سورہ انفطار: آیت 6 - يا أيها الإنسان ما غرك... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ انفطار

يَٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَٰنُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ ٱلْكَرِيمِ

اردو ترجمہ

اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alinsanu ma gharraka birabbika alkareemi

آیت 6 کی تفسیر

یہاں انسان کو خطاب اس کی انسانیت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ انسان میں صف انسانیت ہی وہ صفت ہے جو اسے ممتاز اور مکرم بناتی ہے۔ اور اپنی اس صفت کی وجہ سے انسان کو تمام دوسرے حیوانات اور زندہ مخلوقات پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اور جس کی وجہ سے انسان مقام بلند تک پہنچا ہے۔ اور اس پر اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے۔

اس کے بعد نہایت ہی ہمدردانہ اور خوبصورت تنبیہہ اور عتاب آتا ہے۔ ذرا الفاظ دیکھئے :۔

ماغرک .................... الکریم (6:82) ” کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے “۔ اے انسان ، ذرا غور کر ، تمہارا مربی ، تمہارا نگہباں تمہاری کس قدر عزت افزائی کرتا ہے۔ جس نے تمہیں انسانیت بخشی جس کی وجہ سے تم غور وفکر کرتے ہو ، بات کو سمجھتے ہو ، حیوانیت سے بلند ہوتے ہو ، آخر کیا چیز ہے جس نے تمہیں اپنے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا ہے اور تم رب کے احکام میں تقصیرات اور کو تاہیاں کرتے ہو اور سستی کرتے ہو ، اللہ کے بارے میں گستاخیاں کرتے ہو ، جبکہ وہ نہایت ہی مہربان مربی ہے ، جس نے قدم قدم پر تم پر فضل وکرم کررکھا ہے ، جس کے کرموں اور انعامات میں سے بڑی نعمت اور کرم تمہاری یہ انسانیت ہے ، اور انسانیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تم نیک وبد کی تمیز رکھتے ہو۔

اس کے بعد اس ربانی تکریم اور عزت افزائی کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ پہلے نہایت ہی موثر اشاراتی اور گہرے معانی پر مشتمل ایک مجمل پکار تھی اور عزت و تکریم کے خفیہ اشارے تھے اور پوشیدہ معانی تھے جو ایک آسمانی پکار اور محبت آمیز ندا میں مضمر تھے۔ اب تفصیلات ۔ تفصیلات میں انسان کی تخلیق ، اس کی موزونیت اور اس کے غایت درجہاعتدال کے حقائق لائے جاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو انسان کو کسی اور صورت میں بناسکتا تھا ، لیکن یہ محض اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے انسان کے لئے اس قدر خوبصورت شکل تجویز کی۔ اگر انسان صرف اپنی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کی تکنیکی کمالات پر ہی غور کرے تو وہ اللہ کا شکر کرے ، مگر انسان نہ صرف یہ کہ شکر نہیں کرتا بلکہ وہ نہایت غرے کے ساتھ راہ غفلت پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔

ماغرک .................... فعدلک (7:82) ” اے انسان ! کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے تک سک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا “۔ یہ ایک ایسا اشارہ ہے کہ اگر انسان کی انسانیت بیدار ہو ، اور اس کا قلب ونظر پاک ہو ، تو اس سے اس کی انسانیت کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے اور اس کا پورا وجود کانپ اٹھے اس لئے کہ انسان کا خالق اس کی سرزنش کررہا ہے۔ اپنے احسانات بتلا کر سرزنش کرتا ہے جبکہ انسان خواب غفلت میں مدہوش ہے ، پراز تقصیرات زندگی بسر کررہا ہے ، بلکہ وہ اپنے آقا اور مولا کے بارے میں سخت گستاخ ہے حالانکہ اس آقا نے اسے اس قدر پیاری ، متناسب اور معتدل شکل و صورت اور شخصیت دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کو موجودہ خوبصورت ، معتدل اور متناسب شکل پر پیدا کرنا اور اس اتمام اعضا کا اچھی طرح اپنے وظائف کو پورا کرتے چلے جانا ایک ایسی حقیقت ہے جس پر طویل تدبر اور جدوجہد کی ضرورت ہے ، اور اس غور وفکر کے بعد پھر شکر بجا لانا فرض ہے۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان ایسے خالق کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت رکھے اور اس کا احترام کرے۔ جس نے اس تخلیق کے ذریعے انسان کو مکرم بنایا ، اور یہ تکریم اور تفصیل اللہ کا محض فضل وکرم تھا ، اس لئے کہ اللہ اس بات پر قادر تھا کہ وہ انسان کو کسی بھی نئی شکل و صورت میں پیدا کرتا ، جس طرح چاہتا ، لیکن اللہ نے موجودہ خوبصورت پیاری اور معتدل اور متناسب شکل انسان کو عطا کی۔

حقیقت یہ کہ اپنی ساخت کے اعتبار سے انسان بےمثال ہے۔ اس کی شکل و صورت نہایت ہی موزوں ومعتدل ہے اور اس کی ساخت کے نقشے میں بیشمار عجائبات ہیں۔ خودانسان کو اللہ نے فہم وادراک کی جو قوت دی ہے اس کے جسم کے اندر موجود تکنیکی کمالات اور عجائبات اس کی قوت ادراک سے وراء ہیں۔ یہ تخلیق اس کائنات میں موجود دوسری تخلیقات سے بھی زیادہ عجیب ہے۔

خوبصورتی ، تناسب اور اعتدال انسان کے جسم سے بالکل عیاں ہیں ، خود انسان کو قوائے مدر کہ بھی اپنی جگہ عجائبات ہیں۔ انسانی نفسیات اور اس کی روحانی دنیا بھی عجیب تر ہے۔ اور نفسیاتی اور روحانی دنیا بھی اس کے جسمانی اعتدال اور تناسب کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

دور جدید میں لوگوں نے صرف انسان کی جسمانی ساخت پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان میں تفصیلات کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ انسانی ساخت کے اندر کیا کیا تکنیکی عجائبات ہیں۔ پورا مطالعہ پیش کرنا تو ممکن نہیں ہے بعض اشارات پر ہم یہاں اکتفا کریں گے۔

انسانی جسم کے اندر جو بڑے بڑے نظام ہیں ، مثلاً ہڈیوں کا نظام ، عضلات کا نظام ، جلد کا نظام ، ہاضمے کا نظام ، دوران خون کا نظام ، سانس کا نظام ، تناسل کا نظام ، شریانوں کا نظام ، اعصاب کا نظام ، پیشاب کا نظام ، اس کی قوت ذائقہ ، قوت شامہ اور سمع وبصر کی قوتیں یہ تمام نظام اگر وقت نظر سے دیکھے جائیں تو اپنی اپنی جگہ پر سب عجائبات ہیں۔ انسان نے آج تک جس قدر پیچیدہ سے پیچیدہ تکنیکی آلات ایجاد کیے ہیں وہ ان نظاموں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ انسان جب ان نظاموں پر غور کرتا ہے تو اس پر دہشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سکتے میں آجاتا ہے لیکن انسان ہے کہ اپنی ذات کے ان عظیم عجائبات سے صرف نظر کرلیتا ہے۔

سائنس کا ایک انگریزی جریدہ لکھتا ہے :” ہاتھ قدرت کے عجائبات میں سے ایک منفرد عجوبہ ہے۔ اسنانکے لئے ایسا آلہ ایجاد کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہاتھ کی طرح سادہ آلہ ایجاد کرے جس کے اندر وہ کمالات ہوں جو ہاتھ میں ہیں۔ انسان پڑھنے کے وقت کتاب کو ہاتھ سے پکڑتا ہے اور ہاتھ اسے آنکھ سے موزوں کرکے فاصل پر لے جاتے ہیں۔ یہ پوزیشن خود کار طریقے سے ہاتھ فورات طے کردیتے ہیں۔ اگر آپ کتاب کا ورق الٹنا چاہیں تو ہاتھ کی انگلی نہایت تکنیکی طریقے سے ورق پر رکھی جاتی ہے۔ اور تھوڑے سے دباﺅ سے ورق الٹ جاتا ہے۔ پھر قلم پکڑتے ہیں اور ہاتھ کے اعصاب خود بخود قلم کو چلاتے ہیں ، پھر یہ ہاتھ عجیب انداز سے انسانی ضرورت کے تمام ہتھیاروں اور اوزاروں کو استعمال کرتا ہے۔ چمچ ، چھری ، قلم اور دوسرے آلات خود بخود جس طرح ہم چاہیں ، ہاتھ کی گرفت میں آتے ہیں۔ یہ قدرتی آلہ 27 ہڈیوں اور 15 عضلات پر مشتمل ہے اور محیرالعقول ہے “۔ (اللہ اور جدید علم ، استاد عبدرازاق)

انسان کا کان اور اس کا جوف دراصل چار ہزار کے لگ بھگ نصف قوس کی کمانوں پر مشتمل ہے ، یہ کمانیں نہایت عمدگی سے بنائی گئی ہیں اور باہم دگر نہایت تکنیکی اعتبار سے مربوط ہیں۔ یہ موسیقی کے آلات کے مشابہ ہیں۔ اور یہ کمانیں ہر قسم کی آواز کو ایک عجیب انداز سے عقل اور دماغ کی طرف منتقل کرتی ہیں۔ بجلی کی کڑک کی سخت آواز ہو یا درختوں کی نہایت خوشگوار سرسراہٹ ہو ، کرخت آواز ہو یا آلات موسیقی کی خوشگوار آواز ہو ، یہ نصف قوس کے بیشمار نشیب و فراز جو کان کے اندر بنے ہوئے ہیں ، اس آواز کو من وعن دماغ تک پہنچاتے ہیں “۔

” آنکھ بھی ایک عجیب آلہ ہے ، روشنی کو اخذ کرنے والے تین کروڑ سے اوپر اعصاب کے سرے اس کے اندر موجود ہیں۔ پھر آنکھ کی حفاظت کے لئے پپوٹے اور اس کے اوپر پلکوں کا جنگلہ ہے۔ یہ نہایت خوبصورتی سے کسی بھی بیرونی چیز کو اندر آنے نہیں دیتے۔ اور خود کار طریقے سے حرکت میں رہتے ہیں۔ اور اجنبی چیزوں کو روکتے اور موڑتے ہیں۔ پلکوں کا سایہ دھوپ کی شدت کو بھی کم کرتا ہے اور پپوٹے خود کا طریقے سے آنکھ کو تر رکھتے ہیں۔ آنکھ کی صفائی کا نظام کس خوبصورتی سے کیا گیا ہے ، یہ سیال مادہ جسے آنسو کا نام دیا جاتا ہے یہ آنکھ کو ہر وقت صاف رکھتا ہے اور بہترین صفائی کرنے والا سیال ہے “۔ (علم ایمان کی دعوت دیتا ہے)

” چکھنے کا نظام انسان کی زبان میں رکھا گیا ہے۔ زبان کے لعاب دار پردے میں بیشمار چکھنے والے خلیے ہیں۔ یہ خلیے گھنڈیوں کی شکل میں ہیں۔ ان گھنڈیوں کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ ریشہ دار ہوتی ہیں ، بعض محدب ہوتی ہیں اور بعض پھٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور یہ خلیے زبان کے نگلنے اور چکھنے والے پٹھوں سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ جب انسان کوئی چیز کھاتا ہے تو اس عمل سے چکھنے والے اعصاب متاثر ہوتے ہیں اور یہ اثرات دماغ تک جاتے ہیں اور یہ پورا نظام انسانی منہ کے ابتدائی حصہ میں تخلیق کیا گیا ہے تاکہ اگر انسان کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے تو اسے تھوک سکے۔ یوں منہ کے اندرہی انسان معلوم کرلیتا ہے کہ جو چیز کھائی جارہی ہے وہ تلخ ہے ، شیریں ہے ، گرم ہے ، سرد ہے ، نمکین ہے یا جلانے والی ہے۔ زبان کے اندر چکھنے کی تو ہزار گھنڈیاں ہیں اور پٹھوں کے ذریعہ دماغ کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں ۔ ان کا حجم کیا ہے اور یہ کس طرح عمل کرتی ہیں ؟ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے “۔ (اللہ اور جدید سائنس)

” اور پھر اعصاب کا نظام جو پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے ، یہ ایسے باریک ریشوں کا مرکب ہے جو جسم کے ہر طرف پہنچے ہوئے ہیں۔ جسم کے کونے کونے سے آگے یہ بڑے اعصاف سے جڑتے جاتے ہیں۔ اور اعصاب کے مرکزی نظام سے مربوط ہوتے ہیں۔ اگر جسم کا کوئی حصہ بھی کسی طرح متاثر ہو تو یہ نظام مرکزی نظام کو اطلاع دیتا ہے ، چاہے موسم کی معمولی سی تبدیلی کیوں نہ ہو۔ یہ نظام پورے جسم سے احساسات داغ تک پہنچاتا ہے اور دماغ اس تاثر کے بعد حکم صادر کرتا ہے اور یہ نظام نہایت ہی تیزی سے پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ اس پیغام رسانی کی رفتار سو میٹر فی سیکنڈ ہے “۔

” نظام ہضم ایسا ہے جس طرح کوئی کیمیاوی لیبارٹری ہوتی ہے۔ کوئی چیز کھاتے ہی اس لیبارٹری میں ایک عجیب عمل شروع ہوتا ہے اور یہ فیکٹری ماسوائے معدے کے اس تھیلے کا سب کچھ چاٹ لیتی ہے۔ اور یہ عمل نہایت ہی حیرت انگیز طریقہ سے ہوتا ہے “۔

” اس لیبارٹری میں ہم انواع و اقسام کے کھانے داخل کرتے ہیں ، ہمارے سامنے یہ بات نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ یہ لیبارٹری کیا کرے گی اور نہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ کھانے کس طرح ہضم ہوں گے۔ گوشت ، تلی ہوئی مچھلی اور دوسری خوراکیں کچھ پانی کے ساتھ اس لیبارٹری میں داخل کردیتے ہیں “۔ (اللہ اور جدید سائنس)

” کھانوں کے اس مجموعے سے یہ لیبارٹری نفع بخش چیزیں لے لیتی ہے کہ تنور میں یہ مختلف کھانے اس طرح ٹوٹتے پھوٹتے ہیں کہ ان کے تمام اجزاء تحلیل ہوجاتے ہیں۔ وہ فضلات کو نکال کر باقی چیزوں کی پروٹین کی شکل دیتی ہے تاکہ ہو جسم کے مختلف خلیات کے لئے غذا کا کام دیں۔ یہ نظام ہضم اس ملغوبے سے ضروری اجزاء کیلشیم ، گندھک ، آیوڈین ، لوہا اور بیشمار دوسرے اجزاء اخذ کرلیتا ہے اور اس بات کا پورا خیال رکھتا ہے کہ کوئی کارآمد جزضائع نہ ہو ، تاکہ ان سے ہر مون پیدا ہوں اور انسانی زندگی کے لئے تمام ضروری مواد بقدر ضرورت مہیا ہوتا رہے اور نہایت منظم طریقے سے ہوتا رہے۔ معدہ چربی اور دوسرے بعض اجزاء کا ذخیرہ بھی کرتا ہے تاکہ ہنگامی ضروریات کے وقت یہ مواد کام آسکے۔ اور یہ لیبارٹری یہ سب کام خود کار طریقے سے کرتی ہے اور انسان کو نہ اس کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے۔ نہ انسان کو اس کے اسباب وعلل معلوم ہوتے ہیں۔ ہم بس اس کے اندر بیشمار چیزیں ڈال دیتے ہیں اور پھر یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کو جاری رکھنے کے لئے معدہ خود بخود ضروری اشیاء اخذ کرے گا۔ اور سارے کام خود کرے گا۔

جب خوراک ، نظام ہضم کے ذریعے نئی شکل اختیار کرتی ہے تو معدہ ان کو جسم کے کھربوں خلیات تک ان کی خوراک کے طور پر پہنچاتا ہے۔ اس کرہ ارض پر پوری آبادی سے زیادہ خلیات خود ایک انسان کے جسم میں ہیں۔ اور ہر خلیہ الگ خوراک مانگتا ہے جسے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہر خلیہ تک صرف اس کی ضرورت کی غذا پہنچتی ہے۔ اور یہ خلیات پھر اعضاء کی شکل اختیار کرتے ہیں مثلاً ہڈیاں ، ناخن ، کان ، آنکھیں ، دانت اور دوسرے اعضائ “۔

” پس معدہ ایک ایسی لیبارٹری ہے جو کسی بھی انسان تخلیق کردہ لیبارٹری سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ترسیل کا ایک عجیب نظام ہے جو کسی بھی انسانی نظام ترسیل اور اخذ سے زیادہ ٹیکنیکل ہے۔ اور آج تک انسان نے ایسا پیچیدہ نظام نہ دیکھا ہے نہ ایجاد کیا ہے اور اس لیبارٹری کا نظام نہایت ضبط اور منصوبہ بندی سے کام کرتا ہے۔ (یہ تمام اقتباسات کتاب ” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ سے لیے گئے ہیں) ۔

انسانی جسم کے اندر کام کرنے والے نظاموں کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام نظاموں میں انسان کے ساتھ حیوانات بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں۔ اگرچہ ان میں سے ہر نظام خواہ انسانوں میں ہو یا حیوانات میں ، اپنی جگہ معجز ہے۔ لیکن انسان کی عقلی ، فکری اور روحانی خصوصیات وہ ہیں جس میں یہ منفرد ہے اور یہ وہی خصوصیات ہیں جن کے بارے میں اللہ انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ اس پر اس کا احسان عظیم ہے۔

آیت 6{ یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ۔ } ”اے انسان ! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔“ ظاہر ہے یہ کام شیطان لعین ہی کرتا ہے۔ وہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکے میں ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو باربار خبردار کیا گیا ہے ‘ مثلاً سورة لقمان میں فرمایا : { وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَـرُوْرُ۔ } کہ وہ بڑا دھوکے باز تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے ! لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام تر تنبیہات کے باوجود اکثر انسان شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شیطان مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف چالیں اور حربے آزماتا ہے۔ مثلاً ایک دیندار شخص کو اہم فرائض سے ہٹانے کے لیے وہ نوافل اور ذکر و اذکار کا ُ پرکشش پیکج پیش کرسکتا ہے کہ تم اقامت دین اور دوسرے فرائض دینی کا خیال چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنے اور تہجد کی پابندی پر توجہ دو۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ہی تیر بہدف چال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ کوئی خوردہ گیر نہیں کہ اپنے مومن بندوں کو چھوٹی چھوٹی خطائوں پر پکڑے۔ وہ تو بہت بڑے بڑے گناہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بےعملی کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی یہی چال ہے ‘ بلکہ اس دلیل کے سہارے اکثر لوگ گناہوں کے بارے میں حیران کن حد تک جری اور بےباک ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! تمہاری بےعملی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے نام پر دھوکے میں مبتلا کردیا ہے ؟

آیت 6 - سورہ انفطار: (يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم...) - اردو