قل سبحان ربی ھل کنت الا بسرا (39) ” اے نبی ﷺ ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار ! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟ “ یہ ہے ادب رسول ، جو اپنی بشریت کی حدود پر جا کر رک جاتے ہیں ، رسول اپنے مقررہ فرائض منصبی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ وہ اللہ سے مطالبات نہیں کرتے۔ اور اپنے فرائض کے حدود سے آگے بڑھ کر بھی کام نہیں کرتے۔
وہ بڑا شبہ جو مختلف اقوام و ملن کو حضرت محمد ﷺ سے قبل لاحق ہوا اور آپ ﷺ کی بعثت کے بعد بھی کئی ملتوں کو لاحق ہوا اور جس کی وہ سے ان اقوام نے رسولوں کی تصدیق نہ کی اور ان ہدایات کو تسلیم نہ کیا جو رسول لے کر آئے تھے وہ یہ تھا کہ یہ لوگ اس بات کو مستبعد سمجھتے تھے کہ کوئی رسول بشر بھی ہوسکتا ہے اور یہ کہ رسول فرشتہ نہیں ہوتا۔
وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ان لوگوں کے ان تمام مطالبات کے جواب میں صرف ایک بات فرمائی گئی :قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًایعنی میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں۔ میں بھی اسی طرح پیدا ہوا ہوں جس طرح تم سب لوگ پیدا ہوئے ہو۔ میں تمہاری ہی طرح کھاتا پیتا ہوں دنیا کے کام کاج کرتا ہوں بازاروں میں چلتا پھرتا ہوں اور میں نے ہر سطح پر کاروبار بھی کیا ہے۔ میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اور میری سیرت اور اخلاق و کردار روز روشن کی طرح تمہارے سامنے ہے۔ مجھ میں اور تم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے اور اللہ کا وہ پیغام جو بذریعہ وحی مجھ تک پہنچتا ہے وہ میں تم لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہوں۔اگرچہ سیرت و کردار اور مرتبہ رسالت و نبوت کے اعتبار سے عام انسانوں سے نبی اکرم کی کوئی مناسبت نہیں مگر عام بشری تقاضوں کے حوالے سے انہیں یہ جواب دیا گیا کہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔