سورۃ الحشر: آیت 24 - هو الله الخالق البارئ المصور... - اردو

آیت 24 کی تفسیر, سورۃ الحشر

هُوَ ٱللَّهُ ٱلْخَٰلِقُ ٱلْبَارِئُ ٱلْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa Allahu alkhaliqu albario almusawwiru lahu alasmao alhusna yusabbihu lahu ma fee alssamawati waalardi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

آیت 24 کی تفسیر

اور آخری تسبیح ہی طویل ہے :

ھواللہ (95 : 43) ” وہی ہے معبود “ اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔

الخالق الباری (95 : 42) ” تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اسے نافذ کرنے والا “۔ خلق کا مفہوم ہے : منصوبہ بنانا اور پورا نظام تقدیر تیار کرنا۔ اور باری کے معنی پھر اس منصوبے کو مسلسل نافذ کرتے چلے جانا۔ یہ دونوں صفات باہم متصل ہیں۔ ان میں فرق بھی لطیف ہے۔

المصور (95 : 42) ” صورت گری کرنے والا “۔ یہ صفت بھی سابقہ دونوں صفات سے مربوط ہے۔ یعنی منصوبہ ، پھر تخلیق اور پھر تصور اور خدوخال کا تعین۔ ہر چیز کی صورت اور سیرت کا تعین۔ ہر چیز کو اس کے خواص عطا کرنا۔

یہاں ان صفات کا مسلسل لانا ، جن کے اندر بہت کم فرق ہے اور جو تخلیق ہی کے مختلف مراحل ہیں ، یہ اشارہ دیتا ہے کہ کسی بھی تخلیق کے کام میں یہی تدریج کار فرما ہوتی ہے۔ یہ اشارہ انسانوں کو دیا جارہا ہے۔ انسانی تصورات کے مطابق پہلے نقشہ تخلیق ، پھر تخلیق اور پھر تصور ہوتی ہے ورنہ اللہ کے ہاں تو نہ درجات ہیں اور نہ مراحل ہیں۔ وہاں تو کن فیکون ہے۔ ہم انسان ان امور کو اپنے دائرہ ضرورت میں لاکر سمجھتے ہیں اور ہماری قدرت اور طاقت بہت چھوٹی ہے۔

لہ الاسماء الحسنی (95 : 42) ” اس کے بہترین نام ہیں “۔ یہ نام بذات خود اچھے ہیں۔ ان کو اچھا کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی اچھا کہے تو اچھے ہوں۔ یہ اسمائے حسنی انسانوں کے دلوں پر حسن کے فیوض کرتے ہیں۔ ان پر غوروتدبر کرکے اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا اور ان سے ہدایت لے کر انسان کمال حاصل کرسکتا ہے کیونکہ اللہ ان صفات کے ساتھ متصف ہونا پسند کرتا ہے تو یہ پسندیدہ صفات ہیں ، اوصاف حمیدہ ہیں۔ لہٰذا انسان کو ان درجات میں بلند ہوتے رہنا چاہئے۔

اسمائے حسنی کے ساتھ اللہ کی تسبیح ، پاکی اور یاد کا یہ طویل سلسلہ اب اس پوری کائنات کی وسعتوں میں پھیل جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز یہ فیوض لے رہی ہے لہٰذا تم بھی ان تسبیحات سے اشارات لو اور فیوض حاصل کرو۔

یسبح لہ ........................................ العزیز الحکیم (95 : 42) ” ہر چیز جو آسمان اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کررہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ یہ ہے وہ منظر جو ان صفات کے ذکر کے بعد ایک متوقع منظر ہے۔ تمام اشیاء اس میں شریک ہیں۔ سورت کا آغاز واختتام بھی باہم مل جاتا ہے اور آغاز میں بھی اللہ کی پاکی اور انجام میں اس کی تسبیح سبحان اللہ وبحمدہ۔

آیت 24{ ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ } ”وہی ہے اللہ ‘ تخلیق کا منصوبہ بنانے والا ‘ وجود بخشنے والا ‘ صورت گری کرنے والا۔“ اس آیت میں اللہ کے علاوہ تین اسمائے حسنیٰ آئے ہیں۔ ان تینوں اسماء کا تعلق تخلیقی عمل کے مختلف مراحل سے ہے اور اس لحاظ سے یہاں ان کا ذکر ایک فطری اور منطقی ترتیب سے ہوا ہے۔ ”خلق“ دراصل عمل تخلیق کا وہ مرحلہ ہے جب کسی چیز کا منصوبہ یا نقشہ تیار ہوتا ہے۔ بغرضِ تفہیم اگر ہم انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے ایک بڑھئی کی مثال سامنے رکھیں تو عمل تخلیق کے مختلف مراحل اور ان تینوں اسماء کے مابین پائے جانے والے خاص ربط کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ فرض کریں کہ بڑھئی ایک میز بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے وہ مطلوبہ سائز اور مطلوبہ شکل کی میز کا ایک نقشہ اپنے ذہن میں تیار کرتا ہے۔ یہ اس میز کی ذہنی تخلیق ہے۔ اس کے بعد بڑھئی مجوزہ نقشے کے مطابق لکڑی کا میز بنا کر اپنی ”ذہنی تخلیق“ کو عالم واقعہ میں ظاہر کردیتا ہے۔ پھر تیسرے اور آخری مرحلے میں وہ اسے finishing touches دیتے ہوئے رنگ و روغن کر کے میز کو حتمی طور پر تیار کردیتا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں اسمائے حسنیٰ کا تعلق تخلیق کے ان ہی تین مراحل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کا ایک نقشہ یا نمونہ تیار فرماتا ہے۔ اس مفہوم میں وہ الخالق ہے ‘ پھر وہ اس تخلیق کو عدم سے عالم وجود میں ظاہر کرتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ البارِیہے۔ بَرَأَ کے معنی ظاہر کرنے کے ہیں۔ سورة الحدید کی آیت 22 میں ہم پڑھ چکے ہیں : { مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّـبْرَأَھَا } ”اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کو باقاعدہ ایک صورت یا شکل عطا کرتا ہے۔ اس معنی میں وہ ”الْـمُصَوِّر“ ہے۔ { لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی } ”تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔“ { یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج } ”اسی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔“ { وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ } ”اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔“ اس سورت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے آغاز میں بھی اللہ کی تسبیح کا بیان ہے اور اس کا اختتام بھی اللہ کی تسبیح پر ہوتا ہے۔ آغاز میں تسبیح کے حوالے سے ماضی کا صیغہ سَبَّحَ آیا ہے جبکہ اختتام پر مضارع کا صیغہ یُسَبِّحُ ہے۔ اسی طرح اس کی ابتدائی آیت کے اختتام پر جو دو اسمائے حسنیٰ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم آئے ہیں ‘ آخری آیت کا اختتام بھی ان ہی اسمائے حسنیٰ پر ہوتا ہے۔

آیت 24 - سورۃ الحشر: (هو الله الخالق البارئ المصور ۖ له الأسماء الحسنى ۚ يسبح له ما في السماوات والأرض ۖ وهو العزيز الحكيم...) - اردو