سورۃ الحشر: آیت 2 - هو الذي أخرج الذين كفروا... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الحشر

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ مِن دِيَٰرِهِمْ لِأَوَّلِ ٱلْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا۟ ۖ وَظَنُّوٓا۟ أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ ٱللَّهِ فَأَتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا۟ ۖ وَقَذَفَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِى ٱلْمُؤْمِنِينَ فَٱعْتَبِرُوا۟ يَٰٓأُو۟لِى ٱلْأَبْصَٰرِ

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اُن کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی مگر اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا اُس نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee akhraja allatheena kafaroo min ahli alkitabi min diyarihim liawwali alhashri ma thanantum an yakhrujoo wathannoo annahum maniAAatuhum husoonuhum mina Allahi faatahumu Allahu min haythu lam yahtasiboo waqathafa fee quloobihimu alrruAAba yukhriboona buyootahum biaydeehim waaydee almumineena faiAAtabiroo ya olee alabsari

آیت 2 کی تفسیر

ھوالذی ........................ شدید العقاب (4) (95 : 2 تا 4) ” وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے ، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی۔ مگر ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کررہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے۔ پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینار رکھنے والو !

اگر اللہ نے ان کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا ، اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا ، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کی سزا دینے میں بہت سخت ہے “۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ ہی تھا جس نے پہلے حشر یا ہلے میں اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے نکال دیا۔ در حقیقت ہر چیز کا فاعل اللہ ہی ہوتا ہے لیکن اس آیت میں براہ راست نسبت بھی اللہ ہی کی طرف کی گئی ہے۔ اور پردہ احساس پر یہ بات آئی ہے کہ اس مہم کی قیادت ہی اللہ کررہا تھا۔ اور گویا اس مہم میں دست قدرت کسی پردے میں نہ تھا۔ اور ان نکالے ہوئے لوگوں کو ایسی سر زمین کے لئے نکالا کہ جہاں سے ان کو اٹھایا جائے گا۔ لہٰذا یہ لوگ مدینہ کی طرف اب کبھی واپس نہ ہوں گے اور ان کا حشر ہی اب جلاوطنی کی سر زمین سے ہوگا۔

اللہ کا براہ راست ان کو نکالنا اور ان کو دوسری سر زمین کی طرف پھیلانا درج ذیل آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے۔

ماظننتم .................... من اللہ (95 : 2) ” مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ “ اللہ ان پر ان کے دلوں کے اندر سے حملہ آور ہوا۔ ان کے قلعے جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ ان کے دلوں میں اللہ نے خوف ڈال دیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے قعلوں کے دروازے کھول دیئے۔ اللہ کی قدرت نے دکھایا کہ وہ اپنے آپ پر بھی کنٹرول نہیں رکھتے۔ ان کے دل بھی ان کے کنٹرول میں نہیں اور وہ اپنے ارادوں اور اپنے منصوبوں کے بھی مالک نہیں رہے۔ ارادوں اور منصوبوں پر بھی قائم نہ رہ سکے۔ چہ جائیکہ وہ قلعوں میں بندر ہیں۔ انہوں نے باقی تو ہر قسم کے دفاعی انتظامات کر رکھے تھے ، البتہ ایک انتظام رہ گیا تھا کہ ان کے دل بھی مضبوط ہوں۔ اس طرف سے وہ غافل تھے۔ اللہ نے ان کی ہمتوں کو پاش پاش کردیا۔ یہی ہوتا ہے کہ جب اللہ کسی کام کو کرتا ہے۔ اللہ کو معلوم تھا کہ کہاں سے حملہ کیا جائے۔ وہ ہر چیز کا عالم ہے اور وہ ہر چیز پر خبردار ہے۔ لہٰذا نہ کسی سبب کی ضرورت پیش آئی اور نہ کسی ظاہری وسیلے کی ضرورت پیش آئی جو عوام الناس کے ذہنوں میں ہوتے ہیں۔ اسباب ووسائل بھی تو اللہ کے مہیا کردہ ہوتے ہیں۔ جب اللہ کوئی چیز چاہتا ہے تو اس کے اسبب چشم زون میں سامنے آجاتے ہیں۔ جس طرح نتائج اور انجام اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی طرح اسباب ووسائل بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ کے لئے نہ اسباب ووسائل مشکل ہیں اور نہ نتائج اور انجام۔ وہ تو عزیز و حکیم ہے۔

اہل کتاب کے کافر اپنے قلعوں میں خود قلعہ بند ہوئے لیکن اللہ نے ایسے زاویہ سے حملہ کیا جس کی وہ توقع ہی نہ کرتے تھے اور اس نوبت کی۔ انہوں نے قلعہ بندی کی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے گھروں اور قلعوں کے دفاع کا انتظام کیا تھا مگر ہوا یوں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے گھروں اور قلعوں کو خراب کرتے رہے ، اور مومنین کو بھی وہ موقعہ دیتے تھے کہ ان کو خراب کریں۔

یخربون ................ المومنین (95 : 2) ” وہ اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو خراب کررہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کررہے تھے “۔ اس آیت پر ان اہل کتاب کافروں کی کہانی ختم ہوگئی۔ کس قدر عبرت آموز انداز میں اور کس قدر تصویر کشی کے انداز میں اور نظر بھی ایسا کہ حرکت سے بھرپور۔ اللہ ان پر ان کے قلعوں کے پیچھے سے حملہ آور ہوتا ہے اور وہ خود اپنے قلعوں کو گرانا شروع کردیتے ہیں اور مومنین بھی خراب کرتے ہیں اور وہ بھی خراب کرتے ہیں۔

اب اس منظرنامے پر پہلا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں :

فاعتبر وا ................ الابصار (95 : 2) ” پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو “۔ یہ تبصرہ نہایت ہی بر محل ہے ، اس کے لئے دل بالکل تیار ہیں اور ہر پڑھنے والا بھی حیران ہے کہ اس قدر منصوبے اور یہ دفاع !

اگلی آیت میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اللہ نے یہ فیصلہ کرالیا تھا کہ آخرت سے پہلے ، اس دنیا ہی میں ، ان کو ذلیل و خوار کیا جائے گا۔ ان کے بچنے کی کوئی صورت تھی ہی نہیں۔

آیت 2{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ } ”وہی ہے جس نے نکال باہر کیا ان کافروں کو جو اہل کتاب میں سے تھے ان کے گھروں سے ‘ پہلے جمع ہونے کے وقت۔“ یہ یہودی قبیلہ بنو نضیر کی مدینہ منورہ سے جلاوطنی کے واقعہ کا ذکر ہے۔ اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ حضور ﷺ کی ہجرت کے وقت مدینہ یثرب میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع ‘ بنونضیر ُ اور بنوقریظہ آباد تھے۔ حضور ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے فوراً بعد ان قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو تاریخ میں ”میثاقِ مدینہ“ کے نام سے مشہور ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بنیادی طور پر یہ مدینہ کے ”مشترکہ دفاع“ کا معاہدہ تھا۔ ان میں سے قبیلہ بنوقینقاع نے تو معاہدے کے کچھ ہی دیر بعد مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ چناچہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی بنا پر حضور ﷺ نے غزوئہ بدر کے بعد اس قبیلہ کو مدینہ بدر کردیا۔ غزوئہ احد 3 ہجری کے بعد قبیلہ بنو نضیر نے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ غزوئہ اُحد میں مسلمانوں کی وقتی شکست سے ان کی کمزوری کا تاثر لے کر جہاں عرب کے بہت سے دوسرے قبائل نے سر اٹھانا شروع کیا ‘ وہاں یہ قبیلہ بھی اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی میں شامل ہوگیا۔ ان کے سردار کعب بن اشرف نے قریش مکہ سے گٹھ جوڑ کر کے انہیں مدینہ پر حملہ کرنے کی باقاعدہ دعوت دی اور انہیں یقین دلایا کہ تم لوگ باہر سے حملہ کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ اسی دوران کعب بن اشرف نے حضور ﷺ کو نعوذباللہ شہید کرنے کی ایک سازش بھی تیار کی۔ اس کے لیے ان لوگوں نے حضور ﷺ کو کسی اہم بات چیت کے بہانے اپنے ہاں بلایا۔ منصوبہ یہ تھا کہ کسی دیوار کے بالکل ساتھ آپ ﷺ کی نشست کا انتظام کیا جائے اور جب آپ ﷺ وہاں بیٹھے ہوں تو دیوار کے اوپر سے چکی کا بھاری پاٹ آپ ﷺ پر گرا دیا جائے۔ آپ ﷺ ان کے بلانے پر ان کے محلے میں تشریف لے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے جب وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو ان کی اس گھنائونی سازش سے آگاہ کیا تو آپ ﷺ واپس تشریف لے آئے۔ بنونضیر کی ان ریشہ دوانیوں اور مسلسل بدعہدی کی وجہ سے بالآخر ربیع الاول 4 ہجری میں حضور ﷺ نے ان کے خلاف لشکر کشی کا حکم دے دیا۔ البتہ جب مسلمانوں نے ان کی گڑھیوں کا محاصرہ کیا تو انہوں نے چند دن محصور رہنے کے بعد لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کی جان بخشی کرتے ہوئے انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا ‘ بلکہ آپ ﷺ نے مزید نرمی فرماتے ہوئے انہیں یہ اجازت بھی دے دی کہ جاتے ہوئے وہ جس قدر سامان اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے ہیں ‘ لے جائیں۔ غزوئہ احزاب 5 ہجری کے بعد بنوقریظہ کو بھی ان کی عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس طرح یہود مدینہ کے تینوں قبائل میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کے باعث ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ آیت میں لِاَوَّلِ الْحَشْرِ کا ایک مفہوم تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ ہی جب ان پر لشکرکشی کی تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے علاوہ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ مدینہ سے جلاوطنی تو ان لوگوں کا پہلا حشر ہے ‘ پھر ایک وقت آئے گا جب انہیں خیبر سے بھی نکال دیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں جزیرہ نمائے عرب کو بھی خیرباد کہنا پڑے گا چنانچہ حضرت عمر رض کے دور میں تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا گیا اور پھر ایک حشر وہ ہوگا جو قیامت کے دن برپا ہوگا۔ { مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا } ”اے مسلمانو ! تمہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے نکل جائیں گے“ { وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ } ”اور وہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کی پکڑ سے بچا لیں گے“ { فَاَتٰـٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْاق } ”تو اللہ نے ان پر حملہ کیا وہاں سے جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا۔“ { وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ } ”اور ان کے دلوں میں اس نے رعب ڈال دیا“ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو جس طریقے سے چاہے ہزیمت سے دوچار کر دے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قدر مرعوب کردیا کہ وہ اپنے مضبوط قلعوں کے اندر بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اور اپنے تمام تر وسائل کے باوجود بھی مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ { یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَق } ”وہ برباد کر رہے تھے اپنے گھروں کو ‘ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور اہل ایمان کے ہاتھوں سے بھی۔“ چونکہ انہیں یہ اجازت مل چکی تھی کہ اپنے سامان میں سے جو کچھ وہ اپنے ساتھ اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں اس لیے وہ اپنے گھروں کی دیواروں اور چھتوں میں سے دروازے ‘ کھڑکیاں ‘ کڑیاں ‘ شہتیر وغیرہ نکالنے کے لیے خود ہی انہیں مسمار کر رہے تھے۔ ان کی اس تخریب میں مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا ہوگا۔ { فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔ } ”پس عبرت حاصل کرو اے آنکھیں رکھنے والو !“ یہ گویا پیچھے رہ جانے والے قبیلے بنی قریظہ کو سنایا جا رہا ہے کہ تم اپنے بھائی بندوں کے اس انجام سے عبرت حاصل کرو اور سازشوں سے باز آجائو !

آیت 2 - سورۃ الحشر: (هو الذي أخرج الذين كفروا من أهل الكتاب من ديارهم لأول الحشر ۚ ما ظننتم أن يخرجوا ۖ وظنوا أنهم...) - اردو