سورہ اخلاص: آیت 1 - قل هو الله أحد... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ اخلاص

قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ

اردو ترجمہ

کہو، وہ اللہ ہے، یکتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul huwa Allahu ahadun

آیت 1 کی تفسیر

قل ................ احد (1:112) ” کہو ، وہ اللہ ہے یکتا “۔ احد کا لفظ واحد سے زیادہ گہرا ہے کیونکہ احمد ، واحد کے مفہوم پر مزید اضافہ کرتا ہے ، کہ اس کے ساتھ اور کوئی چیز حقیقتاً موجود نہیں ہے اور اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے یعنی وہ یکتا ہے۔

” احد “ میں وجوء کی احدیت کا اظہار ہے ، یعنی اس کی حقیقت کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے سوا اور کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ اللہ کے سوا جس قدر موجودات ہیں وہ اپنا وجوء اللہ سے اخذ کرتی ہیں اور وہ اپنی حقیقت اللہ کی حقیقت سے لیتی ہیں۔ وہ فاعلیت میں بھی یکتا ہے لہٰذا اللہ کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی اور موثر اور کوئی اور فاعل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ایک نظریہ اور عقیدہ ہے جو انسان کے ضمیر میں جاگزیں ہوتا ہے اور یہ دراصل اس کائنات کی تفسیر بھی ہے ۔ جب کسی دل میں یہ عقیدہ بیٹھ جاتا ہے اور عقل اس کا تصور کرلیتی ہے۔ اور اس پوری کائنات کی تفسیر اس کی روشنی میں ہوجاتی ہے تو انسانی دل پر کوئی اور تصور نہیں چھاتا اور انسانی قلب میں کسی اور سوچ کا شائبہ نہیں رہتا۔ اور انسانی قلب اس واحد ذات واجب الوجود کے سوا کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا ، کیونکہ دراصل موجود تو یہی ذات یکتا ہے اور فعال اور موثر یہی واحد ذات ہے۔

پھر اس کائنات میں جو چیزیں بھی پائی جاتی ہیں ان کے ساتھ قلب انسانی کا رابطہ ختم ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ انسانی دل سے ماسوی اللہ کے وجود کا شعور ہی ختم ہوجائے۔ اگر یہ شعور ختم نہ بھی ہو ، تعلق ختم ہوجاتا ہے ، اس لئے کہ اللہ کے وجود کے سوا تمام دوسری اشیاء کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اور اس پوری کائنات میں اللہ کے ارادے کی فاعلیت اور تاثیر کے سوا کوئی اور چیزفعال اور موثر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا عقیدہ توحید کے قلب انسانی کسی ایسی چیز سے کیوں متعلق ہو جو نہ حقیقتاً موجود ہے اور نہ کسی چیز میں فعال وموثر ہے۔

اب جب دل الٰہ یکتا کے سوا تمام اشیاء کی حقیقت کے تصور ہی سے خالی ہوگیا اور اس میں ماسوی اللہ سے تعلق ہی نہ رہا۔ تو اب یہ دل صحیح میں آزاد ہوتا ہے ، وہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس دل کی تمام خواہشات ختم ہوجاتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ خواہشات ہی دراصل پاﺅں کی زنجیریں ہوتی ہیں۔ پھر خوف بھی اس دل سے ختم ہوجاتا ہے اور یاد رہے کہ اس خوف کی وجہ سے بھی انسان پابند سلاسل ہوجاتا ہے۔ انسان کے دل سے مرغوبات کیوں ختم ہوجاتی ہیں اس لئے کہ جب وہ اللہ کو پالیتا ہے تو وہ سب کچھ پالیتا ہے اور وہ ڈرتا اس لئے نہیں کہ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی فعال نہیں۔

جب انسانی شعور میں یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھ جائے کہ انسان کو اس کائنات میں صرف اللہ کی حقیقت نظر آتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر اس کائنات میں انسان کو جو وجود نظرآئے گا اس میں بھی اسے یہی حقیقت نظر آئے گی۔ اس طرح پھر انسانی قلب کو ہر چیز میں دست قدرت نظرآتا ہے اور اس کے بعد پھر انسان اس درجے پر فائز ہوتا ہے کہ اسے اس کائنات میں اللہ کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

اس عقیدے اور تصور کے نتیجے میں انسان سوچنے لگتا ہے کہ ظاہری اسباب بھی ہیچ ہیں۔ اصل اور حقیقی سبب مسبب الاسباب ہے یعنی ذات باری تعالیٰ ۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف قرآن نے بہت توجہ کی ہے اور اسے اسلام کی ایمانیات میں داخل کرکے ذہنوں میں بٹھانے کی سعی کی ہے۔ چناچہ ظاہری اسباب کو برطرف کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل سبب مشیت الٰہیہ ہے۔

وما رمیت ........................ رمی (17:8) ” جب تم نے پھینکا تو دراصل تم نے نہیں پھینکا مگر اللہ نے پھینکا “۔ اور آل عمران (126) میں یہ کہا گیا :

وما النصر ................ اللہ (126:3) ” فتح ونصرت صرف اللہ کی طرف سے ہے “۔ اور الدھر (30) میں ہے۔

وما تشآءون ........................ اللہ (30:76) ” اور تم نہیں چاہتے الا یہ کہ اللہ چاہے “۔ اسی طرح کی بیشمار آیات ہیں۔

جب انسان اسباب ظاہری کو برطرف کردیتا ہے تو پھر اسے نظر آتا ہے کہ تمام امور اللہ کی مشیت سے طے پاتے ہیں۔ پھر اس سے اس کے دل میں اطمینان پیدا ہوجاتا ہے اب وہ تمام مرغوبات اللہ سے طلب کرتا ہے اور تمام مکروہات سے بچنے کے لئے اللہ کے ہاں پناہ ڈھونڈتا ہے اور ظاہری عوامل ، ظاہری اسباب اور موثرات جو کچھ کرتے نظرآتے ہیں ، اس کائنات میں ان کی کوئی حقیقت اس کی نظروں میں نہیں ہوتی۔

یہ تھے وہ مقامات جن کو عبور کرنے کی سعی صوفیاء کرتے رہے۔ لیکن ان مقامات کی کشش ان کو کہیں دور ہی لے گئی۔ صوفیا اس بات کو سمجھ نہ سکے کہ اسلام لوگوں کو بلا کر ان مقامات بلند تک ضرور لے جاتا ہے لیکن وہ ان کو اس دنیا کی عملی زندگی کے تمام نشیب و فراز کے اندر رکھتے ہوئے اور ہر طرح کی انسانی زندگی کے اندر رہتے ہوئے اور اس زمین پر اللہ کی نیابت کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ان مقامات تک پہنچاتا ہے۔ وہ اس دنیا کی زندگی کے اندر ہوتے ہوئے اور اس زمین پر اللہ کی نیابت کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ان مقامات تک پہنچاتا ہے۔ وہ اس دنیا کی زندگی میں بھر پور حصہ بھی لیتے ہیں اور اسے ہیچ بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اس کائنات میں رتے ہیں لیکن وہ حقیقی موجود صرف اللہ کو سمجھتے ہیں۔ وہ تمام واقعات وحادثات میں فعال اور موثر اللہ کو سمجھتے ہیں۔ اور اس طریقے کے سوا اسلام کوئی دوسرا طریقہ نہیں اپناتا ، نہ چاہتا ہے ۔ پس اس کے نتیجے میں ایک مکمل نظام زندگی وجود میں آتا ہے۔ یہ نظام اس کائنات کی اس تشریح اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور ، تصورات اور رجحانات کے نتیجے میں پیدا ہتوا ہے۔ اس نظام زندگی کے خدوخال کیا ہیں ؟

(1) اس نظام کا ایک اپنا نظام عبادت ہے جس میں صرف اللہ کی بندگی کی جاتی ہے۔ وہ اللہ جس کے وجود کے سوا کسی وجود کی کوئی حقیقت نہیں ، جس کی فاعلیت کے سوا کوئی اور فاعلیت نہیں۔ اور اس کے ارادے کے سوا کسی اور کا ارادہ موثر نہیں۔

(2) یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ایک انسان ہر حالت میں ، امید میں اور خوف میں صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ خوشی اور غم میں ، امیری اور فقیری میں ، غرض ہر حال میں اس کا رخ صرف اللہ وحدہ کی طرف ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس نظام میں ہر شخص یہ جانتا ہے کہ جب اللہ کے سوا کسی اور چیز کا وجود ہی حقیقی نہیں۔ تو پھر اس کی طرف توجہ اور پکار کا فائدہ کیا ہوگا۔ جب اللہ کے سوا اور کوئی نہ فاعل ہے اور نہ موثر تو پھر اس کی طرف توجہ سے حاصل کیا ہوگا۔

(3) یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہدایات صرف اللہ سے لی جاتی ہیں۔ عقائد ونظریات ، اقدار اور پیمانے ، شریعت اور قانون ، ادارے اور انتظام ، رسوم و رواج ، آداب وتقالید سب کی سب اللہ سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہر قسم کی ہدایت اور رہنمائی صرف اللہ وحدہ سے لی جاتی ہے۔ جو حقیقت واقعہ میں بھی اور ایک مسلم کے ضمیر میں بھی واحد موجود ہے۔

(4) یہ نظام ایک نظام تحریک اور عمل ہے۔ اور یہ تحریک وعمل صرف اللہ وحدہ کے لئے ہے۔ اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کے قرب کے حصول کے لئے۔ اس امید پر کہ اس تک پہنچے کی راہ میں تمام پردے اور رکاوٹیں دور ہوں گی۔ اور گمراہی کے تمام شوائب سے انسان محفوظ ہوگا ، چاہے یہ پردہ اور رکاوٹیں نفس انسانی کے اندر ہوں ، یا انسانی ماحول کی چیزوں اور انسانوں کی طرف سے ہوں۔ جن میں خود انسان کی ذات ، انسان کا خوف اور اس کی خواہش اور اس دنیا میں اس کی مرغوب اشیاء سرفہرست ہیں۔

(5) یہ ایک ایسا نظام ہے کہ مذکورہ بالا امور کے ساتھ ساتھ وہ قلب بشری اور اس کائنات کی تمام موجودات کے درمیان ، محبت ، انس ، تعاون ، یگانگت کا تعلق پیدا کرتا ہے۔ اس لئے کہ دنیا کے بندھنوں سے آزادی کے معنی یہ نہیں کہ انسان اس کو مکرو سمجھے ، اس سے نفرت کرے ، اس سے بھاگے اور اس کے برتنے سے اجتناب کرے۔ اس لئے کہ دنیا کی اشیاء سب کی سب اللہ کے دست قدرت کر کرشمے ہیں۔ ان کا وجود اللہ کے وجود سے ماخوذ ہے۔ اور سب اشیاء پر اسی حقیقت کی پرتو پڑتی ہے ، لہٰذا یہ سب چیزیں محبوب ہیں کیونکہ یہ اللہ کے تحفے ہیں جو حبیب ہے۔

(6) یہ نظام نہایت بلند اور آزاد نظام ہے ، اس کی نظروں میں زمین ایک چھوٹی سی گیند ہے ، دنیا کا سازو سامان بےقیمت ہے اور ان پردوں اور رکاوٹوں سے آزادی سب کی تمنا ہے لیکن دنیا کی غلامی سے آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان دنیاوی امور سے الگ تھلگ ہوجائے اور اس دنیا کو یونہی مہمل چھوڑ دے۔ یا اس سے نفرت کرے ، اور اس سے بھاگے ، بلکہ اسلامی نظام کا تقاضا یہ ہے کہ جہد مسلسل ہو ، دائمی جدوجہد برپا ہو ، انسانیت کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک ترقی دی جائے ، اور انسان کی زندگی پوری طرح آزاد اور فری ہو۔ پس دنیا کی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ منصب خلافت الٰہیہ ہے جس کی اپنی ذمہ داریاں ہیں لیکن ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے انسان ان کا غلام بھی نہیں ہے ان سے آزاد بھی ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تشریح کی۔

دنیا سے چھٹکارے کا ایک تو وہ طریقہ ہے جو گرجوں نے تجویز کیا لیکن اسلام صومعاتی رہبانیت کا قائل نہیں ہے اس لئے کہ انسان نے خلافت ارضی کے فرائض بھی سرانجام دینے ہیں اور انسانوں کو ایک اچھی قیادت کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ دونوں امور انسان کی نجات اور فلاح اور اس دنیا کی غلامی سے چھٹکارے کے لئے ضروری ہیں۔ یہ راہ بہت دشوار ہے۔ یعنی انسان کی انسانیت کا تحقق صرف اسی صورت میں ممکن ہے۔ اس طرح انسان کی شخصیت میں روحانیت کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ ہے آزادی ، انسان کی روح دنیاوی آلائشوں سے آزاد ہوکر اپنے اصلی مصدر کی طرف آزاد ہوجاتی ہے اور انسان کو اللہ نے پیدا کرکے جس دنیا میں چھوڑا ہے اس میں کام کرتے ہوئے بھی وہ اپنی اعلیٰ روحانی مقام اور حقیقت کو برقرار رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسالت کے آغاز میں دعوت کو صرف عقیدہ توحید تک محدود رکھا گیا اور مندرجہ بالا معنوں میں عقیدہ توحید کو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کی گئی کیونکہ اس معنی میں توحید انسانی قلب وضمیر میں بیٹھا ہوا ایک عقیدہ بھی ہے۔ اس کائنات کی تفسیر وتشریح اور تعبیر بھی ہے اور ایک مکمل نظام حیات بھی ہے۔ اس مفہوم میں عقیدہ توحید صرف الفاظ نہیں جن کا اقرار زبان سے کردیاجائے اور صرف انسانی ضمیر و شعور کا پختہ یقین بھی نہیں ہے جو صرف ضمیر و شعور کے اندر ہی پوشیدہ ہو ، یہ سب کچھ ہے ، پورا دین ہے بلکہ اس عقیدے کی تفصیلات ہیں۔ اس کے کچھ نتائج ہیں اور یہ تفصیلات اور یہ نتائج اس عقیدے کے طبعی اور لازمی نتائج ہیں۔ اور یہ نتائج قوانین طبیعیہ کی طرح سامنے آتے ہیں۔ اگر دین میں یہ عقیدہ موجود ہو۔

اہل کتاب کے اندر جو انحراف پدیا ہو ، جس نے ان کے عقائد و تصورات ، ان کی عملی زندگی کو برباد کردیا ، اس کا آغاز بھی پہلے پہل حقیقی عقیدہ توحید کے مٹ جانے کی وجہ سے ہوا۔ عقیدہ توحید کے مٹنے کے بعد پھر دوسرے انحرافات پیدا ہوئے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے نظریہ توحید کی امتیازی شان ہے کہ یہ انسانی زندگی کے اندر نہایت گہرائی تک اترتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانوں کی پوری زندگی اس عقیدے پر استوار ہو ، اور انسانوں کی زندگی کا عملی نظام پورے کا پورا عقیدہ توحید کی اساس پر قائم ہو۔ جس طرح کے اثرات تصورات و عقائد میں ہوں اسی طرح شریعت و قانون بھی ہوں۔ اور اس طرح کے آثار سے بڑا اثر اور اس کے نتائج میں سے بڑانتیجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی پر شریعت الٰہیہ کی حکمرانی ہو۔ اگر اقرار توحید کے بعد یہ آثار نمودار نہ ہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ عقیدہ توحید موجود نہیں۔ اس لئے کے اسلام کا عقیدہ توحید جب دل میں اترتا ہے تو وہ ارکان حیات اور نظام حیات اور اعمال کی شکل میں اگتا ہے۔

اس کا مفہوم کہ اللہ ” احد “ ہے ، یہ ہے کہ وہ ” صمد “ ہے ، یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اور یہ کہ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ اور اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ لیکن ” احد “ کے بعد ان دوسرے مفاہیم کو محض وضاحت کے لئے الگ ذکر کیا گیا ہے۔

اللہ الصمد (2:112) ” اللہ سب سے بےنیاز ہے “۔ صمد کا لغوی معنی ہیں وہ جس کی اجازت کے بغیر کوئی امر طے نہ ہوتا ہو اور اللہ تو وہ سردار ہے جس کے سوا کوئی سید اور سردار نہیں ہے۔ وہ اپنی اولہیت میں یکتا ہے اور سب اس کے غلام ہیں۔ اور وہی وحدہ قاضی الحاجات ہے۔ وہی ہے جو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہے ، اور ہر بات کا فیصلہ اس کے حکم سے ہوتا ہے اور اس فیصلے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوتا۔ اور یہ مفوم خود لفظ احد میں بھی مکمل طور پر موجود ہے۔

لم یلد ولم یولد (3:112) ” نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے “۔ اللہ کی ذات وہ حقیقت ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ اور اس کی ذات ایک حال سے دوسرے حال میں بدل نہیں سکتی۔ اس کی صفت یہ ہے کہ وہ کامل مطلق ہے اور تمام حالات میں ذات باری کامل ہوتی ہے۔ ولادت کا عمل سب کو معلوم ہے کہ پھٹنے اور بڑھنے سے عبارت ہے۔ عدم سے وجود میں آا یا نقص سے کمال کی طرف بڑھنا دراصل ولادت کی علامات ہیں اور اللہ ان چیزوں سے پاک ہے۔ پھر ولادت کے لئے زوجیت کی ضرورت ہے اور پھر زوجہ ہمیشہ زوج اور خاوند کی ہم جنس ہوتی ہے۔ اور یہ بھی اللہ کے محال ہے ، اور خدا کے احد ہونے کے مفوہم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نہ کسی کا بات ہے اور نہ بیٹا۔

ولم یکن ................ احد (4:112) ” اور کوئی اس کا ہمسر نہیں “۔ نہ اسکا کوئی مماثل ہے اور نہ برابر ہے۔ نہ وجود کی حقیقت کے اعتبار سے ، نہ فاعلیت کے اعتبار سے ، اور نہ اس کی کسی ذات صفت میں۔ اور یہ بات بھی لفظ ” احد “ میں موجود ہے۔ وہ چونکہ احد ہے اس لئے اس کا کوئی کفو نہیں ہے۔ یہ سب فقرے ” احد “ کی تاکیدوتشریح ہیں۔ یہ عقیدہ اس زرتشتی عقیدے کی تردید کرتا ہے کہ اللہ خیر کا الٰہ ہے اور شر کا الٰہ کوئی اور ہے۔ یہ ثنائی عقائد کے پیروکاروں کا خود ساختہ عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ ایران میں مروج ہے۔ چناچہ ایرانی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ایک خیر کا الٰہ ہے اور دوسرا شر کا الٰہ ہے۔ ایک نور کا الٰہ ہے اور دوسرا ظلمت کا الٰہ ہے اور جزیرة العرب کے جنوب میں بعض لوگ یہ عقائد رکھتے تھے جہاں ایرانیوں کی حکومت تھی۔

یہ سورت اسلام کے عقیدہ توحید کو پوری طرح ثابت کرتی ہیں۔ جس طرح سورة الکافرون کا موضوع یہ تھا کہ عقیدہ توحید اور شر کے درمیان کوئی مصالحت اور مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دونوں سورتوں کا موضوع مختلف زاویوں سے عقیدہ توحید ہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ روز مرہ کے معمولات کا آغاز صبح کی دو سنتوں سے کرتے تھے اور ان میں یہ دوسورتیں پڑھتے تھے۔ اور صبح کی سنتوں میں ان کا پڑھنا بامقصد تھا اور یہ بات واضح بھی ہے۔

آیت 1{ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ } ”کہہ دیجیے وہ اللہ یکتا ہے۔“ اَحَد : وہ اکیلا اور یکتا جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ وہی اکیلا ربّ ہے ‘ کسی دوسرے کا ربوبیت اور الوہیت میں کوئی حصہ نہیں۔ وہی تنہا کائنات کا خالق ‘ مالک الملک اور نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے۔

اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭ اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہوچکی ہے، حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئی شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبانہ و تعالیٰ سب پر الب ہے اور اپنی ذات وصفات میں یکتا اور بینظیر ہے، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہوجانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گذرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ صمد میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو، لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔ حافظ ابو القاسم طبراین ؒ اپنی کتاب " السنہ " میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ درصال یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردر اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ۔ پھر فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے یعنی وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہوگی ؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے : یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہوگا ؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا وقالو اتحذا الرحمٰن ولدا الخ، یعنی یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گرپڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں اور جگہ ہے (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 26؀ۙ) 21۔ الأنبیاء :26) ، یعنی ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں اور جگہ ہے وجعلوا بینہ وبین الجنتہ نسبتاً الخ، یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے۔ بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں ؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور احلمد اللہ سورة اخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔

آیت 1 - سورہ اخلاص: (قل هو الله أحد...) - اردو