اس سے قبل کہ مزید احکام و ہدایات دی جائیں اور اخلاق و قوانین بنائے جائیں یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کے ہر قول اور ہر فعل سے اللہ خبردار ہے۔ اور اس کا دروازہ کھلا ہے۔ ہر گناہ گار کسی بھی وقت توبہ کرکے واپس آسکتا ہے۔ جب تک کسی انسان میں اسلاح کا مادہ موجود ہے ، وہ توبہ کرکے واپس آسکتا ہے۔ ” اواب “ اس شخص کو کہتے ہیں کہ جب اس سے کوئی قصور سرزد ہوجائے تو وہ جلدی اللہ کی طرف لوٹ آئے اور توبہ و استغفار کرے۔
والدین کے بعد اب قریبی رشتہ داروں کے بارے میں ہدایات دی جاتی ہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ مساکین اور مسافر بھی شامل کردئیے جاتے ہیں۔ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ انسانی روابط کے زمرے میں مساکین اور مسافر سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ یوں حسن سلوک اور کفالت اجتماعی کے دائرے کو پوری انسانیت تک وسیع کردیا گیا ہے۔
آیت 25 رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِيْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًابوڑھے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم پر کماحقہ عمل کرنا آسان کام نہیں۔ بڑھاپے میں انسان پر ”ارذل عمر“ کا مرحلہ بھی آتا ہے جس کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں : لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا النحل : 70۔ ایسی کیفیت میں کبھی بچوں کی سی عادتیں لوٹ آتی ہیں اور ان کی بہت سی باتیں ناقابل عمل اور اکثر احکام ناقابل تعمیل ہوتے ہیں۔ کہیں انہیں سمجھانا بھی پڑتا ہے اور کبھی روکنے ٹوکنے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ان سب مراحل میں کوشش کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہو ہی جاتی ہے اور کبھی نہ کبھی کوئی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔ یہاں اس سیاق وسباق میں بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف تمہارے ظاہری عمل اور رویے ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں کی نیتوں کو بھی جانتا ہے۔ چناچہ اگر بندے کے دل کا رجوع اللہ کی طرف ہو اور نیت اس کی نافرمانی کی نہ ہو تو چھوٹی موٹی لغزشوں کو وہ معاف فرمانے والا ہے۔
گناہ اور استغفار اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی بات ہوجاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے، اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں۔ کہتے ہیں کہ اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب عشا کی درمیان نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں جو ہر گناہ کے بعد توبہ کرلیا کریں۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کرلیا کریں۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں۔ دعا (اللہم اغفرلی ما اصبت فی مجلسی ھذا) ابن دریر فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کرلیا کریں۔ معصیت سے طاعت کی طرف آ جایا کریں۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کر کے اس کے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں اب فلان اور جیسے قرآن میں ہے آیت (اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَهُمْ 25ۙ) 88۔ الغاشية :25) ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے دعا (ائبون تائبون عابدون لربنا حامدون) لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے۔