سورہ انفطار: آیت 1 - إذا السماء انفطرت... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ انفطار

إِذَا ٱلسَّمَآءُ ٱنفَطَرَتْ

اردو ترجمہ

جب آسمان پھٹ جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha alssamao infatarat

آیت 1 کی تفسیر

اذا السمائ ........................ واخرت

گزشتہ سورت میں ہم نے ان آثار کی بات کی تھی جو ان مظاہر کو دیکھ کر انسانی احساس پر نمودار ہوتے تھے ، یہ مناظر اس عظیم انقلاب سے متعلق تھے جو دست قدرت اس کائنات میں برپاکردے گا ، اس کائنات کو اس طرح ہلا مارا جائے گا کہ کوئی چیز اپنی جگہ پر قائم نہ رہے گی اور اس عظیم کائنات کو تہ وبالا کردیا جائے گا۔ ہم نے وہاں یہ بھی بتایا تھا کہ ان آثار میں سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل اس پوری کائنات سے اٹھ جاتا ہے اور انسان اپنا تعلق اس خالق حقیقی کے ساتھ جوڑ لیتا ہے جو باقی اور لازوال ہے ۔ جو اس وقت بھی باقی رہے گا جب یہ پوری کائنات ہلا ماری جائے گی۔ ان تمام انقلابات ، زلزلوں اور توڑپھوڑ کے عظیم عمل میں انسان کے لئے واحدجائے پناہ اس ذات کبریا کی درگاہ ہے جو ثابت ، برقرار اور اس قدر منظم ہے جسے خلود اور دوام حاصل ہے۔ اور یہ خلود اور دوام صرف اسی ذات کا خاصہ ہے۔

یہ اس عظیم کائناتی انقلاب کے جو پہلو لائے گئے ہیں ، ان میں سے ایک پہلو آسمان کا پھٹنا ہے۔ آسمان کے پھٹنے اور شق ہونے کا ذکر اور منظر قرآن مجید کے کئی مقامات پر پیش کیا گیا ہے۔ سورة رحمن میں ہے۔

فاذا انشقت ................ کالدھان (37:55) ” جب آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس طرح سرخ ہوگا جس طرح چمڑا سرخ ہوتا ہے “۔ اور سورة الحاقہ میں ہے :

وانشقت .................... واھیة (16:69) ” اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس کی بندش کھل جائے گی “۔ اور سورة انشقاق میں ہے :

اذا ........................ انشقت (1:84) ” جب آسمان پھٹ جائے گا “۔ اس مصیبت کے دن کی مشکلات اور حقائق میں سے ایک بڑی حقیقت یہ ہوگی کہ اس دن آسمان پھٹ جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ آسمان کے پھٹنے کی تفصیلی کیفیت کیا ہوگی ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نہ اس کی اصل حقیقت سے ہم خبردار ہیں۔ جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ اس کائنات کی شکل و صورت میں ایک عظیم تغیر رونما ہوگا جو ہمیں نظر آتی ہے اور اس کا یہ موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی موجودہ بندش کھل جائے گی جس نے اس کے تمام کر ات کو اس وقت اپنی جگہ باندھ کر رکھا ہے۔

یہاں اس عظیم فضا میں ستاروں کے بکھر جانے کا منظر بھی فضا کی ہولناکی میں شریک ہوجاتا ہے۔ اس وقت یہ ستارے اپنے اپنے مدار میں ایک خوفناک سرعت اور تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں۔ لیکن اپنے اپنے مدار میں جکڑے ہوئے ہیں ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس محیرالعقول وسیع فضا میں جدھر منہ ہو ، ادھر دوڑتے رہیں ، اور اگر یہ اس طرح بکھر جائیں جس طرح اس وقت ہوگا جب قیامت برپا ہوگی تو وہ اس نہایت مضبوط غیر مرئی نظام کی بندش سے چھوٹ جائیں ، جس نے ان کو جوڑ رکھا ہے ، تو یہ فضا میں اسی طرح پھرتے رہیں جس طرح ایک ذرہ فضا میں اڑتارہتا ہے۔

سمندروں کی ” تفجیر “ کا ایک مفہوم تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ بھر جائیں اور خشکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں اور ایک عظیم طغیانی آجائے ، نیز اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ پانی پھٹ جائے اور جن عناصر سے وہ مرکب ہے ، ان عناصر کی صورت اختیار کرلے۔ یعنی آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ جس طرح پانی کی تشکیل سے قبل یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کی شکل میں تھا۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں عناصر بھی ایٹم اور ہائیڈروجن بم کی طرح پھٹ جائیں۔ اس کا تصور اب اچھی طرح کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایٹم اور ہائیڈروجن پھٹ جائیں تو اس کائنات کے اندر کیا کچھ ہوجائے گا جبکہ موجود ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اس دھماکے کے مقابلے میں محض کھلونے ہیں یا ” تفجیر “ کے کوئی اور معنی ہیں جو ابھی تک ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ عرض ایک عظیم ہولناک اور خوفناک صورت حالات ہوگی۔

قبروں کا کھلنا بھی ان حالات کی وجہ سے ہوگا یا مفہوم یہ ہوگا کہ اس طویل تبدیلی کے دوران حقیقتاً قبریں پھٹ پڑیں گی اور ان میں سے لوگوں کے جسم اٹھ کھڑے ہوں گے تاکہ یہ میدان حشر میں حساب و کتاب کے لئے چل پڑیں۔ اس آخری مفہوم کی تائید فقرہ مابعد سے بھی ہوتی ہے۔

اور قبریں پھوٹ پریں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے جیسے فرمایا آیت (السَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ ۭ كَانَ وَعْدُهٗ مَفْعُوْلًا 18؀) 73۔ المزمل :18) اور ستارے سب کے سب گرپڑیں گے اور کھاری اور میٹھے سمندر آپس میں خلط ملط ہوجائیں گے۔ اور پانی سوکھ جائے گا قبریں پھٹ جائیں گی ان کے شق ہونے کے بعد مردے جی اٹھیں گے پھر ہر شخص اپنے اگلے پچھلے اعمال کو بخوبی جان لے گا، پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دھمکاتا ہے کہ تم کیوں مغرور ہوگئے ہو ؟ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب طلب کرتا ہو یا سکھاتا ہو، بعض نے یہ بھی کہا ہے بلکہ انہوں نے جواب دیا ہے کہ اللہ کے کرم نے غافل کر رکھا ہے، یہ معنی بیان کرنے غلط ہیں صحیح مطلب یہی ہے کہ اے ابن آدم اپنے باعظمت اللہ سے تو نے کیوں بےپرواہی برت رکھی ہے کس چیز نے تجھے اس کی نافرمانی پر اکسا رکھا ہے ؟ اور کیوں تو اس کے مقابلے پر آمادہ ہوگیا ہے ؟ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے ابن آدم تجھے میری جانب سے کسی چیز نے مغرور کر رکھا تھا ؟ ابن آدم بنا تو نے میرے نبیوں کو کیا جواب دیا ؟ حضرت عمر نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ انسانی جہالت نے اسے غافل بنا رکھا ہے، ابن عمر ابن عباس وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے، قتادہ فرماتے ہیں اسے بہکانے والا شیطان ہے، حضرت فضیل ابن عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ اگر مجھ سے یہ سوال ہو تو میں جواب دوں گا کہ تیرے لٹکائے ہوئے پروں نے۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں میں تو کہوں گا کہ کریم کے کرم نے بےفکر کردیا، بعض سخن شناس فرماتے ہیں کہ یہاں پر کریم کا لفظ لاناگویا جواب کی طرف اشارہ سکھانا ہے۔ لیکن یہ قول کچھ فائدے مند نہیں بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ کرم والوں کو اللہ کے کرم کے مقابلہ میں بد افعال اور برے اعمال نہ کرنے چاہئیں۔ کلبی اور مقاتل فرماتے ہیں کہ اسود بن شریق کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے۔ اس خبیث نے حضور ﷺ کو مارا تھا اور اسی وقت چونکہ اس پر کچھ عذاب نہ آیا تو وہ پھول گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر فرماتا ہے وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا پھر درمیانہ قد و قامت بخشا خوش شکل اور خوبصورت بنایا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم کیا تو مجھے عاجز کرسکتا ہے ؟ حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر صحیح قامت بنایا پھر تجھے پہنا اڑھا کر چلنا پھرنا سکھایا آخر کار تیرا ٹھکانہ زمین کے اندر ہے تو نے خوب دولت جمع کی اور میری راہ میں دینے سے باز رہا یہاں تک کہ جب دم حلق میں آگیا تو کہنے لگا میں صدقہ کرتا ہوں، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں ؟ جس صورت میں چاہا ترکیب دی یعنی باپ کی ماں کی ماموں کی چچا کی صورت میں پیدا کیا۔ ایک شخص سے حضور ﷺ نے فرمایا تیرے ہاں بچہ کیا ہوگا ؟ اس نے کہا یا لڑکا یا لڑکی۔ فرمایا کس کے مشابہ ہوگا ؟ کہا یا میرے یا اس کی ماں کے۔ فرمایا خاموش ایسا نہ کہہ نطفہ جب رحم میں ٹھہرتا ہے تو حضرت آدم تک کا نسب اس کے سامنے ہوتا ہے۔ پھر آپ نے آیت (فی ای صورۃٍ ما شاء رکبک) پڑھی اور فرمایا جس صورت میں اسنے چاہا تجھے چلایا۔ یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو آیت کے معنی کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اس کی اسناد ثابت نہیں ہے۔ مظہرین ہثیم جو اس کے راوی ہیں یہ متروک الحدیث ہیں۔ ان پر اور جرح بھی ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد ﷺ کے پاس آ کر کہا میری بیوی کو جو بچہ ہوا ہے وہ سیاہ فام ہے۔ آپ نے فرمایا تیرے پاس اونٹ بھی ہیں ؟ کہا ہاں۔ فرمایا کس رنگ کے ہیں ؟ کہا سرخ رنگ کے۔ فرمایا کہ ان میں کوئی چت کبرا بھی ہے ؟ کہا ہاں۔ فرمایا اس کا رنگ کا بچہ سرخ نر و مادہ کے درمیان کیسے پیدا ہوگیا ؟ کہنے لگا شاید اوپر کی نسل کی طرف کوئی رگ کھینچ لے گئی ہو۔ آپ نے فرمایا اسی طرح تیرے بچے کے سیاہ رنگ کے ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہو۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اگر چاہے بندر کی صورت بنا دے اگر چاہے سور کی۔ ابو صالح فرماتے ہیں اگر چاہے کتے کی صورت میں بنا دے اگر چاہے گدھے کی اگر چاہے سور کی قتادہ فرماتے ہیں یہ سب سچ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن وہ مالک ہمیں بہترین، عمدہ، خوش شکل اور دل لبھانے والی پاکیزہ پاکیزہ شکلیں صورتیں عطا فرماتا ہے پھر فرماتا ہے کہ اس کریم اللہ کی نافرمانیوں پر تمہیں آمادہ کرنے والی چیز صرف یہی ہے کہ تمہارے دلوں میں قیامت کی تکذیب ہے تم اس کا آنا ہی برحق نہیں جانتے اس لیے اس سے بےپرواہی برت رہے ہو، تم یقین مانو کہ تم پر بزرگ محافظ اور کاتب فرشتے مقرر ہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ انکا لحاظ رکھو وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں تمہیں برائی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کے یہ بزرگ فرشتے تم سے جنابت اور پاخانہ کی حالت کے سوا کسی وقت الگ نہیں ہوتے۔ تم انکا احترام کرو، غسل کے وقت بھی پردہ کرلیا کرو دیوار سے یا اوٹ سے ہی سہی یہ بھی نہ تو اپنے کسی ساتھی کو کھڑا کرلیا کرو تاکہ وہی پردہ ہوجائے (ابن ابی حاتم) بزار کی اس حدیث کے الفاظ میں کچھ تغیر و تبدل ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ننگا ہونے سے منع کرتا ہے۔ اللہ کے ان فرشتوں سے شرماؤ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ غسل کے وقت بھی یہ فرشتے دور ہوجاتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جب یہ کراماکاتبین بندے کے روزانہ اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہیں تو اگر شروع اور آخر میں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے درمیان کی سب خطائیں میں نے اپنے غلام کی بخش دیں (بزار) بزار کی ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے انسانوں کو اور ان کے اعمال کو جانتے پہنچانتے ہیں جب کسی بندے کو نیکی میں مشغول پاتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں شخص نجات پا گیا فلاح حاصل کر گیا اور اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو آپس میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں ہلاک ہوا۔

آیت 1 - سورہ انفطار: (إذا السماء انفطرت...) - اردو