سورۃ الاسراء: آیت 2 - وآتينا موسى الكتاب وجعلناه هدى... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الاسراء

وَءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ وَجَعَلْنَٰهُ هُدًى لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِى وَكِيلًا

اردو ترجمہ

ہم نے اِس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatayna moosa alkitaba wajaAAalnahu hudan libanee israeela alla tattakhithoo min doonee wakeelan

آیت 2 کی تفسیر

تشریح : بنی اسرائیل کی سیرت اور تاریخ کا یہ حصہ قرآن کریم کی صرف اسی سورت میں بیان ہوا ہے اس میں بنی اسرائیل کے اس انجام کا ذکر ہے جس پر وہ پہنچے اور جس کے نتیجے میں ان کی عزت و شوکت ، زوال و نکبت سے بدل گئی۔ اس تاریخی تبصرہ کے ذریعے انسانوں کو یہ سمجھایا گیا کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصلاح و فساد کا کتنا گہرا دخل ہوا کرتا ہے۔ بعد کی آیات میں ، اسی سورت میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ سنت الہیہ ہے اللہ جس قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہے وہ اس قوم کے مترفین کے اندر فساد پیدا کرتا ہے ، وہ بگاڑ میں ڈوب جاتے ہیں اور ہلاک کردئیے جاتے اور اس طرح نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔

یہاں ان کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو تورات دی گئی۔ اس میں ان کے لئے ہدایات تھیں ، پھر ان کے جد امجد حضرت نوح (علیہ السلام) جو عبد ، شکور اور صالح تھے اور وہ آباء و اجداد جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ یہ سب لوگ صالح اور مومن تھے کیونکہ انہوں نے اپنے ساتھ کشتی میں صالحین مومنین کو بٹھایا تھا۔

واتینا موسیٰ الکتب وجعلنہ ھدی لبنی اسرائیل الا تنخذوا من دونی وکیلا (2) ذریۃ من حملنا مع نوح انہ کان عبد الشکورا (3) (71 : 2۔ 3) ” ہم نے اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا تھا۔ اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور نوح (علیہ السلام) ایک شکر گزار بندہ تھا “۔

بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعہ یاد دہانی اور ڈراوا اس لئے دیا گیا کہ اللہ کا یہ اصول ہے کہ وہ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا یا عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر رسولوں کے ذریعہ حجت تمام نہ ہوجائے۔ جس کا تذکرہ بھی بصر احت جلد ہی آئے گا۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کتاب دینے کا پہلا مقصد یہ بتایا گیا۔

ھدی لبنی اسرائیل الا تتخذوا من دونی وکیلا (71 : 2) ” اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا اور یہ تاکید کہ میرے سوا کسی کو وکیل نہ بنانا “۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کرو ، صرف اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجائو ، یہی ہدایت ہے اور یہی اصل ایمان ہے۔ کیونکہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کو وکیل بناتا ہے وہ نہ ہدایت پر ہے اور نہ مومن ہے۔

ان کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھا اور اس جہاں کے عہد اول میں یہی لوگ خلاصہ انسانیت تھے۔ کیونکہ وہ حضرت نوح کے یعنی ایک عہد شکور کے ساتھی اور رفقاء تھے اور صالح لوگ تھے ، اس طرح اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک مومن کا حقیقی شجرہ ٔ نسب اس کا ایمانی شجرہ نسب ہوتا ہے۔

یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی صفت عبودیت کا ذکر ہوا ہے کیونکہ یہی انسانیت کی اصل غایب ہے ، لیکن اس کے علاوہ یہ حکمت بھی ہے کہ یہاں چونکہ حضر محمد ﷺ کی صفت عبدہ کا ذکر ہوگیا تھا اس لئے رسولوں میں سے ایک دوسرے ممتاز رسول ، حضرت نوع (علیہ السلام) کی صفت عبودیت کا بھی تذکرہ کردیا گیا اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ ہر صورت میں ایک مخصوص انداز بیان اپناتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب دی تھی اس میں بنی اسرائیل کو صاف صاف بتایا تھا کہ تمہارے فساد کی وجہ سے تمہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ تم دو مرتبہ فساد اور بگاڑ میں مبتلا ہوگئے اور دو مرتبہ تمہیں بلاک کیا جائے گا۔ کیونکہ ہلاکت و بربادی کے اسباب تم دو مرتبہ فراہم کرو گے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اٹل ہوتی ہے۔ جو قوم بھی فساد و بگاڑ میں مبتلا ہو وہ ہلاک کردی جاتی ہے۔

آیت 2 وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ یہاں تخصیص کردی گئی کہ تورات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت نہیں تھی ‘ بلکہ درحقیقت وہ صرف بنی اسرائیل کے لیے ایک ہدایت نامہ تھی۔ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًایعنی تورات توحید کا درس دیتی تھی۔ اس کی تعلیمات کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی یا ذات کو اپنا کارساز مت سمجھو اسے چھوڑ کر کسی دوسرے پر بھروسہ یا توکل نہ کرو۔

طوفان نوح کے بعد آنحضرت ﷺ کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموما یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے حضرت موسیٰ کی کتاب کا نام تورات ہے۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے۔ پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی حضرت نوح ؑ کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو بھیجا ہے۔ مروی ہے کہ حضرت نوح ؑ چونکہ کھاتے پیتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لئے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا۔ مسند احمد وغیرہ میں فرمان رسول اللہ ﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لئے حضرت نوح نبی ؑ کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے الخ۔

آیت 2 - سورۃ الاسراء: (وآتينا موسى الكتاب وجعلناه هدى لبني إسرائيل ألا تتخذوا من دوني وكيلا...) - اردو