سورۃ الانسان: آیت 2 - إنا خلقنا الإنسان من نطفة... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الانسان

إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًا

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna khalaqna alinsana min nutfatin amshajin nabtaleehi fajaAAalnahu sameeAAan baseeran

آیت 2 کی تفسیر

انا خلقنا ............................ بصیرا (2:76) ” ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا “۔

امشاج کے معنی ہیں مخلوط۔ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جب مرد کا خلیہ عورت کے ہیضے میں داخل ہوکر اس کے ساتھ خلط ہوجاتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی موروثی خصوصیات کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے ، جن کو علمائے حیاتیات ” جینز “ کہتے ہیں۔ یہ وہ خصائص ہیں جو جنس انسانی کو دوسرے زندہ اجناس سے ممیز کرتے ہیں ، پھر اس کے ذریعہ خاندانی موروثی خصائص بھی بچے میں منتقل ہوتے ہیں۔ اور انسانی نطفہ انسانی جنین کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اور دوسرے حیوانات سے مختلف شکل اختیار کرتا ہے اور یہی مخلوط نطفہ ہے جس کی طرف مرد اور عورت کی وراثتی خصوصیات منسوب کی جاتی ہیں بلکہ یہ مخلوط نطفہ کئی مختلف وراثتی خصوصیات کا محزن ہوتا ہے۔

یوں اللہ نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ یہ نہ اتفاقاً پیدا ہوا ہے۔ اور نہ اس کی تخلیق ایک بےمقصد اور عبث ہے۔ اسے کھیل کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ انسان کو ایک ذمہ دار مخلوق کے طور پر امتحان اور آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ آزمائش کیا ہے ؟ کیا امتحان ہے ؟ اور اس امتحان کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ البتہ انسان دنیا کے اسٹیج پر جو ڈرامہ کرتا ہے ، یہ محض نتیجے کے اظہار کے لئے ہے تاکہ یہ نتیجہ کھلی عدالت میں پیش ہو اور اس کے اوپر جزا وسزا مرتب ہوں۔ اور لوگ اپنے اچھے اور برے انجام تک پہنچیں۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسان کو سمیع وبصیر بنایا ہے۔ یعنی اسے ادراک کے وسائل دیئے ہیں کہ وہ نیک وبد کو سمجھ سکے اور جان سکے ۔ اور اس دنیا کے افعال واشیاء کی حقیقت کو اچھی طرح پاسکے اور اس امتحان کو اچھی طرح پاس کرسکے۔

پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے سلسلہ توالد وتناسل کو چلانے کا جو ارادہ کیا اور اس کے لئے جو نظام متعین فرمایا وہ نطفہ مخلوط سے اس کی تخلیق کا نظام ہے۔ اور اس میں گہری حکمت اور گہری مقصدیت ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور بےسوچے سمجھے کا سلسلہ نہیں ہے۔ اور یہ حکمت اور مقصد اس انسان کو آزمانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس ذات کے اندر ہدایت کے اخذ کرنے اور حق کی قبولیت کی استعداد رکھی۔ اور پھر اسے علم ومعرفت اور قدرت واختیار عطا کیا گیا اور یہ تمام صلاحیتیں ، علم وادراک اور اخذ ہدایت اور تربیت کی اللہ نے ایک نہایت ہی متعین وزن اور مقدار کے ساتھ اسے عطا کیں۔

پھر علم ومعرفت اور فہم وادراک کے ساتھ ساتھ اسے یہ قدرت اور اختیار بھی دیا کہ وہ راہ حق کو اختیار کرے۔ چناچہ اسے حق و باطل کی تمیز دے کر چھوڑ دیا کہ جو راہ چاہے اختیار کرے۔ خواہ اللہ کی راہ اختیار کرے یا اس کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرے۔

آیت 2 { اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ } ”ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ملے جلے نطفے سے“ موجودہ دور میں سائنس نے اس آیت کا مفہوم بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ مرد کی طرف سے spermatozoon اور ماں کی طرف سے ovum ملتے ہیں تو zygote وجود میں آتا ہے۔ لیکنظاہر ہے پندرہ سو سال پہلے صحرائے عرب کا ایک بدو تو لفظ ”اَمْشَاج“ کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق ہی سمجھا ہوگا۔ گویا قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم ہر زمانے کے ہر قسم کے انسانوں کے لیے قابل فہم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معانی و مطالب میں نئی نئی جہتیں بھی دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ { نَّـبْـتَلِیْہِ } ”ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے“ یعنی رحم مادر میں ہم نے اس ”نُطْفَۃٍ اَمْشَاج“ کو مختلف مراحل سے گزارا۔ نطفہ سے اسے علقہ بنایا۔ علقہ کو مغضہ کی شکل میں تبدیل کیا اور پھر اس کے اعضاء درست کیے۔ ”نَـبْـتَلِیْہِ“ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے ”تاکہ ہم اس کو آزمائیں“۔ یعنی ہم نے انسان کو امتحان اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ { فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا۔ } ”پھر ہم نے اس کو بنا دیا سننے والا ‘ دیکھنے والا۔“

آیت 2 - سورۃ الانسان: (إنا خلقنا الإنسان من نطفة أمشاج نبتليه فجعلناه سميعا بصيرا...) - اردو