سورہ الحجر: آیت 15 - لقالوا إنما سكرت أبصارنا بل... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورہ الحجر

لَقَالُوٓا۟ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَٰرُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ

اردو ترجمہ

تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqaloo innama sukkirat absaruna bal nahnu qawmun mashooroona

آیت 15 کی تفسیر

ستارے اور شیطان اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لئے بہت سے پاسکتا ہے۔ بروج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61؀) 25۔ الفرقان :61) بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں، عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں۔ اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند وبالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جو آگے پڑھتا ہے، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے۔ کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہوجاتا ہے، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتا مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہوجاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لئے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے۔ راوی حدیث حضرت صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آجائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہوجائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پیلا دیتا ہے۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقا پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ اسی نے اسے پیدا کیا، پھیلایا، اس میں پہاڑ بنائے، جنگل اور میدان قائم کئے، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم، ہر ایک زمین، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لئے خوشگوار ہیں۔ زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کردیں اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ۔ پس قسم قسم کی چیزیں، قسم قسم کے اسباب، قسم قسم کی راحت، ہر طرح کے آرام، اس نے تمہارے لئے مہیا کر دئیے۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کردیا تاکہ کھاؤ بھی، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے فسبحانہ اعظم شانہ۔

آیت 15 - سورہ الحجر: (لقالوا إنما سكرت أبصارنا بل نحن قوم مسحورون...) - اردو