سورہ انشقاق: آیت 19 - لتركبن طبقا عن طبق... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورہ انشقاق

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ

اردو ترجمہ

تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Latarkabunna tabaqan AAan tabaqin

آیت 19 کی تفسیر

لترکبن ........................ طبق (19:84) ” تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک مشکل حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے “۔ یعنی ایک صورت حال کے بعد دوسری صورت حال سے تمہیں دوچارہونا پڑے گا۔ جس طرح اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھا ہوا ہے۔ یہاں ایک حال سے دوسرے حال کی تبدیلی کے لئے ” سواری “ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ عربی میں مشکلات سے دوچارہونے کے لئے معاملات ، خطرات ، حالات اور مشکلات پر سوار ہونے کا محاورہ عام ہے۔ کیا جاتا ہے۔

ان المضطر یر کب الصعب من الامور وھو عالم برکوبہ ” مشکلات میں گھرا ہوا شخص مشکلات پر سوار ہوجاتا ہے اور وہ اس بات کو جانتا ہے کہ وہ ان پر کس طرح سوار ہو یعنی قابو پائے “ تحریک اسلامی کو پیش آنے والے حالات ومشکلات ایک کے بعد ایک سخت ترین مراحل کی شکل میں آئیں گے۔ اور یہ حالات اللہ کی تقدیر اور مشیت کے مطابق آئیں گے جو اس راہ میں لوگوں کو چلاتی ہے ، اور دست قدرت ان کو ایک انتہا تک پہنچاتا ہے۔ جہاں سے دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جس طرح شفق نمودار ہوتا ہے ، رات آتی ہے اور چھا جاتی ہے ، چاند نمودار ہوتا ہے اور ماہ کامل بن جاتا ہے یہاں تک انسان اس سفر کو طے کرکے اللہ تک پہنچ جائیں جیسا کہ سابقہ پیراگراف میں تصریح کی گئی۔ پے درپے ہم آہنگ پیراگراف اور فقرات کا آنا ، ایک مفہوم اور فکر سے دوسری سوچ اور معنی اخذ کرنے چلے جانا ، اور ایک نظارے سے دوسرے نظارے تک پہنچنا ، یہ قرآن کریم کا پر اعجاز اور انوکھا انداز ہے جس کی نقل اتارنا ممکن نہیں ہے۔

ان مناظر اور اشارات اور ان مشاہدات اور خوشگوار لمحات کی فضا ، جو اس پوری سورت میں یکے بعد دیگرے آئے۔ ان کے ذکر کے بعد اب ایک عقلمند انسان پر تعجب کیا جاتا ہے کہ ان دلائل ایمان کے باوجود وہ ایمان نہیں لاتا حالانکہ اس کائنات میں اور خودان کے نفوس میں وافر مقدار میں واضح دلائل موجود ہیں۔

آیت 19{ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ۔ } ”اسی طرح تم لازماً چڑھو گے درجہ بدرجہ۔“ یعنی جس طرح چاند درجہ بدرجہ بڑا ہو کر مرحلہ وار رات کو روشن کرتا ہے بالکل اسی طرح تم مرحلہ وار کوششوں سے غلبہ دین کی منزل تک پہنچو گے۔ واضح رہے کہ لَتَرْکَبُنَّ کے صیغے میں زور اور تاکید بھی ہے کہ تم لوگ اس منزل تک ضرور پہنچو گے۔ ظاہر ہے ہمیں یہ خبر محمد رسول اللہ ﷺ نے دی ہے وَھُوَ الصَّادِقُ وَالْمَصْدُوْق ! آپ ﷺ کی دی ہوئی خبر غلط نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دنیا پر اسلام کا مکمل غلبہ ہو کر رہے گا۔ البتہ اسلام کے پہلے غلبے کی شان اور تھی اور دوسرے غلبے کا انداز اور ہوگا۔ یہ فرق سورة المدثر کی آیت 34 اور زیر مطالعہ سورت کی آیت 18 پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی اسلام کے پہلے غلبے کا ظہور صبح کے اجالے کی طرح ہوا تھا : { وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۔ } المدثر۔ اس اجالے کی شان یہ تھی کہ ادھر آفتابِ نبوت ﷺ طلوع ہوا اور ادھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا ماحول منورہو گیا۔ یعنی حضور ﷺ کی دعوت کے آغاز کے بعد صرف تیئیس 23 برس کے مختصر عرصے میں تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا ہوگیا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام پوری طرح غالب آگیا۔ ظاہر ہے سورج کے طلوع ہونے کے بعد روشنی ہونے میں زیادہ دیر تو نہیں لگتی۔ البتہ اسلام کے دوسرے غلبہ کی روشنی چاند کی چاندنی کی طرح مرحلہ وار اور تدریجاً پھیلے گی۔ یعنی اب اقامت دین اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام کسی ایک داعی یا کسی ایک تحریک کی کوششوں اور کسی ایک نسل کے زمانے میں نہیں بلکہ نسل در نسل جدوجہد سے قائم ہوگا۔ جیسے برعظیم پاک و ہند میں علامہ اقبال نے ایک فکر کو واضح کیا کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ کہ ”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ یعنی مسلمان اس ضابطہ حیات کو ایک ”وحدت“ کے طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ پھر مولانا ابوالکلام آزاد نے ”حزب اللہ“ اور مولانا مودودی نے ”جماعت اسلامی“ کے پلیٹ فارم سے اقامت دین کے لیے جدوجہد کی۔ اسی طرح آئندہ ادوار میں بھی اللہ کی توفیق سے اس کے بندے اس جدوجہد کا علم سنبھالے رہیں گے۔ مختلف تحریکیں اس مشن کی ترویج و ترقی کے لیے مختلف انداز میں کردار ادا کرتی رہیں گی اور بالآخران اجتماعی اور مرحلہ وار کوششوں کے نتیجے میں جب اللہ کو منظور ہوگا اسلام بطور دین پوری دنیا میں غالب ہوجائے گا۔

آیت 19 - سورہ انشقاق: (لتركبن طبقا عن طبق...) - اردو