آیت نمبر 75 تا 77
یہ تھی تصدیق ایک سچے ڈرانے والے کی ، فرشتوں کا نزول دراصل اعلان نزول عذاب الٰہی تھا اور جب یہ عذاب آتا ہے تو پھر وہ ٹلتا نہیں اور نہ اس میں تاخیر ممکن ہوتی ہے اور نہ پھر مہلت عمل ملتی ہے۔
٭٭٭
یہی صورت حال اصحاب ایکہ کو پیش آئی جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم دعوت تھے۔ (ایکہ کا مفہوم گھنے جنگلات والے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) اصحاب ایکہ اور قوم مدین کی طرف بھیجے گئے تھے ) یہی حالات قوم صالح کے ساتھ پیش آئے جنہیں حجر والے بھی کہا جاتا ہے۔
آیت 75 اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ”متوسمین“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقیہ ‘ آیات تاریخیہ ‘ آیات انفسیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعے سے حقیقت کو جاننا اور پہچاننا چاہیں۔ اسم اصل مادہ ”س م و“ ہے۔ الف اس کے حروف اصلیہ میں سے نہیں ہے کے معنی علامت کے ہیں۔ اردو میں لفظ ”اسم“ کو نام کے مترادف کے طور پر جانا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ کسی چیز یا شخص کا نام بھی ایک علامت کا کام دیتا ہے جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا جو اصحاب بصیرت علامتوں سے متوسم باب تفعل ہوتے ہیں ‘ ان کے لیے ایسے واقعات میں سامان عبرت موجود ہے۔