سورۃ الاسراء: آیت 1 - سبحان الذي أسرى بعبده ليلا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الاسراء

سُبْحَٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلًا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَا ٱلَّذِى بَٰرَكْنَا حَوْلَهُۥ لِنُرِيَهُۥ مِنْ ءَايَٰتِنَآ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ

اردو ترجمہ

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Subhana allathee asra biAAabdihi laylan mina almasjidi alharami ila almasjidi alaqsa allathee barakna hawlahu linuriyahu min ayatina innahu huwa alssameeAAu albaseeru

آیت 1 کی تفسیر

سورت کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے ، چونکہ مقام ایسا ہے جہاں بندے اور رب کی ملاقات ہور ہی ہے ، اس لئے ایسی فضا اور ایسے حالات میں تسبیح و تحلیل ایک مناسب فعل ہے اور حضرت محمد ﷺ کی صفت عبدیت کو یہاں خصوصیات کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا کہ اس قدر عروج اور بلندی درجات حضور اکرم ﷺ اللہ کے بندے ہی ہیں۔ دوسرے غلط مذاہب کی طرح مقام عبودیت اور مقام الوہیت کو ایک کرنے کے بجائے اس کو ممتاز رکھنا چاہیے۔ ان دونوں کا امتزاج ممکن نہیں۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آپ کی ذات میں الوہیت کو جمع کیا گیا۔ یہ محض اس لئے کیا گیا کہ آپ کی ولادت معجزانہ تھی ، آپ سے معجزات کا صدور ہوا اور پھر آپ کو اس دنیا سے معجزانہ طور پر اٹھایا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر بعض لوگوں نے ذات غیبی میں مقام الوہیت و عبودیت کا امتزاج کردیا۔ لیکن اسلامی عقیدے کو اس معاملے میں سادہ ، صاف اور خالص رکھا گیا اور اسلام نے ذات باری کے ساتھ ہر قسم کی شرک کی نفی کی خواہ قریب ہو یا بعید۔

اسراء سری سے مشتق ہے ، جس کے معنی رات کے وقت چلنے کے ہیں۔ اس سے اسریٰ ے مفہوم ہی میں رات کا وقت داخل ہے۔ لہٰذا اسری کے بعد رات کی صراحت ضروری نہیں ہے لیکن سیاق کلام میں رات کی صراحت بھی کردی گئی ہے۔

سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا (71 : 1) ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو رات کو “۔ یہ اس لئے کہ اس سفر کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ دکھایا جائے کہ اس سفر پر ات کے سائے تھے ، نہایت ہی پرسکون ماحول تھا۔ اور یہ قرآن کریم کا خصوصی اسلوب ہے کہ وہ ہر واقعہ کے ماحول کو بھی نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتا ہے ، جن حالات میں واقعہ ہوتا ہے۔ ویسی ہی فضا انسان کی قوت مدرکہ اور اس کے نفس پر سایہ فگن ہوجاتی ہے اور وہ واقعہ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

یہ سفر مبارکہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اللہ نے کرایا اور اللہ لطیف وخبیر ہے۔ اس سفر کی غرض وغایت یہ بتانا تھی کہ تمام توحیدی اور ادیان سماوی کا سرچشمہ اور تاریخ ایک ہے ، یہ ادیان ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) سے چلے ہیں اور ان کا خاتمہ حضرت محمد خاتم النبین پر ہوا ہے۔ ان ادیان کے مقامات مقدسہ بھی یکساں طور پر قابل احترام ہیں۔ لہٰذا خاتم النبین ، تمام انبیاء اور ان کے مقامت مقدسہ کے وارث اور امین ہیں۔ گویا یہ سفر زمان و مکان کے حدود کے اندر مقید نہیں ہے ، یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک آفاتی سفر ہے اور بادی النظر میں اس سے جو مقصد و مفہوم نکلتا ہے اس سے کہیں آگے اس کی غرض وغایت زیادہ وسیع ہے اور اس کے اندر گہری حکمت ہے۔

یہاں مسجد اقصیٰ کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے۔

الذی برکنا حولہ (71 : 1) ” جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکات الہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے اسے بابرکت بنایا ہے یا یہ کہا جاتا کہ اس میں برکات ہیں تو مفہوم میں اس قدر وسعت نہ ہوتی جس طرح ان الفاظ میں ہے کہ ہم نے اس کے ماحول کو بابرکت بنایا ہے۔ یہ سفر بذات خود بھی ایک معجزہ تھا ، لیکن اس کے اندر آپ کو مزید معجزات اور آیات کی سیر بھی کرالی گئی۔

لنریہ من ایتنا (71 : 1) ” تاکہ ہم اسے کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں “۔ سب سے پہلے تو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ہی ایک معجزہ ہے ، کہ اس قدر قلیل وقت میں یہ سفر اختتام کو پہنچا کہ حضور ﷺ کا بستر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تھا ، چاہے اس سفر کی کیفیت جو بھی ہو ، بہرحال یہ ایک معجزہ تھا ، مقصد یہ تھا کہ حضور ﷺ کو وسیع تر کائنات کی سیر کرائی جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس انسانی مخلوق کی ذلت میں بڑے بڑے کمالات پوشیدہ ہیں ، نیز اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ حضرت خاتم النین کو ان حقائق کے ادراک کے لئے تیار کیا جائے جو انبیاء کی ذات پر البقاء ہوتے ہیں ، اور جن کے اخذ کی استعداد صرف ان مخصوص بندوں کو دی جاتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ رسالت کا اعزاز بخشنے کے لئے منتخب کیا ہے اور یہ انبیاء اسی نوع بشر سے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے خلق کثیر پر فضیلت دی ہوتی ہے اور جس کے اندر اللہ نہایت ہی لطیف اسرار رکھے ہوتے ہیں۔

انہ ھو السمیع البصیر (71 : 1) ” وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے “۔ وہ ہر لطیف اور باریک چیز کو نگاہ میں رکھتا ہے۔ ایسی آواز بھی سنتا ہے جو بہت ہی دھیمی ، ہو یعنی وہ تمام لطائف اور تمام اسرار سے واقف ہے۔

سیاق کلام میں آغاز اللہ کی تسبیح سے ہوتا ہے۔

سبحن الذی اسری بعبدہ نیلا (71 : 1) اور تسبیح اللہ کی تعریف ہے۔ اس کے بعد مقصد سفر بتایا جاتا ہے جو اثباتی اور قطعی پہلو رکھتا ہے۔

لنریہ من ایتنا (71 : 1) اور اس کے بعد پھر اللہ کی تعریف کی طرف بات منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ سب مطالب و مفہومات اپنے اندر ایک گہرا توازن رکھتے ہیں۔ تسبیح تو صفت باری تعالیٰ ہے جو انسان کی طرف سے اللہ کے لئے ہے۔ مقصد اللہ کی طرف سے ایک فیصلہ ہے اور سمیع وبصیر اللہ ہی کی صفت وائمہ قائمہ ہے جو خبر کے انداز میں بیان ہوئی ہے۔ غرض ایک ہی آیت میں یہ سب معانی بڑی خوبصورتی کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں اور جو اپنا مفہوم نہایت ہی باریکی سے ادا کرتے ہیں۔

حضور ﷺ کو رات کا یہ سفر کرانا ایک معجزہ ہے۔ جس طرح دوسرے معجزات اللہ تعالیٰ صادر فرماتا رہا ہے۔ معجزہ یوں ہے کہ انسان سفر کے سلسلے میں جس انداز کا عادی ہے اس سے ذرا ہٹ کر ہے۔ مسجد اقصیٰ اس سفر میں ایک مرحلہ رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ اس علاقے کا قلب ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بسایا اور پھر وہاں سے ان کو نکالا۔ درج ذیل آیات کے ضمن میں بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ کے واقعات آئیں گے۔

آیت 1 سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَایہ رسول اللہ کے سفر معراج کے پہلے مرحلے کی طرف اشارہ ہے جو مسجد حرام مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ بیت المقدس تک کے زمینی سفر پر مشتمل تھا۔ ”سُبْحٰن“ تنزیہہ کا کلمہ ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نقص و عیب سے پاک و منزہ ہے۔ اس کلمہ سے بات کا آغاز کرنا خود دلالت کرتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارق عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا ‘ بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کو کرایا۔الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ اس علاقے کی برکت دنیوی اعتبار سے بھی ہے اور روحانی اعتبار سے بھی۔ دنیوی اعتبار سے یہ علاقہ بہت زرخیز ہے اور یہاں کی آب و ہوا خصوصی طور پر بہت اچھی ہے۔ روحانی اعتبار سے دیکھیں تو یہ علاقہ بہت سے جلیل القدر انبیاء کا مسکن رہا ہے اور حضرت ابراہیم سمیت بہت سے انبیاء یہاں مدفون ہیں۔ ہیکل سلیمانی بنی اسرائیل کی مرکزی عبادت گاہ تھی۔ اس لحاظ سے نہ معلوم اللہ کے کیسے کیسے نیک بندے کس کس انداز میں یہاں عبادت کرتے رہے ہوں گے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ چناچہ مادی و روحانی دونوں اعتبار سے اس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ برکتوں سے نوازا ہے۔سفر معراج کے پہلے مرحلے میں رسول اللہ کو مکہ مکرمہ سے یروشلم لے جایا گیا وہاں بیت المقدس میں تمام انبیاء کی ارواح کو جمع کیا گیا انہیں جسد عطا کیے گئے ہمارے حواس اس کیفیت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور وہاں حضور نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ حضور کے سفر معراج کے اس حصے کا ذکر جس انداز میں یہاں ہوا ہے اس کی ایک خصوصی اہمیت ہے۔ یہ گویا اعلان ہے کہ نبی آخر الزماں اور آپ کی امت کو توحید کے ان دونوں مراکز بیت اللہ اور بیت المقدس کا متولی بنایا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے آپ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر وہاں سے آپ کے آسمانی سفر کا مرحلہ شروع ہوا۔ سفر معراج کے اس دوسرے مرحلے کا ذکر بہت اختصار کے ساتھ سورة النجم میں کیا گیا ہے۔لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ بنی اسرائیل کے اہم ترین تاریخی مقام کا ذکر کرنے کے بعد اب آئندہ آیات میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی تاریخ کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔

سرگزشت معراج کا تسلسل پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا۔ چونکہ حضرت کعب رحمۃ اللہ عیہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے اسی لئے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفۃ المسلمین نے ٹھکرا دیا اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو۔ ایک طویل روایت معراج کی بابت ابوہریرہ ؓ سے غرب والی بھی مروی ہے، اس میں ہے کہ جبرائیل اور میکائیل ؑ کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ کے سینے کو کھول دیا سب غل و غش دور کردیا اور علم و حلم ایمان و یقین سے اس پر کیا اسلام میں بھر دیا اور آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ کو حضرت جبرائیل ؑ لے چلے دیکھا ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ادھر بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں اللہ تعالیٰ بہترین رزاق ہے۔ پھر آپ کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ہر بار ٹھیک ہوجاتے اور پھر کچلے جاتے دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل ؑ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہوجایا کرتے تھے۔ ؟ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں تو صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبو دار بدمزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں۔ پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کردیتی ہے۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا یہ آپ کے ان امتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں پھر اس آیت کو پڑھا (وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا 86؀) 7۔ الاعراف :86) یعنی ہر ہر راستے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور راہ حق سے روکنے کے لئے نہ بیٹھا کرو۔ الخ پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھا نہیں سکتا پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے۔ پوچھا جبرائیل ؑ یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوگوں کے حقوق اس قدر ہیں کہ وہ ہرگز ادار نہیں کرسکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لئے رہا ہے۔ پھر آپ نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ادھر کٹے، ادھر درست ہوگئے، پھر کٹ گئے، یہی حال برابر جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوارخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جاسکتا تھا۔ پھر آپ ایک وادی میں پہنچے وہاں نہایت نفیس خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن معطر خوشبودار راحت و سکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر۔ میرے بالا خانے، ریشم، موتی، مونگے، سونا، چاندی، جام، کٹورے اور پانی، دودھ، شراب وغیر وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہوگئیں۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مومن مرد و عورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو نیک عمل کرتا ہو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے۔ سن جس کے دل میں میرا ڈر ہے وہ ہر خوف سے محفوظ ہے۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہم وہ محروم نہیں رہتا۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں، جو مجھ پر توکل کرتا ہے میں اسے کفایت کرتا ہوں وہ محروم نہیں رہتا۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں، جو مجھ پر توکل کرتا ہم میں اسے کفایت کرتا ہوں، میں سچا معبود ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے مومن نجات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے۔ یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوگئی۔ پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانگ مکروہ آوازیں آرہی تھیں اور بدبو تھی آپ نے اس کی بابت بھی جبرائیل ؑ سے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ کر اور مجھے وہ دے میرے طوق و زنجیر، میرے شعلے اور گرمائی، میرا تھور اور لہو پیپ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہوگئے ہیں میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے یہ سن کر جہنم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی۔ آپ پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا اندر جا کر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد ﷺ ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں۔ پھر آپ کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے امت کو ایسے فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اسی نے مجھے آگ سے بچا لیا اور اسے میرے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بنادی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا میرے دشمنوں کو، آل فرعون کو ہلاک کیا ،۔ بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی میرے امت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی۔ پھر حضرت داؤد ؑ نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا مجھے زبور کا علم دیا میرے لئے لوہا نرم کردیا پہاڑوں کو مسخر کردیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے مجھے حکمت اور پر زور کلام عطا فرمایا۔ پھر حضرت سلیمان ؑ نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے ہواؤں کو میری تابع کردیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیر بناتے تھے۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا۔ ہر چیز میں مجھے فضیلت دی، انسانوں کے، جنوں کے، پرندوں کے لشکر میرے ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مومن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا۔ پھر حضرت عیسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میری مثال حضرت آدم ؑ کی سی کی۔ جسے مٹی سے پیدا کر کے کہہ دیا تھا کہ ہوجا اور وہ ہوگئے تھے اس نے مجھے کتاب و حکمت تورات انجیل سکھائی میں مٹی کا پرند بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الہٰی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الہی اچھا کردیتا تھا مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہوجاتے تھے مجھے اس نے اٹھا لیا مجھے پاک صاف کردیا مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا، اب جناب رسول آخر الزماں ﷺ نے فرمایا تم سب نے اللہ کی تعریفیں بیان کرلیں اب میں کرتا ہوں۔ اللہ ہی کے لئے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر اپنی تمام مخلوق کے لئے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے میری امت کو تمام اور امتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے۔ اسے بہترین امت بنایا انہی کو اول کی اور آخر کی امت بنایا۔ میرا سینہ کھول دیا میرے بوچھ دور کر دئے میرا ذکر بلند کردیا مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا انہی وجوہ سے آنحضرت محمد ﷺ سب سے افضل ہیں۔ امام ابو جعفر رازی ؒ فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہوگی، پھر آپ کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے۔ پانی کے برتن میں سے آپ نے تھوڑا سا پی کر واپس کردیا پھر دودھ کا برتن لے کر آپ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ نے اس کے پینے سے انکار کردیا کہ میں شکم سیر ہوچکا ہوں۔ حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا یہ آپ کی امت پر حرام کردی جانے والی ہے اور اگر آپ اسے پی لیتے تو آپ کی امت میں سے آپ کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے۔ پھر آپ کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل ؑ نے کہا محمد ہیں ﷺ پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے عام لوگوں کی طرح انکی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آرہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آرہی ہے داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہوجاتے ہیں میں نے کہا جبرائیل ؑ یہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم ؑ ہیں دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے آب اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہوجاتے ہیں۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا وہاں آپ نے دو جوانوں کو دیکھا دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیٰی بن زکریا (علیہما السلام) ہیں یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں حضرت یوسف ؑ کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے وہاں حضرت ادریس ؑ کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے پھر آپ پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ حضرت ہارون ؑ ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھا آپ کے ان سے بھی آگے نکل جانے پر وہ رو دئے، دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ نبی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ ان کی امت ہے۔ پھر آپ اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہ لگایا جس سے رنک قدرے نکھر گیا پھر دوسری نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہوگئے۔ آ کر دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہوگئے۔ آپ کے سوال پر حضرت جبرائیل ؑ نے بتلایا کہ یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم ؑ ہیں روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہوگئی تھیں ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہوگیا۔ اول نہر اللہ کی رحمت ہے، دوسری نعمت ہے، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہچایا جاتا ہے اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی صاف ستھرے دودھ کی لذیذ بےنشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک امت کو ڈھانپ لے۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپالیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ سے باتین کیں فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا، موسیٰ ؑ سے تو نے باتیں کیں، داؤد ؑ کو عظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لئے لوہا نرم کردیا، سلیمان ؑ کو تو نے بادشاہت دی، جنات انسان شیاطین ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں۔ عیسیٰ ؑ کو تو نے تورات و انجیل سکھائی اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا میری نسبت فرمان ہو۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا تو میرا خلیل ہے توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمن کا لقب دیا ہے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، تیرا سینہ کھول دیا ہے، تیرا بوجھ اتار دیا ہے، تیرا ذکر بلند کردیا ہے جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری امت کو میں نے سب امتوں سے بہتر بنایا ہے۔ جو لوگوں کے لئے ظہور میں لائی گی ہے۔ تیری امت کو بہترین امت بنایا ہے، تیری ہی امت کو اولین اور آخرین بنایا ہے۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں۔ میں نے تیری امت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے۔ تجھے از روئے پیدائش سب سے اول کیا اور از روئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو باربار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورة بقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے۔ اسلام، ہجرت، جہاد، نماز، صدقہ، رمضان کے روزے، نیکی کا حکم، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا۔ پس آپ فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی۔ جامع باتیں دیں۔ تمام لوکوں کی طرف خوشخبری دی نے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا۔ میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوئیں میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بینائی گئی۔ پھر آپ پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ حضرت موسیٰ ؑ تخفیف طلب کرنے کا اور آخر میں پانچ رہ جانے کا ذکر ہے۔ جیسے کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے پس پانچ رہیں اور ثواب پچاس کا جس سے آپ بہت ہی خوش ہوئے۔ جاتے وقت حضرت موسیٰ ؑ سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر۔ اور کتاب کی ایس حدیث میں بھی ہے کہ اسی آیت (سبحان الذی) کی تفسیر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے اس کے بعد الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے۔ انہیں ضعیف بھی کہا کیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آگیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی اجادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کم واقعہ کی اس میں روایت ہو۔ واللہ اعلم۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں آپ سے حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں حطیم میں آپ سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پہر اس کے ظاہر ہوجانے کا واقعہ بھی ہے، اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ بیان ہے اور یہ بھڈ کہ آپ نے انہیں نماز میں کھڑا پایا۔ آپ نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتدء آپ سے سلام کیا۔ بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ ؑ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے آب عشا کی نماز سے فارغ ہوگئے تھے وہیں سے آپ کو معراج ہوئی۔ پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے اللہ کی قدرت سے تو کوئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہوجائے۔ امام بیہقی ؒ اس روایت کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ مکہ شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس راویت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے واللہ اعلم۔ اب حضرت عائشہ ؓ کی روایت سنئے۔ بیہقی میں ہے کہ جب صبح کے وقت لوگوں سے حضور ﷺ نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہوگئے جو اس سے پہلے باایمان اور تصدیق کرنے والے تھے، پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس ان کا جانا اور آپ کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے۔ خود حضرت ام ہانی سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئ ہے اس رات آپ نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر آرام فرما تھے۔ آپ بھی سو گئے اور ہم سب بھی۔ صبح سے کجھ ہی پہلے ہم نےحضور ﷺ کو جگایا۔ پھر آپ کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ام ہانی میں نے تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی۔ ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابو یعلی میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے۔ طبرانی میں حضرت ام ہانی ؑ سے منقول ہے کہ حضور ﷺ شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے میں نے رات کو آپ کی ہرچند تلاش کی لیکن نہ پایا ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا لیکن حضور ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا مجھے اس پر سوار کیا پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھایا وہ اخلاق میں اور صورت شکل میں بالکل میرے مشابہ تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھایا لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح مجھے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی دکھایا درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔ دجال کو دیکھا ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی۔ ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی۔ یہ فرما کر اچھا اب میں جاتا ہوں جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں۔ میں نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلائیں گے آپ کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر بس چلا تو آپ کی بےادبی کریں گے۔ لیکن آپ نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں۔ جبیر من مطعم کہنے لگا بس حضرت آج ہمیں معلوم ہوگیا اگر آپ سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے۔ ایک شخص نے کہا کیوں حضرت ؟ راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھو گیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ نے فرمایا وہ بھی ملے تھے فلاں جگہ تھے ان میں ایک سرخ رنگ اونٹنی تھے جس کا پاؤں ٹوٹ کیا تھا ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا۔ جسے میں نے بھی پیا۔ انہوں نے کہا اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قافلہ آپ کے سامنے کردیا آپ نے ساری گنتی بھی بتادی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئے ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے۔ چناچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے دیکھا کہ واقعی قافلہ آگیا ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہوگیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہوگیا تھا۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ پوچھا کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کپ بھی تھا۔ ابوبکر ؓ نے کہا ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا نہ وہ پانی گرایا گیا۔ بیشک محمد ﷺ سچے ہیں۔ یہ آپ پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا۔ " فصل " ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں حسن بھی ہیں ضعیف بھی ہیں۔ کم از کم اتتنا تو ضرور معلوم ہوگیا کہ حضور ﷺ کا مکہ شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا۔ اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ سے ہیں۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء (علیہم السلام) کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو ایک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ وافعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پہر بھی مطلب حاصل نہ ہوا۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہہ پیش کی ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکہ سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکہ سے آسمانوں پر چڑھائے گے اور ایک مرتبہ مکہ سے بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکہ سے آسمانوں پر چڑھائے گئے اور ایک مرتبہ مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت ﷺ خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ سے اس کے بار بار ہونے کی روایت بیان کرتے۔ بقول حضرت زہری معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے۔ عروہ بھی یہی کہتے ہیں۔ سدی کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے۔ لہذا حق بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا وہاں جا کر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے دور پر دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑھی کے ہے اس سے آپ آسمان دنیا پر چڑھائے گئے پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ہر آسمان کے مقربین الہی سے ملاقاتیں ہوئیں انبیاء (علیہم السلام) سے ان کے منازل و درجات کے مطابق سلام علیک ہوئی چھٹے آسمان میں کلیم اللہ ؑ سے اور ساتوں میں خلیل اللہ ؑ سے ملے پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے۔ ﷺ وعلی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام۔ یہاں تک کہ آپ مستوی میں پہنچے جہاں قضا و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں۔ سدرۃ المنتہی کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے۔ وہیں پر آپ نے حضرت جبرائیل ؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو پر تھے۔ وہیں آپ نے رف رف سبز رنگ کا دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے، یہی آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ و صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے، یہی آسمانی کعبہ ہے۔ خلیل اللہ ؑ اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لئے جاتے ہیں مگر جو آج گئے پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی۔ آپ نے جنت دوزخ دیکھی، یہیں اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کر کے پھر تخفیف کردی۔ اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے پھر آپ واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ کے ساتھ ہی تمام انبیاء (علیہم السلام) بھی اترے وہاں آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہوگیا ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ امامت انبیاء آپ نے آسمانوں میں کی۔ لیکن صحیح روایات سے بظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ نے واپسی میں امامت کرائی۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ ہر ایک کی بابت حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی امامت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی۔ جب یہ ہوچکا اور آپ پر اور آپ کی امت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا تو بھی ہوچکا، اب آپ کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے حضرت جبرائیل ؑ کے اشارے سے آپ نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ واپس رات کے اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ اب یہ جو مروی ہے کہ آپ کے سامنے دودھ اور شہد اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو، لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لئے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے اسی طرح یہ تھا واللہ اعلم۔ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کے جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی ؟ یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ حضور ﷺ کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے۔ اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آجائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کرچکے تھے کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھرجاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا پھر قرآن کے لفظ بعبدہ پر غور کیجئے۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے۔ پھر اسری بعبدہ لیلا کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کردیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60ۧ) 17۔ الإسراء :60) میں فرمایا گیا ہے۔ اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ ﷺ کو دکھایا گیا (بخاری) خود قرآن فرماتا ہے آیت (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى 17؀) 53۔ النجم :17) نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی۔ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے نہ کہ صرف روح کا۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کرا کر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لئے سواری کی ضرورت نہیں واللہ اعلم۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی۔ چناچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کا یہ قول مروی ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی۔ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن ؒ فرماتے ہیں آیت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ 60ۧ) 17۔ الإسراء :60) آیت اتری ہے۔ اور حضرت ابراہیم خلیل ؑ کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا پس ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی۔ حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔ واللہ اعلم اس میں سے کون سی سچی بات تھی ؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق ؒ کا قول۔ امام ابن جریر ؒ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کردی ہیں۔ واللہ اعلم۔ فائدہ ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ رسول اللہ ﷺ نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا۔ یہ گئے، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ہرقل نے جمع کیا ان میں ابو سفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکہ کے دوسرے کافر بھی تھے پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ابو سفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور ﷺ کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان آنحضرت ﷺ کی طرف نہ ہو وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہوگی۔ اسی وقت دل میں خیال آگیا اور میں نے کہا بادشاہ سلامت سنئے میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد ﷺ بڑے جھوٹے آدمی ہیں سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا۔ میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس پڑی عزت سے بیٹھا تھا فورا ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کروں سوتا نہ تھا۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا۔ میں نے ہرچند زور لگایا لیکن کو اڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا۔ میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے بہت ترکیبیں کیں، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے صبح پر رکھئے چناچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لئے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے۔ یہ حدیث بہت لمبی ہے۔ " فائدہ "حضرت ابو الخطاب عمر بن وحیہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں حضرت انس ؓ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کر کے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کر کے پھر فرماتے ہیں معراج کی حدیث متواتر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت مالک بن صعصعہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو سعید، حضرت ابن عباس، حضرت شداد بن اوس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن قرظ، حضرت ابو حبہ، حضرت ابو لیلی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر، حضرت حذیفہ، حضرت بریدہ، حضرت ابو ایوب، حضرت ابو امامہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو الخمراء، حضرت صہیب رومی، حضرت ام ہانی، حضرت عائشہ، اور حضرت اسماء وغیرہ سے مروی ہے ؓ اجمعین۔ ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سندا صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں وہ اللہ کے نوارانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے یہں۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا کافروں کو برا لگے۔

آیت 1 - سورۃ الاسراء: (سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ۚ إنه هو...) - اردو