سورۃ الاسراء: آیت 44 - تسبح له السماوات السبع والأرض... - اردو

آیت 44 کی تفسیر, سورۃ الاسراء

تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا

اردو ترجمہ

اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tusabbihu lahu alssamawatu alssabAAu waalardu waman feehinna wain min shayin illa yusabbihu bihamdihi walakin la tafqahoona tasbeehahum innahu kana haleeman ghafooran

آیت 44 کی تفسیر

اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس حقیقت کا اظہار کر رہا ہے ، اللہ کی تسبیح و تہلیل کر رہا ہے ، یہ پوری کائنات ایک زندہ کائنات ہے اور اللہ کی تسبیح و تہلیل میں مصروف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکی ہوئی ہے۔

یہ ایک منفرد کائنات منظر ہے ، جب انسان سوچتا ہے کہ ہر شجر و حجر ، ہر بیج اور ہر پتہ ، ہر پھل اور پھول ، ہر پودا اور ہر درخت ، پر چرند اور ہر پرند ، ہر انسان اور ہر حیوان ، ہر دوڑنے والا اور ہر رینگنے والا ، ہر اڑنے والا اور ہر تیرنے والا ، زمین کا ہر مکیں اور ہوا کا ہر باسی ، پستیوں میں رہنے والا یا بلندیوں پر بسیرا رکھنے والا ، سب کے سب اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور ثنا خوان ہیں۔

جب انسان تمام چیزوں کی حقیقت اور ماہیت پر غور کرتا ہے تو اس کے شعور کے اندر ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے ، اسے اپنے ارد گرد تمام مخلوق حرکت کرتی ہوتی اور زندہ نظر آتی ہے اور وہ اسے محسوس کرتا ہے ، وہ جس چیز کو بھی ہاتھ سے چھوٹا ہے یا پائوں سے روندتا ہے ، وہ اسے ثنا خوان الٰہی نظر آتی ہے اور زندہ و تابندہ دکھائی دیتی ہے۔

وان من شیئی الا یسبح بحمدہ (71 : 44) ” کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو “۔ اور اس کی تسبیح کا اندازہ مخصوص ہے۔

ولکن لا تفقھون تسبیحھم (71 : 44) ” مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو “۔ تم اس لئے نہیں سمجھتے کہ مادیت نے تمہاری روح کو چھپا رکھا ہے ، تمہارے دل ان کی آواز کو نہیں سنتے ، اور اس کائنات کے اسرار و رموز پر تم نے غور نہیں کیا۔ اس کائنات کے ان قوانین قدرت پر تم نے غور نہیں کیا جو اس کے اندر جاری وساری ہیں۔ حالانکہ در حقیقت اس کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے رب کی طرف رواں و کشاں ہے۔ قوانین قدرت کے مطابق اس کائنات کے مدبر کا حدی خواں ہے۔

یاد رکھو ، کہ جب روح شفاف ہوجاتی ہے اور انسان روحانی صفائی کے مدارج طے کرلیتا یہ تو وہ سب چیزوں کی تسبیح سنتا ہے ، ہر متحرک اور ہر ساکن مخلوق کی آواز وہ سنتا ہے۔ اسے ہر چیز کی نبض چلتی نظر آتی ہے اور ہر چیز کی تسبیح سنائی دیتی ہے۔ اس کا رابطہ عالم بالا سے ہوجاتا ہے اور وہ اس کائنات کے ان اسرار و رموز کو دیکھتا ہے جس سے غافل لوگ بیخبر ہوتے ہیں ، کیونکہ مادیت کے پردہ نے ان غافلوں کی روح کو بار رکھا ہوتا ہے ، حالانکہ روح کائنات ہر ساکن و جامد میں بھی متحرک ہے۔ ہر چیز میں ہر شجر و حجر میں۔

انہ کان حلیما غفورا (71 : 44) ” حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے “۔ حلم اور مغفرت کا ذکر یہاں اسی لئے کیا گیا کہ انسان ہر معاملے میں پر تقصیر ہے۔ خصوصاً وہ اس حقیقت کے اور اک سے قاصر ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی ثنا خواں ہے۔ نہ صرف یہ ہے کہ وہ نبات و جماد کے اقرار و تسبیح سے جاہل بلکہ یہ انسان انسان ہوتے ہوئے بھی باری تعالیٰ کا منکر بن جاتا ہے۔ کوئی شرک کرتا ہے ، کوئی اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتا ہے ، کوئی بلکہ اکثریت کائنات کی تسبیح سے بیخبر ہے ، حالانکہ شجر و حجر کے مقابلے میں بشرپر زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کا مطیع ہو اور ثنا خواں ہو اور ذات باری کی معرفت کا حامل ہو۔ اگر اللہ کی درگزر نہ ہوتی ، وہ مہلت نہ دیتا ، مغفرت نہ کرتا ، تو کب کے وہ تباہ ہوچکے ہوتے لیکن وہ حلیم و غفور ہے۔ بار بار نصیحت کرتا ہے ، ڈراتا ہے اور نصیحت کرتا ہے۔

کبراء قریش چپکے چپکے قرآن سنا کرتے تھے ، لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرتے تھے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا اثر نہ ہوجائے ، وہ زبردستی اپنے اوپر مرتب ہونیو الے اثرات کو جھڑک دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے اور رسول ﷺ کے درمیان پر دے حائل کر رکھے تھے۔ وہ اپنے آپ کو غافل رکھتے تھے۔ کانوں میں انگلیاں ڈالتے تھے ، چناچہ اللہ نے بھی انہیں ان کی اس روش پر چلنے دیا۔ ان کے اور قرآن کے درمیان پردے حائل ہوگئے۔ ان کے دلوں پر تالے لگ گئی اور کانوں میں بھاری پن آگیا۔

آیت 44 تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ اس کائنات کی ایک ایک چیز چاہے جاندار ہو یا بظاہر بےجان وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ تسبیح کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کائنات کی ہرچیز اپنے وجود سے گویا اپنے خالق کی خلاقی اور اپنے صانع کی صناعی کا اعلان کر رہی ہے۔ جیسے ایک تصویر اپنے مصور کے معیارِ فن کا اظہار کرتی ہے لیکن تمام مخلوقات کا ایک طرز تسبیح قولی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو زبان عطا کر رکھی ہے اور وہ اپنی زبان خاص سے اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے۔ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًاہر چیز کا یہی انداز تسبیح ہے جس کا ادراک انسان نہیں کرسکتے۔ سورة حٰم السجدہ کی آیت 21 میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا ذکر ہے کہ اس نے ہرچیز کو قوت ناطقہ عطا کی ہے۔ روز محشر جب انسانوں کے اپنے اعضاء ان کے خلاف شہادت دیں گے تو وہ حیران ہو کر اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ یہ سب کیا ہے ؟ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ ”ان کے چمڑے جواب میں کہیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا کی ہے جس نے ہرچیز کو بولنا سکھایا ہے۔“

سبحان العلی الاعلی ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت، تسبیح، تنزیہ، تعظیم، جلالت، بزرگی، بڑائی، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لئے مانتے ہیں، ان سے یہ تمام مخلوق برات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے، زمین دھنس جائے، پہاڑ ٹوٹ جائیں۔ طبرانی میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصی تک شب معراج میں لے گئے، جبرائیل آب کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ سبحت السموات العلی من ذی المہابۃ مشفقات الذوی العلو بما علا سبحان العلی سبحانہ وتعالی مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کر رتی ہے۔ لیکن اے لوگو تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تماری زبان میں نہیں۔ حیوانات، نباتات، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں۔ ابن مسعود ؓ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے۔ ابوذر والی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ میں اور حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ میں بھی۔ یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے۔ کچھ لوگوں کو حضور ﷺ نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں اپنی سواریوں کو نہ بنا لیا کرو۔ سنو بہت سے سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر افضل ہوتی ہیں۔ (مسند احمد)سنن نسائی میں ہے کہ حضور ﷺ نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الہٰی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے۔ الحمد للہ کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا ناشکرا ہے۔ اللہ اکبر زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے، سبحان اللہ کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا۔ جب کوئی لا حول والا قوۃ الا باللہ پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مطیع ہوا اور مجھے سونپا۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں۔ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے۔ آپ کو غصہ آگیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانوروں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا ؟ پھر حضور ﷺ واپس چلے ديئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ حضرت نوح ؑ نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں دوسرے تکبر سے روکتا ہوں اور پہلے حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ لا الہ الا اللہ کہتے رہو اس لئے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا سو اگر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے، دوسرا حکم میرا سبحان اللہ وبحمدہ پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ حضرت نوح ؑ نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے اس کی اسناد بوجہ اودی راوی کے ضعیف ہے۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں ستون، درخت، دروازوں کی چولیں، ان کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز، پانی کی کھڑ کھڑاہٹ یہ سب تسبیح الہٰی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورة حج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر ذی روح چیز تسبیح خواں ہے۔ ، جیسے حیوانات اور نباتات۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رحمۃ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابو یزید قاشی نے کہا کہ اے ابو سعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان کے عذاب میں تخفیف رہے (بخاری ومسلم) اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہوجائیں گی تسبیح بند ہوجائے گی واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا، تاخیر کرتا ہے، ڈھیل دیتا ہے، پھر بھی اگر کفر و فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کردیتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ کو مہلت دیتا ہے، پھر جب مواخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا۔ دیکھو قرآن میں ہے کہ جب تیرا رب کسی بستی کے لوگوں کو ان کے مظالم پر پکڑتا ہے تو پھر ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے الخ اور آیت میں ہے کہ بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر آخرش پکڑ لیا۔ اور آیت میں ہے آیت (فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ 45؀) 22۔ الحج :45) ہاں جو گناہوں سے رک جائے، ان سے ہٹ جائے، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے۔ جیسے آیت قرآن میں ہے جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے ؟ پھر استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔ سورة فاطر کے آخر کی آیتوں میں یہی بیان ہے۔

آیت 44 - سورۃ الاسراء: (تسبح له السماوات السبع والأرض ومن فيهن ۚ وإن من شيء إلا يسبح بحمده ولكن لا تفقهون تسبيحهم ۗ إنه...) - اردو