آیت نمبر 51 تا 56
جب فرشتے آئے تو انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو ، اس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ہمیں تم سے ڈر لگتا ہے۔ یہاں آپ نے خوف کی کوئی وجہ نہیں بتائی اور یہ تذکرہ بھی نہیں ہے کہ آپ بھنا ہوا بچھڑا لائے اور انہوں نے ہاتھ نہ بڑھایا جیسا کہ سورة ہود میں بیان یوں ہے :
فلما رای ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم واوجس منھم خیفۃ ” مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے ، پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا “۔ یہاں یہ تفصیلات اس لیے نہیں دی گئیں کہ وہاں مقصود قصہ یہ ہے کہ اللہ جب اپنے رسول کے ذریعے کسی قوم سے رحمتوں کا وعدہ کرتا ہے تو وہ رحمت آکر رہتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کے واقعات بیان کرنا مطلوب نہیں ہے ، اس لیے یہاں جلدی سے خوشخبری کا تذکرہ کردیا جاتا ہے۔
قالوا لا تو جل انا نبشرک بغلم علیم (15 : 53) ” انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تمہیں ایک سیانے لڑکے کی بشارت دینے آئے ہیں “۔ یوں یہ خوشخبری تیزی سے دی گئی ، جیسا کہ ہمیشہ خوشخبری دینے والا تیزی کرتا ہے۔ قرآن کریم نے بھی سیاق کلام میں تفصیلات کو چھوڑ کر خوشخبری سنا دی۔
چناچہ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے بارے میں جواب و استفسار واستعجاب کا ذکر ہوتا ہے اور حضرت کی بیوی کا کلام ترک کردیا جاتا ہے۔
قال ابشر تمونی علی ان مسنی الکبر فبم تبشرون (15 : 54) ” فرمایا کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی خوشخبری دیتے ہو ؟ ذرا سوچو تو سہی کہ یہ کیسی بشارت تم مجھے دے رہو ہو ؟ ابتداء میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بات کو مستبعد سمجھا کہ اس عمر میں ان کو اولاد نصیب ہو سکتی ہے۔ خصوصاً جبکہ دوسری جگہ تصریح آئی ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میری بیوی بوڑھی اور بانجھ ہے۔ فرشتوں نے جواب دیا :
قالوا بشرنک بالحق فلا تکن من القنطین (15 : 55) ” انہوں نے کہا ہم نے تمہیں برحق بشارت دی ہے ، تم مایوس نہ ہو “۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فوراً اپنے موقف پر نظر ثانی فرمائی اور مایوسی کا انکار کردیا۔
قال ومن یقنط من رحمۃ ابہ الا الضالون (15 : 56) ” اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا “ ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات میں قرآن کریم نے لفظ رحمت کو نقل کیا ہے ، یہ سیاق کلام میں موضع و محل کے ساتھ گہری ہم آہنگی رکھتا ہے۔ ان کی بات ایک قاعدہ قرار پاتی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صراط مستقیم گم کردیا ہوتا ہے ۔ وہ اللہ کے راستے سے ہٹ چکے ہوتے ہیں ، ان پر رحمت خداوندی کی خوشگوار ہوا نہیں چلتی ، ان کو یہ احساس نہیں رہتا ہے کہ قدم قدم پر اللہ کی رحمتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں ، وہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہر ہر لمحہ وہ اللہ کے رحم و کرم پر ہیں اور وہ ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل جو قلب رحمت خداوندی سے تروتازہ ہوتا ہے ، جو رحمان سے جڑا ہوا ہوتا ہے وہ کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ اگرچہ وہ مصائب و شدائد میں گھرا ہوا ہو ، اگرچہ اس کے ارد گرد مصائب کی تاریکیاں ہوں ، اگرچہ مایوسیوں کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہوں اور اگرچہ منزل کا پتہ دور دور تک نہ ہو ، اس لیے کہ رحمت خداوندی ہر وقت قلوب مومنین سے قریب ہوتی ہے۔
اس مقام پر آکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس مخلوق یعنی فرشتوں کی طرف سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور انہوں نے جو خوشخبری دی اس پر ان کو ولی اطمینان اور مسرت حاصل ہوگئی ہے۔ اب وہ ان فرشتوں کی آمد کی اصل غرض وغایت پوچھتے ہیں۔
آیت 51 وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ یہ واقعہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہم سورة ہود کے ساتویں رکوع میں بھی پڑھ چکے ہیں۔
فرشتے بصورت انسان لفظ ضعیف واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ جیسے زور اور سفر۔ یہ فرشتے تھے جو بصورت انسان سلام کر کے حضرت خلیل اللہ ؑ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے بچھڑا کاٹ کر اس کا گوشت بھون کر ان مہمانوں کے سامنے لا رکھا۔ جب دیکھا کہ وہ ہاتھ نہیں ڈالتے تو ڈر گئے اور کہا کہ ہمیں تو آپ سے ڈر لگنے لگا۔ فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں، پھر حضرت اسحاق ؑ کے پیدا ہونے کی بشارت سنائی۔ جیسے کہ سورة ھود میں ہے۔ تو آپ نے اپنے اور اپنی بیوی صاحبہ کے بڑھاپے کو سامنے رکھ کر اپنا تعجب دور کرنے اور وعدے کو ثابت کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا اس حالت میں ہمارے ہاں بچہ ہوگا ؟ فرشتوں نے دوبارہ زور دار الفاظ میں وعدے کو دہرایا اور ناامیدی سے دور رہنے کی تعلیم کی۔ تو آپ نے اپنے عقیدے کا اظہار کردیا کہ میں مایوس نہیں ہوں۔ ایمان رکھتا ہوں کہ میرا رب اس سے بھی بڑی باتوں پر قدرت کاملہ رکھتا ہے۔