سورۃ الحجرات: آیت 3 - إن الذين يغضون أصواتهم عند... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ الحجرات

إِنَّ ٱلَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَٰتَهُمْ عِندَ رَسُولِ ٱللَّهِ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱمْتَحَنَ ٱللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ

اردو ترجمہ

جو لوگ رسول خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yaghuddoona aswatahum AAinda rasooli Allahi olaika allatheena imtahana Allahu quloobahum lilttaqwa lahum maghfiratun waajrun AAatheemun

آیت 3 کی تفسیر

ان الذین یغضون اصواتھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واجر عظیم (49 : 3) “ جو لوگ رسول خدا کے ہاں بات کرتے ہوئے اپنی آواز کو پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے ۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے ”۔

تقویٰ اور خدا خوفی اللہ کی ایک عظیم بخشش ہے۔ اللہ ہی اس اعزاز اور نعمت کے لئے دلوں کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس امتحان اور اختیار اور خلوص اور طہارت قلبی کے بعد پھر ان دلوں کو تقویٰ دیا جاتا ہے ، لہٰذا یہ نعمت انہی دلوں کو دی جاتی ہے جو اس کے لئے تیار ہوں اور یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دل تقویٰ کے مستحق ہیں اور جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ ﷺ کے ہاں نیچی رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو تقویٰ کے لئے منتخب کیا گیا اور اس انعام کے ساتھ یعنی تقویٰ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو مغفرت بھی دی جاتی ہے۔

انتہائی ڈراوے کے بعد یہ ایک گہری ترغیب ہے ۔ اس طرح اللہ اپنے مختار بندوں کے دلوں کو تربیت فرماتا ہے اور ان کو اس عظیم کام کے لئے تیار کرتا ہے اور اسی انداز تربیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے آغاز میں جماعت صحابہ کو تیار فرمایا تھا۔ یہ لوگ ہدایت پر تھے اور روشنی کے حامل تھے ۔

امیر المومنین عمر ابن الخطاب ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے مسجد نبوی ﷺ میں دو آدمیوں کی آواز سنی ، ان کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ وہ آئے اور انہوں نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ؟ اس کے بعد ان سے کہا تم کہاں سے آئے ہو ، انہوں نے کہا ہم اہل طائف سے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا اگر تم اہل مدینہ سے ہوتے تو میں تمہاری خوب خبر لیتا۔

علمائے امت نے اس بات کو سمجھا اور فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بلند آواز سے بات کرنا منع ہے جبکہ آپ کی زندگی میں مسجد نبوی میں اونچی آواز سے بات کرنا ممنوع تھی۔ ہر حال میں ممنوع تھا بوجہ احترام ۔

اس کے بعد ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا جو 9 ہجری کو پیش آیا۔ فتح مکہ کے بعد ہر طرف سے وفود آ رہے تھے۔ بنی تمیم کا ایک وفد نبی ﷺ سے ملنے آیا۔ یہ لوگ خالص خشک دیہاتی تھے ۔ انہوں نے نبی ﷺ کے حجرات کے سامنے جن میں ازواج مطہرات بھی تھیں ، کھڑے ہو کر پکارا ، محمد ؐ، ذرا باہر آئیے۔ نبی ﷺ نے ان کے اس طریقے کو ناپسند فرمایا کیونکہ یہ طریقہ نہایت اجڈ اور پریشان کن تھا۔

آیت 3 { اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی } ”بیشک وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے ‘ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے جانچ پرکھ کر ُ چن لیا ہے تقویٰ کے لیے۔“ پچھلی آیت میں جو حکم منفی انداز میں دیا گیا ہے اسی حکم کو اب شاباش کے لیے مثبت انداز میں دہرایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول ﷺ کے ادب کے حوالے سے آپ ﷺ کے صحابہ کرام رض کا طرز عمل اس قدر پسند آیا ہے کہ اس بنیاد پر اس نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے نور سے خصوصی طور پر منور کرنے کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ { لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ } ”ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی۔“

آیت 3 - سورۃ الحجرات: (إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله أولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى ۚ لهم مغفرة وأجر عظيم...) - اردو