ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْازمین میں جو مہلت انہیں ملی ہوئی ہے اس میں خوب مزے کرلیں۔وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ اَلْھٰی ‘ یُلْھِی ‘ اِلْھَاءً کے معنی ہیں غافل کردینا۔ سورة التکاثر میں فرمایا گیا : اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۔ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ”غافل کیے رکھا تمہیں کثرت کی خواہش کے مقابلے نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں“۔ انسان کے لمبے لمبے منصوبے بنانے کو ”طولِ اَمل“ کہتے ہیں۔ جب انسان اس گورکھ دھندے میں پڑجائے ‘ تو خواہشوں اور آرزوؤں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا ‘ مگر زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ حدیث نبوی ہے : مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی یعنی اگر کوئی شے کم ہے لیکن آپ کو کفایت کر جائے ‘ آپ کی ضرورت اس سے پوری ہوجائے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی ضرورت سے زیادہ ہو اور آپ کو اپنے خالق اور مالک کی یاد سے غافل کر دے۔ اگر مال و دولت کی ریل پیل ہے ‘ رزق اور سامان آسائش کی فراوانی ہے ‘ کبھی کوئی حاجت پریشان نہیں کرتی ‘ کوئی محرومی ‘ کوئی نارسائی اللہ کی یاد تازہ کرنے کا سبب نہیں بنتی ‘ تو ایسی حالت میں رفتہ رفتہ انسان کے بالکل غافل ہوجانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ اتنا ملے جس سے ضرورت پوری ہوجائے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس قدر فراوانی نہ ہو کہ غفلت غلبہ پالے۔