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ اللہ کی آیات اور ان کا سرچشمہ ذات باری ہے۔ یہ رویہ اس کی جانب سے شدید جسارت ہے۔ یہ تصویر بھی جس طرح جاہلیت اولیٰ میں تھی اسی طرح آج بھی موجود ہے۔ اور بیشمار لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ، ان میں سے بھی ایسے لوگ ہیں جو آیات الٰہیہ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور وہ ان آیات اور ان پر ایمان لانے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو بھی جو عوام الناس کی زندگیوں کو ان آیات کے مطابق ڈھالتے ہیں۔

اولئک لھم عذاب مھین (45 : 9) “ ان سب لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے ”۔ اہانت ان کے لئے موزوں سزا ہے کیونکہ یہ بھی تو اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ آیات الٰہیہ ہیں۔

یہ قیامت کا توہین آمیز عذاب حاضر ہے ، اگرچہ قیامت کا برپا ہونا قدرے بعد میں ہے۔

من ورائھم جھنم (45 : 10) “ ان کے پیچھے جہنم ہے ”۔ لفظ “ ان کے پیچھے جہنم ہے ” کا ایک خاص مقصد ہے یعنی یہ اسے دیکھ نہیں سکتے کہ انہوں نے قیامت کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اس سے ڈرتے اور بچتے اس لیے نہیں کہ یہ غافل ہیں اور اس لیے وہ اس کے اندر گرنے والے ہیں۔

ولا یغنی عنھم ۔۔۔۔۔۔ اولیاء (45 : 10) “ جو کچھ انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز ان کے کسی کام نہ آئے گی ، نہ ان کے وہ سرپرست ہی ان کے لئے کچھ کرسکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے ”۔ یعنی دنیا میں انہوں نے جو کام کئے یا جو ان کی ملکیت تھی ، وہ انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گی۔ ان کے اعمال اگرچہ اچھے ہوں وہ تو اکارت جائیں گے۔ کیونکہ ایمان کے بغیر عمل مقبول ہی نہیں۔ اور قیامت میں ان کی ملکیت زائل ہوجائے گی کوئی نہ ان کے پاس ہوگی اور نہ فائدہ دے گی۔ اور ان کے دوست اور یار یا معبود ، جو اللہ کے سوا انہوں نے بنا رکھے تھے ، وہ وہاں ان کے لئے نہ نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ نفع۔ نہ کسی کو سفارش کی اجازت ہوگی۔

ولھم عذاب عظیم (45 : 10) “ ان کے لئے بڑا عذاب ہے ”۔ یہ عذاب توہین آمیز بھی ہوگا جیسا کہ پہلے کہا گیا اور عظیم بھی ہوگا۔ توہین آمیز اس لیے کہ یہ آیات کا مذاق اڑاتے تھے ، اور عظیم اس لیے کہ جرم بڑا ہے۔

یہ پیراگراف یہاں ختم ہوتا ہے جس میں آیات الٰہیہ ساتھ مذاق کرنے کی مذمت وارد ہے۔ ان کے مقابلے میں استکبار کرنے کا ذکر ، ان آیات سے لوگوں کو روکنے کا ذکر ہے۔ خاتمہ پر ان آیات کی حقیقت بیان کی جاتی ہے اور ان کے منکرین کی سزا کا دوبارہ ذکر کردیا جاتا ہے۔

آیت 7 { وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ } ”بربادی ہے ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار کے لیے۔“

آیت 7 - سورہ جاثیہ: (ويل لكل أفاك أثيم...) - اردو