سورہ انشقاق: آیت 10 - وأما من أوتي كتابه وراء... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ انشقاق

وَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ وَرَآءَ ظَهْرِهِۦ

اردو ترجمہ

رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma man ootiya kitabahu waraa thahrihi

آیت 10 کی تفسیر

واما من .................................... سعیرا (10:84 تا 12) رہے وہ لوگجن کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا “۔ ایسے مناظر کی تصویر کشی اس سے قبل قرآن کریم میں اس طرح کی گئی ہے کہ کامیاب ہونے والوں کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اور اہل جہنم کا بائیں ہاتھ میں۔ لیکن یہاں کی تصویر ذرا مختلف ہے۔ یہاں تصویر میں نظر یوں آتا ہے کہ اہل جہنم کو ان کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا جارہا ہے۔ لہٰذا تصویر میں کوئی تضاد نہیں ہے بائیں ہاتھ میں پیچھے سے دیا جارہا ہے۔ یہ ایسے شخص کی تصویر ہے جو نامہ اعمال نہیں لینا چاہتا ہے ، وہ سامنا نہیں کرسکتا ، سخت پریشان وگریزاں ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ اعمال نامے ، دائیں ہاتھ میں دیئے جانے اور بائیں ہاتھ میں دیئے جانے کی کیفیات سے واقف نہیں ہیں ۔ ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے لوگ نجات پانے والے ہیں اور جنت میں جائیں گے اور دوسرے لوگ ناکام ونامراد ہونے والے ہیں اور جہنم میں جائیں گے اور ہلاک ہوں گے۔ اصل مقصود یہی بات ہے نہ یہ کہ کیفیت کیسی ہوگی۔ اور قرآن کریم نے جو شکل و صورت بیان کی ہے اس سے بہرحال انسان پر گہرے اثرات پڑے ہیں۔ اور انسان خوف کے مارے کانپ اٹھتا ہے۔ حقیقت احوال اللہ ہی کے علم میں ہے کہ یہ مراحل کس طرح طے ہوں گے۔

یہ بدبخت جس نے زمین پر بھی اپنی زندگی ان تھک جدوجہد میں گزاری اور تھک تھکا کر اللہ کے سامنے پہنچا لیکن معصیت اور نافرمانی میں اوبا ہوا ، گناہوں کے بوجھ سے لدا پھندا۔ اب یہاں آکر اپنے انجام کو جان لیتا ہے۔ انجام بد سے دوچار ہوتا ہے۔ اب جانتا ہے کہ اب تو اس کی نہ ختم ہونے والی مشقت شروع ہوگئی ، تو یہ بدبخت اب موت کو پکارتا ہے ، موت دائمی موت اور فنا کی استدعا کرتا ہے تاکہ وہ اس بدبختی سے بچ جائے جو سا پر آنے ہی والی ہے۔ یاد رہے کہ انسان موت کی آغوش میں پناہ اس وقت لیتا ہے جب وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راہ نجات نہیں ہے۔ نہ کوئی جائے فرار ہے تو اس وقت موت اس کی آخری تمنا ہوتی ہے ، یہ مفہوم متنبی نے اس شعر میں سمودیا ہے۔

کفی بک داء ان تری الموت شافیا

وحسب المنایا ان یکن امانیا

” اس سے بڑی اور کیا ہوگی کہ تم موت کو شفا سمجھنے لگو اور یہ مشقت کافی ہے کہ موت آرزو بن جائے ( اور آئے نہیں) “۔

لہٰذا اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوگی ، اور اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوگی کہ وہ ویصلی سعیرا (12:84) ” اور بڑھکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا “۔ اور یہ شخص اب موت کی تمنا کرے گا جو کبھی پوری نہ ہوگی .... اب ذرا ایک جھلک اس شخص کے ماضی کی یہاں دکھادی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ اس انجام تک پہنچا۔

آیت 10{ وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ۔ } ”اور جس کو دیا جائے گا اس کا اعمالنامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے۔“ قرآن کریم کی اکثر آیات میں ایسے لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جانے کا ذکر ہے۔ اس سیاق وسباق میں یہاں وَرَآئَ ظَہْرِہٖ کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ فرشتہ ایک مجرم شخص کو جب اس کا اعمالنامہ پکڑانے لگے گا تو وہ اس سے بچنے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے چھپالے گا۔ چناچہ اسی حالت میں اعمالنامہ پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔

آیت 10 - سورہ انشقاق: (وأما من أوتي كتابه وراء ظهره...) - اردو