سورۃ الاسراء: آیت 111 - وقل الحمد لله الذي لم... - اردو

آیت 111 کی تفسیر, سورۃ الاسراء

وَقُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌ فِى ٱلْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ وَلِىٌّ مِّنَ ٱلذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًۢا

اردو ترجمہ

اور کہو "تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو" اور اس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waquli alhamdu lillahi allathee lam yattakhith waladan walam yakun lahu shareekun fee almulki walam yakun lahu waliyyun mina alththulli wakabbirhu takbeeran

آیت 111 کی تفسیر

آیت 111 وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة الاخلاص کی ہم وزن ہے۔ اس میں پانچ مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید کا بیان ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلی بات ہے یعنی حضور کی زبان مبارک سے یہ اعلان کہ تمام تعریفیں اور ہر قسم کا شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًایہ دوسری بات ہے جسے سورة الاخلاص میں لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ تیسری بات اقتدار و اختیار سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ تنہا ہرچیز کا مالک و مختار اور مالک الملک ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں۔وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ یہ چوتھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کو اپنی دوستیوں پر قیاس مت کرو۔ تم تو دوستیاں اس لیے پالتے ہو کہ تم اپنے دوستوں کے محتاج ہوتے ہو۔ انسان دوست اس لیے بناتا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے گا۔ بعض دفعہ انسان اپنے کسی دوست کی انتہائی ناجائز بات صرف اس لیے ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ کل وہ میری بھی کوئی ضرورت پوری کرے گا۔ انسان کی یہی کمزوری اسے دوست بنانے اور دوستانہ تعلق نبھانے پر مجبور کرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ چناچہ اللہ کی دوستی کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا کوئی دوست اس سے اپنی کوئی بات زبردستی منوا سکتا ہے۔ پانچویں اور آخری بات بہت اہم ہے :وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًایہ ترجمہ تکبیر کرو بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔ صرف زبان سے ”اللہ اکبر“ کہہ دینے سے اللہ کی تکبیر نہیں ہوجاتی اس کے لیے عملی طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان سے اللہ اکبر کہنا تو تکبیر کا پہلا درجہ ہے کہ کسی نے زبان سے اقرار کرلیا کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد اہم اور کٹھن مرحلہ اپنے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کو عملی طور پر بڑا کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ تب طے ہوگا جب ہمارے گھر میں بھی اللہ کو بڑا تسلیم کیا جائے گا اور گھر کے تمام معاملات میں اسی کی بات مانی جائے گی جب ہماری پارلیمنٹ میں بھی اس کی بڑائی کو تسلیم کیا جائے گا اور کوئی قانون اس کی شریعت کے خلاف نہیں بن سکے گا جب ہماری عدالتوں میں بھی اس کی بڑائی کا ڈنکا بجے گا اور تمام فیصلے اسی کے احکامات کی روشنی میں کیے جائیں گے۔ غرض جب تک ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اور ہر کہیں اس کا حکم آخری حکم کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اللہ کی تکبیر کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اللہ کے احکام کو عملی طور پر نافذ نہ کرنے والوں کے لیے سورة المائدۃ کا یہ حکم بہت واضح ہے : ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ آج ہم نے اللہ کو نعوذ باللہ اپنے تئیں مسجدوں میں بند کردیا ہے کہ اے اللہ آپ یہیں رہیں ہم یہیں پر آکر آپ کی تکبیر کے ترانے گائیں گے آپ کی تسبیح وتحمید کریں گے۔ لیکن مسجد سے باہر ہماری مجبوریاں ہیں۔ کیا کریں مارکیٹ میں مالی مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں گھر میں بیوی بڑی ہے کسی اور جگہ کوئی اور بڑا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ہاں اللہ کی تکبیر کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے اور اب تکبیر فقط دو الفاظ اللہ اکبر پر مشتمل ایک کلمہ ہے جسے زبان سے ادا کردیں تو گویا اللہ کی بڑائی کا حق ادا ہوجاتا ہے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

آیت 111 - سورۃ الاسراء: (وقل الحمد لله الذي لم يتخذ ولدا ولم يكن له شريك في الملك ولم يكن له ولي من الذل ۖ...) - اردو