سورہ جاثیہ: آیت 12 - ۞ الله الذي سخر لكم... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورہ جاثیہ

۞ ٱللَّهُ ٱلَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ ٱلْبَحْرَ لِتَجْرِىَ ٱلْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِۦ وَلِتَبْتَغُوا۟ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اُس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu allathee sakhkhara lakumu albahra litajriya alfulku feehi biamrihi walitabtaghoo min fadlihi walaAAallakum tashkuroona

آیت 12 کی تفسیر

آیت نمبر 12 تا 13

اللہ کی یہ چھوٹی سی مخلوق انسان پر اللہ کے بڑے کرم ہیں کہ اس نے اس کے لئے اس کائنات کی عظیم مخلوقات کو مسخر کردیا ہے۔ اور ان مخلوقات سے یہ مختلف طریقوں سے فائدہ اٹھا تا ہے اور اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ سمجھایا ہے کہ اس کائنات کا قانون فطرت کیا ہے ؟ جس کے مطابق یہ کائنات چلتی ہے اور اس کے خلاف نہیں جاسکتی۔ اگر اللہ کی جانب سے انسان کو اس قدر علمی صلاحیت نہ دی گئی ہوتی تو اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ ان کائناتی قوتوں کو اس طرح مسخر کر کے ان سے اس طرح استفادہ کرتا بلکہ اس کے لئے ان قوتوں کے اندر زندہ رہنا بھی مشکل ہوجاتا کیونکہ انسان ایک چھوٹا سا کیڑا ہے اور فطرت کی قوتیں نہایت ہی عظیم القوت ، عظیم الجثہ اور بڑے بڑے افلاک ہیں۔

سمندر ان بڑی قوتوں میں سے ایک ہے جسے انسان نے مسخر کرلیا ہے۔ انسان کو اللہ نے اس کی ساخت اور خصوصیات کا علم دیا اور انسان نے معلوم کیا کہ کشتی اس عظیم اور سرکش سمندر کے اوپر چل سکتی ہے اور اس کی بھپری ہوئی جبار موجوں کے ساتھ ٹکرا سکتی ہے اور اسے ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

لتجری الفلک فیہ بامرہ (45 : 12) “ تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں ”۔ اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو یہ خصوصیات دیں اور کشتی کے مواد کو تیرنے کی خصوصیات دیں۔ فضا کے دباؤ، ہواؤں کی تیزی اور زمین کی کشش کی خصوصیات پیدا کیں اور وہ دوسرے خصائص اس میں رکھے جن کی وجہ سے بحری سفر آسان ہوا اور انسان کو اس کام کا علم دیا کہ وہ سمندر مخلوق سے نفع اٹھائے اور دوسرے فوائد بھی حاصل کرے۔

ولتبتغوا من فضلہ (45 : 12) “ اور تم اس کا فضل تلاش کرو ”۔ مثلاً سمندر میں شکار ، زیب وزینت کا سامان ، تجارت ، معلوماتی سفر ، تجربات ، مشقیں ، ورزش اور تفریح وغیرہ۔ غرض وہ سارے فوائد جو یہ چھوٹا سا انسان سمندروں سے حاصل کرتا ہے۔

غرض اللہ نے انسان کے لئے کشتی اور سمندر دونوں کو مسخر کیا کہ وہ اللہ کے فضل کی تلاش کرے۔ پھر اللہ کا شکر کرے کہ اللہ نے یہ فضل و کرم ، یہ انعامات اور یہ تسخیر اور یہ علم اسے دیا۔

ولعلم تشکرون (45 : 12) “ اور تم شکر گزار بنو ”۔ اللہ تعالیٰ پھر اس قرآن کے ذریعہ انسان کو ہدایت کرتا ہے کہ اس ذات باری کی وفاداری کرو ، اس سے تعلق قائم کرو ، اور یہ بات معلوم کرو کہ تمہارے اور اس کائنات کے درمیان ایک تعلق ہے اور وہ یہ کہ تم اس کا حصہ ہو اور ایک ناموس فطرت کے تحت چل رہے ہو اور تم دونوں کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔

سمندروں کی تسخیر کے خصوصی ذکر کے ساتھ یہ پوری کائنات بھی بالعموم تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ زمین اور آسمانوں کے درمیان پائے جانے والی تمام قوتیں ، نعمتیں اور مفید چیزیں جو اس کے لئے فرائض منصب خلافت کی ادائیگی میں مفید و معاون ہیں۔

وسخر لکم ۔۔۔۔۔۔ جمیعا منہ (45 : 13) “ اس نے زمین اور آسمان کی ساری ہی چیزیں تمہارے لیے مسخر کردیں ، سب کچھ اپنے پاس سے ”۔ اس کائنات میں جتنی چیزیں بھی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور اسی کی ہیں۔ وہی ان کا پیدا کرنے والا اور مدبر ہے۔ اس نے ان کو مسخر کر رکھا ہے۔ اور ان پر اس چھوٹی سی مخلوق کو مسلط کردیا ہے۔ انسان جسے اللہ نے اس کائنات کے مزاج اور اس کے قوانین کو سمجھنے کی قوت دی اور وہ اپنی قوت اور طاقت سے کہیں بڑی قوتوں کو مسخر کرتا ہے۔ یہ سب کام اللہ کا فضل و کرم ہے۔ اس انسان پر اور جو لوگ تفکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں آیات و نشانات ہیں بشرطیکہ وہ اپنی اس عقل سے یہ فائدہ بھی اٹھائیں کہ اس کائنات اور اس انسان کا ایک پیدا کرنے والا بھی ہے جس نے اسے یہ سب کچھ دیا ہے اپنے کرم خاص سے :

ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (45 : 13) “ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں ”۔ یہ فکر اور یہ تدبر اس وقت تک صحیح ، جامع اور گہرا نہ ہو سکے گا جب تک وہ ان قوتوں ، مسخر شدہ قوتوں کے پیچھے اس بڑی قوت کی طرف جھانکنے کی کوشش نہ کرے گا ، جس نے ان تمام قوتوں کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر انسان کو ان رازوں سے آگاہ کیا کہ ان کا راز یہ ہے اور ان کا قانون قدرت یہ ہے اور فطرت کائنات اور فطرت انسان ایک ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان یہ تعلق ہے۔ اس تعلق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان کو علم حاصل ہوا ، اسے قوت اور کنٹرول حاصل ہوا ، اس نے ان قوتوں کو مسخر کر کے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ اگر یہ تعلق نہ ہوتا تو انسان کو ان چیزوں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا۔

٭٭٭

جب بات یہاں تک پہنچی ہے اور ایک مومن اس کائنات کے قلب تک جا پہنچتا ہے۔ اسے شعور حاصل ہوجاتا ہے کہ قوت کا حقیقی سرچشمہ کیا ہے ، یہ کہ اس کائنات کے اسرار و رموز کی آگاہی دراصل قوت کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ اب مومنین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ شرافت ، اخلاق عالیہ ، وسعت قلبی اور رواداری اختیار کریں اور جو ضعیف ، ناتواں اور جاہل لوگ اس خزانے اور اس بھرپور خزانہ علم و معرفت سے محروم ہیں ، ان پر رحم کریں ، ان کے ساتھ ہمدردی کریں کہ یہ لوگ ان عظیم حقائق سے محروم ہیں۔ جو اللہ کے نوامیس فطرت کو نہیں دیکھتے ، جو تاریخ میں سنن الٰہیہ کو تلاش نہیں کرتے جو اس کائنات کے اسر اور موز سے واقف نہیں اور اس لیے وہ اس خالق کی عظمت سے بھی بیخبر ہیں۔

آیت 12 { اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ } ”اللہ ہی ہے جس نے مسخر کردیا تمہارے لیے سمندر کو تاکہ اس میں کشتیاں چلیں اس کے حکم سے“ { وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } ”تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔“ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے یہاں تجارت کے ذریعے روزی تلاش کرنا مراد ہے ‘ جبکہ کشتیاں اور جہاز سمندروں اور دریائوں میں سامانِ تجارت کی نقل و حمل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ابن آدم پر احسانات اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں بیان فرما رہا ہے کہ اسی کے حکم سے سمندر میں اپنی مرضی کے مطابق سفر طے کرتے ہوئے بڑی بڑی کشتیاں مال اور سواریوں سے لدی ہوئی ادھر سے ادھر لے جاتے ہو تجارتیں اور کمائی کرتے ہو۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجا لاؤ نفع حاصل کر کے رب کا احسان مانو پھر اس نے آسمان کی چیز جیسے سورج چاند ستارے اور زمین کی چیز جیسے پہاڑ نہریں اور تمہارے فائدے کی بیشمار چیزیں تمہارے لئے مسخر کردی، یہ سب اس کا فضل و احسان انعام و اکرام ہے اور اسی ایک کی طرف سے ہے، جیسے ارشاد ہے آیت (وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ 53؀ۚ) 16۔ النحل :53) ، یعنی تمہارے پاس جو نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں اور ابھی بھی سختی کے وقت تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ نام اس میں نام ہے اس کے ناموں میں سے پس یہ سب اس کی جانب سے ہے کوئی نہیں جو اس سے چھینا چھپٹی یا جھگڑا کرسکے ہر ایک اس یقین پر ہے کہ وہ اسی طرح ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ مخلوق کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نور سے اور آگ سے اور اندھیرے سے اور مٹی سے اور کہا جاؤ ابن عباس کو اگر دیکھو تو ان سے بھی دریافت کرلو۔ اس نے آپ سے بھی پوچھا یہی جواب پایا پھر فرمایا واپس ان کے پاس جاؤ اور پوچھا کہ یہ سب کس چیز سے پیدا کئے گئے ؟ وہ لوٹا اور سوال کیا تو آپ نے یہی سوال کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ یہ اثر غریب ہے۔ اور ساتھ ہی منکر بھی ہے غور و فکر کی عادت رکھنے والوں کے لئے اس میں بھی بہت نشانیاں ہیں پھر فرماتا ہے کہ صبر و تحمل کی عادت ڈالو منکرین قیامت کی کڑوی کسیلی سن لیا کرو، مشرک اور اہل کتاب کی ایذاؤں کو برداشت کرلیا کرو۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں جہاد اور جلا وطنی کے احکام نازل ہوئے۔ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے یعنی اللہ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ پھر فرمایا کہ ان سے تم چشم پوشی کرو ان کے اعمال کی سزا خود ہم انہیں دیں گے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر نیکی بدی کی جزا سزا پاؤ گے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

آیت 12 - سورہ جاثیہ: (۞ الله الذي سخر لكم البحر لتجري الفلك فيه بأمره ولتبتغوا من فضله ولعلكم تشكرون...) - اردو