سورۃ الانسان: آیت 3 - إنا هديناه السبيل إما شاكرا... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ الانسان

إِنَّا هَدَيْنَٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا

اردو ترجمہ

ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hadaynahu alssabeela imma shakiran waimma kafooran

آیت 3 کی تفسیر

انا ھدینہ ............................ کفورا (3:76) ” اور ہم نے اسے راستہ دکھادیا ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا “۔ یہاں اللہ نے راہ ہدایت کی تعبیر شکر نعمت سے کی ہے۔ کیونکہ جب کسی کو ہدایت عطا کردی جاتی ہے تو اس کے پردہ شعور پر سب سے پہلے شکر کا احساس نمودار ہوتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ وہ قابل ذکر چیز نہ تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے انسانیت عطا کرکے ایک قابل ذکر چیز بنایا۔ پھر اسے سمع وبصر کرکے دوسرے حیوانات سے ممتاز کیا اور یوں وہ علم ومعرفت پر قادر ہوا ، پھر اسے ازروئے فطرت اور بذریعہ انبیاء ہدایت عطا فرمائی اور آزاد چھوڑ دیا کہ وہ راہ ہدایت اختیار کرکے مشکور بنے یا راہ ضلالت اختیار کرکے کفور اور ناشکرا بنے۔ لفظ کفور کے مفہوم میں ہے کہ ناشکری میں وہ غلو کرے۔

ان تین توجہ مبذول کرنے والی چٹکیوں اور تنبیہات کے بعد اب انسان محسوس کرلیتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار اور بامقصد مخلوق ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک محور کے گرد بندھا ہوا ہے۔ اور گھوم رہا ہے۔ اور اسے جو صلاحیتیں دی گئی ہیں ان پر اس سے حساب کیا جارہا ہے اور یہ جہاں اس کے لئے دارالامتحان ہے۔ یہاں اسے آزمائشی طور پر رکھا گیا ہے۔ یہاں اسے کھیل کے میدان میں نہیں اتارا گیا بلکہ امتحان کے کمزرہ میں بٹھایا گیا ہے۔ غرض ان مختصرتین آیات سے فکرونظر کا بےبہا خزانہ نکلتا ہے اور بلند افکار اور تصورات اور گہری حکمت کے جوہر ظاہر ہوتے ہیں جبکہ ان تمام نکات کے نتیجے میں انسان پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور شعور کی پختگی اور طرز عمل میں سنجیدگی اور وقار حاصل ہوتا ہے۔ یہ مختصر آیات انسان کا نظریہ حیات متعین کردیتی ہیں۔ اس کے وجود کا مقصد بتاتی ہیں اور زندگی کا شعور عطا کرتی ہیں۔ اور ان کی روشنی میں انسان اپنی زندگی اور اس کی قدروں کا تعین کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے بعد متصلایہ بتادیا جاتا ہے کہ اس آزمائش اور ابتلا کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ اور انسان اگر شکر کی راہ لے گا تو نتیجہ کیا ہوگا اور اگر انسان کفر اور کفران کی راہ لے گا تو انجام کیا ہوگا ؟

جو کفر اور ناشکری کی راہ لیں گے ، ان کا انجام نہایت ہی اختصار کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ پوری سورت کی فضا اور اس کا انداز نرم ونازک اور سہولتوں اور خوشیوں اور جنتوں کی دائمی نعمتوں کا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ عذاب جہنم کی تفصیلات دے کر اس سورت کی فضا کو مکدر کرنا نہیں چاہتے۔ نہایت اختصار کے ساتھ فرماتے ہیں :

آیت 3{ اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ } ”ہم نے اس کو راہ سجھا دی“ اس سے مراد ”ایمان“ سے متعلق وہ شعور یا وہ ہدایت اور راہنمائی ہے جو ہر انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہے۔ یعنی انسان اندھا اور بہرہ پیدا نہیں ہوا ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی طور پر بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جسمانی حواس بھی دیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے روح کی بصیرت بھی عطا کی ہے۔ { اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ } ”اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘ چاہے ناشکرا ہوکر۔“ اب ظاہر ہے جس انداز اور طریقے سے انسان زندگی گزارے گا ‘ اسی کے مطابق آخرت میں اس کو بدلہ دیا جائے گا۔

آیت 3 - سورۃ الانسان: (إنا هديناه السبيل إما شاكرا وإما كفورا...) - اردو