سورہ الحجر: آیت 78 - وإن كان أصحاب الأيكة لظالمين... - اردو

آیت 78 کی تفسیر, سورہ الحجر

وَإِن كَانَ أَصْحَٰبُ ٱلْأَيْكَةِ لَظَٰلِمِينَ

اردو ترجمہ

اور ایکہ والے ظالم تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kana ashabu alaykati lathalimeena

آیت 78 کی تفسیر

آیت نمبر 78 تا 84

قرآن کریم نے دوسری جگہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور قوم شعیب اہل مدین اور اصحاب ایکہ کا قصہ مفصل بیان کیا ہے۔ یہاں ان کے واقعہ ظلم اور ان کی ہلاکت کی طرف صرف اشارہ مطلوب ہے۔ ثابت یہی کرنا ہے کہ جب عذاب الٰہی کا اعلان ہوجائے تو وہ آکر رہتا ہے ، جیسا کہ اس سورة کے آغاز میں اس اصول کا ذکر ہوا کہ جب کسی قوم کی مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر اس پر عذاب آنا سنت الہٰیہ کے مطابق لازم ہوجاتا ہے۔ مدین اور ایکہ دونوں بستیاں علاقہ لوط کے قریب تھیں اور یہ بات اس اشارہ سے معلوم ہوتی ہے۔

وانھما لبامام مبین (15 : 79) “ ان دونوں قوموں کے علاقے کھلے راستے پر موجود ہیں ”۔ ان دونوں قوموں سے مراد مدین اور ایکہ والے ہیں کیونکہ ان دونوں بستیوں کے کھنڈرات شارع عام پر موجود ہیں اور ابھی تک ان کے آثار قائم ہیں۔ ان دونوں سے مراد قریہ لوط اور قریہ شعیب بھی مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ بھی شارع عام پر موجود ہیں۔ ہلاکت سے دوچار ہونے والی اقوام کا شارع عام پر ہونا زیادہ عبرت آموز ہوتا ہے کیونکہ انسان صبح و شام وہاں سے گزرتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ یہ بستیاں بھی اسی طرح زندہ تھیں جس طرح آج ان کا ماحول زندہ ہے۔ ان کھنڈرات کے اردگرد زندگی سے بھر پور آبادیاں ہیں اور وہ سوئی پڑی ہیں

اصحاب الحجر کون تھے ؟ یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم تھے۔ حجر بھی شام اور حجاز کے درمیان وادی القریٰ میں واقع ہے۔ یہ وادی اور اس کے کھنڈرات آج تک موجود ہیں کیونکہ یہ بستیاں انہوں نے بڑی بڑی چٹانیں کاٹ کر بنائی تھیں جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر ترقی یافتہ تھے اور ان کے ہاں ٹیکنالوجی کس قدر ترقی کرچکی تھی۔

ولقد کذب اصحب الحجر المرسلین (15 : 80) “ حجر کے لوگ بھی اس سے قبل رسولوں کی تکذیب کرچکے ہیں ”۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے صرف حضرت صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ لیکن صالح جماعت رسل کے نمائندہ تھے۔ لہٰذا ایک کی تکذیب سب کی تکذیب قرار پائی۔ جب انہوں نے ان کی تکذیب کی تو کہا گیا کہ انہوں نے تمام مرسلین کی تکذیب کی۔ کیونکہ رسول اور رسالت ایک ہی ادارہ ہیں۔ وہ ہر دور میں اور ہر زمانہ میں ایک ہی نظریہ پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود وہ ایک ہی تھے۔

واتینھم ایتنا فکانوا عنھا معرضین (15 : 81) ہم نے اپنی آیات ان کے پاس بھیجیں ، مگر وہ اعراض ہی کرتے رہے ”۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی نشانی اور ان کا معجزہ تو ناقہ تھی لیکن نشانی کے بجائے نشانیاں اس لیے کہا گیا کہ ناقہ کے علاوہ اور نشانیاں بھی تو اس کائنات میں بکھری پڑی ہیں۔ خود انسان کی ذات میں بھی کئی نشانیاں ہیں۔ یہ سب نشانیاں ہمارے غورو فکر کو دعوت دے رہی ہیں ، اگر انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے ایک معجزے سے انکار کیا تو دراصل انہوں نے اس کائنات میں بکھرے ہوئے تمام معجزات کا انکار کردیا۔ انہوں نے اپنے اردگرد پھیلی ہوئی نشانیوں کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ انہوں نے اپنے ضمیر و شعور کے دروازے بند رکھے۔

وکانوا۔۔۔۔۔ امنین (82) فاخذتھم ۔۔۔۔ مصبحین (83) فما اغنی ۔۔۔۔۔ یکسبون (84) (15 : 82 تا 84) “ وہ پہاڑ تراش تراش کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بےخوف اور مطمئن تھے۔ آخر کار ایک زبردست دھماکے نے ان کو صبح ہوتے ہی آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی ”۔ یہ لمحہ ان کے لئے اچانک آیا ، یہ لوگ پہاڑ کے تراشے ہوئے مکانات کے اندر محفوظ بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے جو کچھ کمایا تھا ، جو مضبوط عمارات تعمیر کی تھی اور پہاڑوں کو کاٹ کر جس قدر مضبوط رہائش گاہیں بنائی تھیں ان میں سے کچھ ان کے کام نہ آیا۔ ایک زبردست دھماکہ ہوا اور ان بستیوں میں پھر کچھ بھی نہ تھا۔ یہ لمحہ انسانی شعور پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹ کر جو لوگ اپنے لئے پناہ گاہیں بناتے ہیں ان سے زیادہ محفوظ پناہ گاہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان رات گزار کر جب صبح میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت وہ بڑے اطمینان سے رات کو بلا خوف و خطر الوداع کہتا ہے ، لیکن صبح کے ان اطمینان بخش لمحات میں ان کو ایک زبردست دھماکہ پیش آتا ہے اور وہ اپنی قیمتی جانوں کے ساتھ سب کچھ کھو دیتے ہیں ، ان کی تمام احتیاطی تدابیر ختم ہوجاتی ہیں ، ان کے محفوظ قلعے ریت کا ڈھیر ثابت ہوتے ہیں۔ اس کڑک دار دھماکے کے پیچھے کچھ چیز بچ کر نہیں نکلتی۔ یہ تیز ہوا تھی ، یا تیز دار تھی اور اس کے اثر سے یہ لوگ اپنے محفوظ ترین گھروں میں لاشوں کے ڈھیر بن گئے۔

یوں اس سورة میں تاریخی قصص و واقعات پر ایک سر سری نظر ڈالی جاتی ہے اور ان تمام قصص میں صرف یہ سبق دیا جاتا ہے کہ جب اللہ کی طرف سے مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے ، اقوام کی بربادی کا وقت آ پہنچتا ہے پھر سنت الہٰیہ کے مطابق عذاب الٰہی آتا ہے اور فرشتے حق کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور پھر سنت الٰہیہ ایک لمحے کی مہلت نہیں دیتی ۔ یہ سبق ان تمام قصص کا قدر مشترک ہے اور اس کی وجہ سے یہ سب واقعات آپس میں مربوط ہیں۔

آیت 78 وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ لَظٰلِمِيْنَ ”اصحاب الایکہ“ سے اہل مدین مراد ہیں۔ یہ حضرت شعیب کی قوم تھی مگر یہاں اس قوم کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا نام نہیں لایا گیا۔ ان سب اقوام کا تذکرہ یہاں پر انباء الرسل کے انداز میں ہورہا ہے۔

اصحاب ایکہ کا المناک انجام اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے۔ ایکہ کہتے ہیں درختوں کے جھنڈ کو۔ ان کا ظلم علاوہ شرک و کفر کے غارت گری اور ناپ تول کی کمی بھی تھی۔ ان کی بستی لوطیوں کے قریب تھی اور ان کا زمانہ بھی ان سے بہت قریب تھا۔ ان پر بھی ان کی پہیم شرارتوں کی وجہ سے عذاب الہی آیا۔ یہ دونوں بستیاں بر سر شارع عام تھیں۔ حضرت شعیب ؑ نے اپنی قوم کو ڈراتے ہوئے فرمایا تھا کہ لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں۔

آیت 78 - سورہ الحجر: (وإن كان أصحاب الأيكة لظالمين...) - اردو