سورہ جاثیہ: آیت 1 - حم... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ جاثیہ

حمٓ

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 235 تشریح آیات

1۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 23

آیت نمبر 1 تا 5

حا۔ میم کے بعد ، یہ آتا ہے کہ یہ کتاب اللہ عزیز اور حکیم کی طرف سے ہے اور اس کتاب کا مصدر اور فبع اللہ کی ذات ہے اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ یہ معجزہ کتاب انہی حروف سے بنائی گئی ہے۔ جیسا کہ حروف مقطعات کے بارے میں ہماری رائے ہے اور یہ کہ یہ چیلنج ہے ان کو کہ تم ان حروف سے ایسی کتاب نہیں بنا سکتے۔ لہٰذا حا میم دلیل ہے تنزیل الکتب پر کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ زبردست قدرت والا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا اور حکیم ہے جس نے اس پوری کائنات کو حکمت سے بنایا اور تمام معاملات اس ذات کے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جو سورت کی فضا کے ساتھ مناسب ہے ، جس میں طرح طرح کے نفوس اور ان کی ذہنیت دکھائی گئی ہے۔

قبل اس کے کہ لوگوں کے سامنے ، اس کتاب کے حوالے سے ان کا موقف رکھاجائے ، ان کو ان آیات و نشانات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جو اس کائنات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ آیات اور یہ نشانیاں اس بات کے لئے کافی تھیں کہ یہ لوگ ایمان لاتے اور یہ لوگ اپنے دلوں کو اگر ان کی طرف متوجہ کرتے تو ان کے دل کھل جاتے اور اس کتاب کے نازل کرنے والے عظیم اللہ کی طرف ان کا احساس تیز ہوجاتا جو اس کائنات کا ایک عظیم خالق ہے۔

ان فی السموت والارض لایت للمومنین (45 : 3) “ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بیشمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ”۔ اور وہ نشانیاں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ کسی چیز تک محدود نہیں ہیں ، کسی حال تک محدود نہیں ہیں ، اس کائنات کی جس چیز کو بھی انسان دیکھے اور مطالعہ کرے تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہی پہلو ایک معجزہ ہے گویا “ جا اینجا است ”۔ سوال یہ نہیں ہے کہ نشانی کہاں ہے ، سوال یہ ہے کہ کون سی چیز نشانی نہیں ہے ؟

ذرا دیکھو ان آسمانوں اور ان کے اندر تیرنے والے عظیم الجثہ اجرام فلکی کو ، پھر اس کی طویل و عریض وسعتوں کو ، یہ اس طرح پھیلے ہوئے ہیں جس طرح ذرات اور رائی کے دانے ، بمقابلہ اس فضا اور خوفناک حد تک عریض و طویل فضا کے نیز یہ نہایت ہی خوبصورت ہیں۔

پھر ذرا اس بات کو دیکھو کہ ان اجرام کی گردش اپنے اپنے مدار میں کس قدر تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ نہایت ہی خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ ، انسان یہ چاہتا ہے کہ دیکھتا ہی رہ جائے اور اس کے ملاحظے سے جی بھرتا ہی نہیں۔ بعض گردشیں کروڑوں سالوں میں مکمل ہوتی ہیں اور ایک سیکنڈ کا فرق نہیں پڑتا۔

اور یہ زمین جسے انسان بہت ہی طویل و عریض سمجھتا ہے ، یہ ایک نہایت ہی چھوٹا سا ذرہ ہے ، بمقابلہ ان بڑے ستاروں کے (صرف مشتری اس سے ایک ہزار گنا زیادہ بڑا ستا ہے ) پھر یہ ذرہ یعنی زمین ، اس وسیع فضائے کائنات کے اندر تیر رہی ہے۔ اگر اللہ کی قدرت نہ ہوتی جس نے اسے تھام رکھا ہے اور اپنے مدار میں بند کر رکھا ہے تو یہ اس فضائے بسیط میں اپنی راہ گم کردیتی لیکن اللہ کی قدرت کا یہ کمال ہے کہ اس کائنات کا ذرہ بھی یہاں گم نہیں ہو سکتا۔

پھر وہ سازوسامان جو اللہ نے اس زمین میں ، اس کے ایک خاص مقام اور نظام کی وجہ سے ودیعت کیا اور جس کی وجہ سے اس کے اوپر زندگی ممکن ہوئی ، اس کا تو ہر ہر پہلو ایک نشانی ہے۔ اس سازو سامان کی ہر چیز کے اپنے اپنے خواص ، نہایت باریک بینی کے ساتھ ، بڑی کثرت اور ہم آہنگی کے ساتھ یہاں جمع کئے گئے ہیں۔ اگر کسی ایک چیز کی خاصیت و ماہیت شمہ برابر بدل جائے تو زندگی کا پورا نظام خلل پذیر ہوجائے یا سرے سے ختم ہوجائے۔ غرض اس زمین کی ہر زندہ شے ایک علیحدہ نشانی ہے۔ ہر چیز کا ایک ایک جزء اور ایک ایک عضو ایک الگ نشانی ہے۔ اس معاملے میں عظیم الجثہ اشیاء اور ذرہ برابر کی اشیاء نشانی ہیں۔ ایک عظیم درخت سے ایک چھوٹا سا پتہ اٹھا لو ، اس کائنات کی پہنائیوں میں ایک چھوٹا سا نباتاتی پودا لے لو اور تجریہ کرو ، اپنے حکم اور اپنی شکل کے اعتبار سے یہ ایک نشانی ہے۔ رنگ میں بھی اور چھوٹے پن میں بھی ۔ اپنے مقاصد کے لئے بھی نشانی اور اپنے جسم میں بھی نشانی۔ انسان یا حیوان کے جسم کا ایک بال ہی لے لو ، یہ بھی ایک نشانی ہے ، اس کی ترکیب ، اس کا رنگ نشانی ہے ، ہر پرندے کا ہر پر ایک نشانی ہے ، اس کا مادہ ترکیب ، اس کے مقاصد ، اور اس کی ہم آہنگی۔ اگر انسان اس زمین و آسمان میں چشم بصیرت کے ساتھ دیکھے تو اسے نشانات الٰہیہ کا اژدہام نظر آئے اور انسان اعلان کر دے کہ اس کی فکر و نظر سے یہ تمام نشانات و راء ہیں۔

لیکن یہ نشانیاں کس کے لئے ہیں ؟ خود یہ آیات بنا دیتی ہے ، یہ نشانیاں کس کے سامنے پردہ افگند ہوتی ہیں ۔ ان کا احساس کس کو ہو سکتا ہے لقوم یوقنون (45 : 4) “ ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں ”۔ جو مومن ہیں اور مومن ہی نور ربی سے دیکھتا ہے۔

پس ایمان ہی وہ قوت ہے جو دلوں کے دروازے کھولتا ہے ، پھر انسان پکار سنتا ہے ، کوئی روشنی دلوں کو اندر آکر منور کرسکتی ہے ، کوئی تازہ باد نسیم کے جھونکے دنیائے دل پر ترو تازگی بکھیر سکتے ہیں اور ایمان ہی کی وجہ سے انسان ، اس کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نشانیاں دیکھ سکتا ہے ، یہ ایمان ہی ہے جو دلوں کو ایسی فرحت بخش تازگی عطا کرتا ہے اور ان کے اندر رقت اور لطاقت پیدا کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں یہ دل وہ اشارات وصول کرتے ہیں جو اس کائنات میں سے ہر طرف سے آرہے ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ یہ اشارے دست قدرت کی طرف سے ہیں اور دست قدرت جن جن چیزوں کو بناتی ہے ان کے اندر یہ اشارات موجود ہوتے ہیں۔ اللہ کی پیدا کردہ ہر چیز معجز ہے اور مخلوق اس کی نقل بھی نہیں کرسکتی۔ اب اس کائنات کی طویل اور دور دراز وادیوں سے واپس لا کر انسان کو اس کی اپنی ذات کی طرف لایا جاتا ہے ، جو اس کے قریب ہے۔ اور وہ جانور جو انسان کے قریب ہیں ان پر غوروفکر کی دعوت !

وفی خلقکم ۔۔۔۔۔ یوقنون (45 : 4) “ اور تمہاری اپنی پیدائش میں اور ان حیوانات میں جن کو اللہ زمین میں پھیلا رہا ہے بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں ”۔ انسان کو یہ عجیب ساخت عطا کرنا ، پھر اسے ایسی عجیب خصوصیات عطا کرنا ، اور نہایت ہی گہرے ، لطیف اور پیچیدہ فرائض اس کے حوالے کرنا جن میں سے ہر ایک معجزانہ ہے۔ جسم انسانی کے ایسے اندرونی معجزات ہیں کہ رات اور دن دیکھتے دیکھتے وہ ہمارے لئے عجوبے ہی نہیں ہرے۔ اس لیے کہ ہمارے اندر اور ہمارے قریب ہیں لیکن صرف ایک عضو کا تجربہ کیا جائے تو انسان کا سر چکرا جاتا ہے اور انسان اس پیچیدہ ترکیب کی ہولناکیوں سے مبہوت رہ جاتا ہے۔

زندگی ، چاہے وہ اپنی سادہ ترین صورت میں کیوں نہ ہو وہ تو ایک معجزہ ہے۔ امیبا جس کا ایک ہی خلیہ ہوتا ہے اور امیبا سے بھی چھوٹی زندگی بھی معجزہ ہے۔ رہا انسان تو اس کی زندگی تو بہت ہی پیچیدہ اور سخت اور عجیب و غریب ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے بھی وہ نہایت ہی پیچیدہ اور معجزاتی ہے۔ عضوی ترکیب سے اس کی نفسیات زیادہ پیچیدہ ہیں۔

اور وہ مخلوقات جو اس زمین پر ہر طرف رینگتی ہے ، اور جس کی لاتعداد انواع و اقسام ہیں ، بیشمار جسم اور اشکال ہیں جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس زندگی میں سے چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز سب اپنی اپنی جگہ معجزاتی ہیں ، یہ اپنی عمر اور جنس کے اعتبار سے بھی معجزاتی شان رکھتی ہیں۔ اور یہ قدرتی طور پر اپنی نوع کی حفاظت کرتی ہیں اور کوئی نوع دوسری انواع کو فنا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اور دست قدرت نے ان انواع و اقسام کی تعداد اپنے پاس رکھی ہوئی ہے کسی میں کمی کرتا ہے اور کسی میں اضافہ ۔ اور ہر ایک کو اس کے خصائص دیتا ہے اور قوت وصلاحیت دیتا ہے۔ اس طرح حیوانات کے تمام انواع و اقسام کی آبادی کے اندر ایک توازن قائم رہتا ہے۔

گدھ اور باز جارح اور مضر پرندے ہیں اور ان کی عمر بھی لمبی ہے لیکن ان کی آبادی بہت کم ہے اور بہت کم انڈے دیتے ہیں ۔ اگر گدھ اور باز چڑیوں کی طرح ہوتے تو ذرا سوچ لیں کہ اس دنیا میں شاید چھوٹے بڑے کسی پرندے کی نسل نہ ہوتی۔

حیوانات میں سے شیر درندہ جانور ہیں ، اگر ان کی نسل ہر نوں اور بھیڑ بکریوں کی طرح زیادہ ہوتی تو وہ جنگلات میں کوئی حیوانی مواد نہ چھوڑتا۔ لیکن یہ قدرت ہے جس نے اس کی نسل کو محدود رکھا ہے اور وہ مطلوبہ تعداد ہی میں ہوتے ہیں جبکہ ہرن اور بھیڑ اور بکریاں زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ قدرت کو معلوم ہے کہ ان کی زیادہ ضرورت ہے۔

ایک مکھی ایک ہی زندگی میں لاکھوں انڈے دیتی ہے لیکن اس کی زندگی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے ہوتی ہے۔ اگر ایک مکھی کی عمر طبیعی کئی ماہ یا سال ہوتی تو تمام انسانی جسموں کو ڈھانپ دیتیں ، آنکھوں کو کھا جاتیں لیکن دست قدرت نے ان پر ایک قدرتی بند بھی رکھا ہے اور اس کی عمر کو محدود کردیا ہے۔

یونہی ، ہر چیز اور ہر نوع کی یہ حالت ہے ۔ اللہ کی تدبیر اور تقدیر انسانوں اور حیوانات میں اپنا کام کرتی ہے اور ہر چیز کے اندر ایک قسم کی نشانی ہے۔ اور یہ نشانی پکار پکار کہتی ہے کہ اللہ کی آیات میں غورو و تدبر کرو اور یہ آیات لقوم یوقنون (45 : 4) “ ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں ”۔

یقین ایسی حالت ہے جو دلوں کو تیار اور مائل اور متاثر کرنے والی حالت ہے ، تا کہ وہ احساس کریں ، متاثر ہوں اور اللہ کی طرف مائل ہوں۔ ایمان و یقین دلوں کو ثابت ، برقرار اور مطمئن کردیتا ہے ۔ ایسے دل بڑے ٹھہراؤ سے اس کائنات پر غور کرتے ہیں اور اس سے حقائق اخذ کرتے ہیں۔ ان میں سے بےچینی ، پریشانی ، بےثباتی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے دلوں کو اگر اس دنیا میں کم کچھ ملے تب بھی وہ اس سے بڑے نتائج اور آثار حاصل کرتے ہیں۔

اس کے بعد اپنی ذات اور اپنے اردگرد کے حیوانات سے انہیں اس پوری کائنات کے مظاہر کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کائنات سے ان کے لئے اور دوسرے زندوں کے لئے جو اسباب حیات پیدا کئے جاتے ہیں اور فراہم کئے گئے ہیں ذرا ان پر بھی غور کرو۔

واختلاف الیل ۔۔۔۔۔ لقوم یعقلون (45 : 5) “ اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھاتا ہے ، ہواؤں کی گردش میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں ”۔ گردش لیل و نہار وہ منظر ہے جس کے باربار کی تکرار کی وجہ سے اس کی جدت انسانوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی پہلی مرتبہ ان کو دیکھے یا پہلی مرتبہ رات کو دیکھے تو یہ ایک عجیب منظر ہے جو دل شاعرانہ احساس رکھتے ہیں وہ اس جدت کو سمجھتے ہیں اور گردش لیل ونہار کو اس کائنات کا ایک حیران کن نظام سمجھتے ہیں۔

انسانوں کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کائنات کے بعض مظاہر کے بارے میں تو اب انسانوں نے وسیع معلومات حاصل کرلی ہیں۔ اب انسان جانتے ہیں کہ گردش لیل و نہار دراصل زمین کی گردش محوری سے پیدا ہوتی ہے جو یہ سورج کے سامنے کرتی ہے اور یہ گردش چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے لیکن اس علم کے مطابق بھی یہ انوکھا منظر اور عجوبہ ابھی ختم نہیں ہے کیونکہ یہ کرۂ زمین ہوا کے اندر معلق ہے اور ایک خاص رفتار کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ کسی چیز کا سہارا نہیں لے رہا ہے۔ اللہ نے اسے تھام رکھا ہے اور وہ ایک سیکنڈ بھی اپنی رفتار کم نہیں کرتا ۔ اور یہ رفتار ایسی ہے کہ تمام زندہ مخلوقات اس کے اوپر بڑے آرام سے رہ رہی ہے اور یہ مخلوق اس فضا میں معلق گولے کے اوپر ٹکی ہوئی ہے جو فضا میں گردش پر ہے۔

اب انسان کا علم قدرے اور وسعت اختیار کرتا ہے کہ اس گردش محوری کے اثرات اس زمین کے اوپر اور تمام زندہ مخلوقات پر کیا ہیں۔ انسان نے معلوم کیا کہ ان اوقات کو اس طرح رات اور دن میں تقسیم کرنے ہی سے اس کرۂ ارض پر زندگی ممکن بنائی گئی ہے۔ اگر گردش لیل و نہار نہ ہوتے یا اس اندازے اور اس نظام اور رفتار سے نہ ہوتے تو اس زمین کی سطح پر موجود ہر چیز بدل جاتی اور خصوصاً انسانی زندگی ختم ہوجاتی۔ چناچہ یوں اس علم کے بعد معلوم ہوا کہ گردش لیل و نہار اللہ کی نشانیوں میں سے اہم نشانی ہے۔

وما انزل اللہ ۔۔۔۔۔۔ بعد موتھا (45 : 5) “ اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمینوں کو جلا اٹھاتا ہے ”۔ رزق سے بھی تو پانی مراد ہوتا ہے جو آسمانوں سے آتا ہے جس طرح قدیم مفسرین نے اس سے یہی سمجھا ہے لیکن آسمانوں سے آنے والا صرف پانی بہت وسیع ہے۔ آسمانوں سے جو شعاعیں نکلتی ہیں وہ زمین کو زندہ کرنے میں پانی سے کوئی کم موثر نہیں ہیں بلکہ ان شعاعوں ہی کے اثر سے حکم الٰہی سے پانی پیدا ہوتا ہے۔ سورج کی حرارت ہی پانی کو بخارات میں بدلتی ہے۔ اور یہ بخارات کثیف ہو کر بارش کی شکل اختیار کرتے ہیں اور نہریں اور چشمے بہتے ہیں۔ اور اس سے زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجاتی ہے ، پانی سے بھی اور حرارت سے بھی۔

وتصریف الریح (45 : 5) “ اور ہواؤں کی گردش میں ”۔ یہ ہوائیں شمالاً و جنوباً چلتی ہیں ، شرقاً اور غرباً چلتی ہیں ، سیدھی اور ٹیٹرھی چلتی ہیں ، گرم اور سرد چلتی ہیں۔ اس نہایت ہی پیچیدہ نظام کے مطابق جو دست قدرت نے اس کائنات کی تخلیق کے اندر رکھ دیا ہے اور اس کی ہر چیز کو حساب و مقدار سے رکھا ہے اور اس میں کوئی چیز اتفاق اور مصارفت پر نہیں چھوڑا ، پھر ہواؤں کے چلنے کا زمین کی گردش محوری سے گہرا تعلق ہے۔ اور ان کا تعلق گردش لیل و نہار سے بھی ہے اور اس رزق سے بھی ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ غرض حرارت ، ہوا وار رات اور دن کا نظام سب مل کر یہاں کام کرتے ہیں اور ان میں آیات و نشانات ہیں۔ لقوم یعقلون (45 : 5) “ ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں ”۔ کیونکہ اس میدان میں عقل ہی کام کرسکتی ہے۔

٭٭٭

یہ تو ہیں اس کائنات کی بعض نشانیاں جن کی طرف اشارہ کیا گیا ، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں اور پھر ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ آیات ان کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ اشارات دلوں کو چھوتے ہیں ، ان کو جگاتے ہیں اور یہ آیات الٰہیہ انسانی فطرت سے براہ راست مخاطب ہوتی ہیں کیونکہ فطرت انسانی اور اس کائنات کے درمیان براہ راست فطری رابطہ ہے۔ اور اس رابطے کو قرآن کا طرز استدلال ہی زندہ اور تازہ کرسکتا ہے۔ جو لوگ ان آیات فطرت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان سے کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ کسی اور چیز کو تسلیم کریں گے جن لوگوں کو قرآن کریم کے یہ اشارات اور آیات نہیں جگا سکتیں ، ان کو کوئی اور آواز نہیں جگا سکتی خواہ وہ جس قدر تیز آواز ہو۔ ذرا سنئے :

آیت 1 { حٰمٓ } ”ح ‘ م۔“

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر کریں۔ اللہ کی نعمتوں کو جانیں اور پہچانیں پھر ان کا شکر بجا لائیں دیکھیں کہ اللہ کتنی بڑی قدرتوں والا ہے جس نے آسمان و زمین اور مختلف قسم کی تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے فرشتے، جن، انسان، چوپائے، پرند، جنگلی جانور، درندے، کیڑے، پتنگے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ سمندر کی بیشمار مخلوق کا خالق بھی وہی ایک ہے۔ دن کو رات کے بعد اور رات کو دن کے پیچھے وہی لا رہا ہے رات کا اندھیرا دن کا اجالا اسی کے قبضے کی چیزیں ہیں۔ حاجت کے وقت انداز کے مطابق بادلوں سے پانی وہی برساتا ہے رزق سے مراد بارش ہے اس لئے کہ اسی سے کھانے کی چیزیں اگتی ہیں۔ خشک بنجر زمین سبز و شاداب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کی پیداوار اگاتی ہے۔ شمالی جنوبی پروا پچھوا ترو خشک کم و بیش رات اور دن کی ہوائیں وہی چلاتا ہے۔ بعض ہوائیں بارش کو لاتی ہیں بعض بادلوں کو پانی والا کردیتی ہیں۔ بعض روح کی غذا بنتی ہیں اور بعض ان کے سوا کاموں کے لئے چلتی ہیں۔ پہلے فرمایا کہ اس میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں پھر یقین والوں کے لئے فرمایا پھر عقل والوں کے لئے فرمایا یہ ایک عزت والے کا حال سے دوسرے عزت والے حال کی طرف ترقی کرنا ہے۔ اسی کے مثل سورة بقرہ کی آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ01900ڌ) 3۔ آل عمران :190) ، ہے امام ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک طویل اثر وارد کیا ہے لیکن وہ غریب ہے اس میں انسان کو چار قسم کے اخلاط سے پیدا کرنا بھی ہے۔ واللہ اعلم۔

آیت 1 - سورہ جاثیہ: (حم...) - اردو