سورۃ الانسان: آیت 1 - هل أتى على الإنسان حين... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الانسان

هَلْ أَتَىٰ عَلَى ٱلْإِنسَٰنِ حِينٌ مِّنَ ٱلدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْـًٔا مَّذْكُورًا

اردو ترجمہ

کیا انسان پر لا متناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ata AAala alinsani heenun mina alddahri lam yakun shayan mathkooran

آیت 1 کی تفسیر

یہ استفہام تقریری ہے ، یعنی کسی چیز کے بارے میں دریافت کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی اطلاع دینا مقصود ہے کہ ایسا ضرور تھا۔ لیکن سوالیہ انداز اس لئے اختیار کیا گیا کہ انسان کو خود اس حقیقت کے بارے میں سوال کرنا چاہئے ، اور سوچنا چاہئے کہ وہ کسی وقت کوئی قابل ذکر شے نہ تھا اور جب وہ اب ایک قابل ذکر شے ہے تو اسے دست قدرت کا کسی قدر تو شعور ہونا چاہئے جو اسے عدم سے وجود میں لائی اور تاریکیوں سے روشنی کی طرف لائی۔ جہاں یہ اس دنیا کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

بہرحال استفہامیہ اور سوالیہ انداز میں ، اس مقام پر چند حقائق کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ یہ نہایت ہی اونچے درجے کے اشارات ہیں۔ گہرے حقائق ہیں اور ان کو پیش نظر رکھ کر قابل غور نکات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ ذرا اپنے وجود میں آنے سے قبل اور آغاز وجود کے زمانے اور حالات پر غور کرو ، کہ یہ دنیا ایسی ہی تھی اور اس پر انسان آباد نہ تھا۔ ذرا غور کرو کہ اس وقت یہ دنیا کیسی لگ رہی ہوگی ؟ انسان اللہ کی ایک مخلوق ہے ، لیکن اپنے آپ کو ایک بڑی چیز سمجھتا ہے اور مغرور ہے۔ لیکن وہ نہیں سوچتا کہ یہ دنیا اس کے وجود میں آنے سے بھی پہلے زمانوں سے ایسی ہی تھی۔ بلکہ اس کائنات کی مخلوق انسان کی تخلیق کی توقع ہی نہ رکھتی تھی۔ لیکن اللہ کا ارادہ ہو اور اس نے انسان کی تخلیق فرمائی۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ ذرا ان لمحات پر غور کرو جن میں یہ مخلوق انسانی وجود میں آئی۔ ان لمحات کے بارے میں انسان تو ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے جبکہ تخلیق انسان کے آغاز کا علم تو خالق کائنات ہی کو ہوسکتا ہے۔ یہ تو خالق ہی جانتا ہے کہ اس کائنات اور دنیا میں حضرت انسان کا اضافہ کس طرح ہوا۔ اس کائنات کی طویل تایرخ میں اللہ ہی نے انسان کے لئے مخصوص کردار متعین کیا ہے۔

ایک نکتہ یہ ہے اس ذات انسان کو ، کائنات کے اس اسٹیج پر ، دست قدرت نے کس طرح لاکر کھڑا کیا اور ایک ذمہ داری اور ایک کردار اس کے سپرد کیا ؟ اس کے لئے اسے تیار کیا۔ اس کے کردار کا تانا بانا اس پوری کائنات کے خطوط کے ساتھ ملایا۔ اور وہ حالات اس کے لئے مہیا کیے جن کے اندر اس کے لئے وہ کردار ادا کرنا ممکن اور آسان ہو۔ جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد قدم قدم پر اس کے لئے سہولیات فراہم کیں۔ یوں یہ حضرت انسان اس کائنات کی ہر چیز کے ساتھ وابستہ وپیوستہ ہوگیا۔

بہت سے اشارات ہیں اور بہت سے قابل غور نکات ہیں جو یہ آیات قلب انسانی کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ جن سے انسانی سوچ اور انسانی فکر ، انسان کے مقصد وجود ، اس کے ارادوں اور آغاز سے انجام تک ہر مرحلے پر اس کے نظام تقدیر کے نکات اخذ کرتی ہے۔

یہ تو تھے نکات انسان کے آغاز تخلیق کے متعلق۔ رہا وہ نظام جو نسل انسانی کے بقائے دوام کے لئے اور تاقیامت تسلسل کے لئے وضع کیا گیا تو وہ نظام بالکل مختلف ہے اور اس کا ایک اپنا قصہ ہے۔

آیت 1{ ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔ } ”کیا انسان پر اس زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا ؟“ ”دَہْر“ سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا ‘ جبکہ ”حِیْن“ سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لامتناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو - - چناچہ ”دَہْر“ دراصل وقت کا وہ سمندر ہے جس کے اندر سے کائنات میں رونما ہونے والے ہر قسم کے واقعات و حادثات جنم لیتے ہیں۔ وقت کے اسی سمندر میں سے ہم انسان بھی نکلے ہیں۔ ع ”قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب“ اقبال۔ چناچہ اس قلزم ہستی کے اندر ہر انسان پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب اس کا وجود حقیر پانی کی ایک ایسی بوند کی شکل میں تھا جس کا ذکر کرنا اور نام لینا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔

اے انسان اپنے فرائض پہچان اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ہوا پانی حقارت اور ضعف کی وجہ سے ایسی چیز نہ تھا کہ ذکر کیا جائے، اسے مرد و عورت کے ملے جلے پانی سے پیدا کیا اور عجب عجب تبدیلیوں کے بعد یہ موجودہ شکل و صورت اور ہئیت پر آیا، اسے ہم آزما رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ ۙ) 67۔ الملک :2) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ پس اس نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ اطاعت اور معصیت میں تمیز کرسکو۔ ہم نے اسے راہ دکھا دی خوب واضح اور صاف کر کے اپنا سیدھا راستہ اس پر کھول دیا، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 17ۚ) 41۔ فصلت :17) یعنی ثمودیوں کو ہم نے ہدایت کی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی اور جگہ ہے آیت (وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ 10ۚ) 90۔ البلد :10) ہم نے انسان کو دونوں راہیں دکھا دیں، یعنی بھلائی برائی کی، اس آیت کی تفسیر میں مجاہد ابو صالح ضحاک اور سدی سے مروی ہے کہ اسے ہم نے راہ دکھائی یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آنے کی، لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے اور جمہور سے یہی منقول ہے شاکراً اور کفوراً کا نصب حال کی وجہ سے ذوالحال لا کی ضمیر ہے جو آیت (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) 76۔ الإنسان :3) میں ہے، یعنی وہ اس حالت میں یا تو شقی ہے یا سعید ہے، جیسے صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر شخص صبح کے وقت اپنے نفس کی خریدوفروخت کرتا ہے یا تو اسے ہلاک کردیتا ہے یا آزاد کرا لیتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے آپ نے فرمایا اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے حضرت کعب نے کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ کیا ہے ؟ فرمایا وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے نہ میرے طریقوں پر چلیں گے پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آسکتے اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے اے کعب روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور نماز قرب اللہ کا سبب ہے یا فرمایا کہ دلیل نجات ہے۔ اے کعب وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جاسکتا وہ حرام سے پلا ہو وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے، اے کعب لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خریدو فروخت کرتے ہیں کوئی تو اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر گذرتا ہے، سورة روم کی آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ) 30۔ الروم :30) کی تفسیر میں حضرت جابر کی روایت سے حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی گذر چکا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ زبان چلنے لگتی ہے پھر یا تو شکر گذار بنتا ہے یا ناشکرا، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ جو نکلنے والا نکلتا ہے اس کے دروازے پر دو جھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں دوسرا شیطان کے ہاتھ میں پس اگر وہ اس کام کے لئے نکلا جو اللہ کی مرضی کا ہے تو فرشتہ اپنا جھنڈا لئے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور یہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی ناراضگی کے کام کے لئے نکلا ہے تو شیطان اپنا جھنڈا لگائے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور واپسی تک یہ شیطانی جھنڈے تلے رہتا ہے۔

آیت 1 - سورۃ الانسان: (هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا...) - اردو