سورہ الحج: آیت 5 - يا أيها الناس إن كنتم... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ الحج

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓا۟ أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا ۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيجٍ

اردو ترجمہ

لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu in kuntum fee raybin mina albaAAthi fainna khalaqnakum min turabin thumma min nutfatin thumma min AAalaqatin thumma min mudghatin mukhallaqatin waghayri mukhallaqatin linubayyina lakum wanuqirru fee alarhami ma nashao ila ajalin musamman thumma nukhrijukum tiflan thumma litablughoo ashuddakum waminkum man yutawaffa waminkum man yuraddu ila arthali alAAumuri likayla yaAAlama min baAAdi AAilmin shayan watara alarda hamidatan faitha anzalna AAalayha almaa ihtazzat warabat waanbatat min kulli zawjin baheejin

آیت 5 کی تفسیر

یایھا الناس ……زوج بھیج (5)

بعث بعد موت کی حقیقت کیا ہے۔ جسم کے اجزاء میں دوبارہ زندگی ڈالنا اور بس۔ تو انسانی سوچ کے مطابق بھی یہ چیز ابتدائی تخلیق سے آسان ہے ، لیکن اگر انسان اسے مشکل سمجھے تو اللہ کی نسبت سے تو یہ بہت ہی آسان ہے۔ کوئی مشکل چیز نہیں ہے۔ دوبارہپیدا کرنے میں بھی اللہ کو ایسا ہی ارادہ کرنا ہوگا کہ (کن) یعنی ہوجا کے تو وہ چیز ہوجائے گی۔

انما امرہ اذا ارادشیئا ان یقول لہ کن فیکون ” اس کا کام یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے “ ۔ قرآن کریم کا اندازہ کلام یہ ہے کہ وہ انسانوں کی سوچ اور قیاس کے مطابق ہی بات کرتا ہے۔ لوگوں کے طرز استدلال اور ان کی قوت ادراک کے مطابق بات کرتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید ان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے سامنے پھیلی ہوئی اور نظر آنے والی کائنات پر غور کریں۔ یہ ہر وقت ان مشہور اور نظر آنے والے واقعات کو دیکھتے رہیں جو ہر وقت ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں۔ اگر ان نظروں کے سامنے سے روز و شب گزرنے والے واقعات پر گہرا غور و فکر کیا جائے تو وہ سب واقعات انسان کو ایع معجزہ نظرآنے لگیں۔ بشرطیکہ وہ کھلے دل اور چشم بینا کے ساتھ ان کا گہرا مطالعہ کریں لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ ان واقعات اور مناظر پر سے گونگے اور بہرے ہو کر گزرتے ہیں یا یہ واقعات اور مناظر لوگوں کے پاس ہو کر گزر جاتے ہیں اور لوگوں کو کوئی انتباہ نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے اور سب سے بڑا سوال کہ خود انسان کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کس طرح آیا ہے اور وہ کن کن ادوار سے گزرا ہے۔

فانا خلقنکم من تراب (22 : 5) ” ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ “ انسان اس مٹی کا بیٹا ہے۔ اس مٹی سے وہ بنا ہے ، اس کا یہ جسم اسی مٹی سے ڈھالا گیا ہے ، مٹی ہی سے اس کی زنگدی کی نشو و نما ہوتی ہے۔ اس کے جسم میں جس قدر عناصر ہیں وہ زمین کے اندر موجود ہیں۔ صرف وہ ایک عنصر مٹی میں نہیں ہے یعنی ” حیات “ یعنی روح۔ یہ امر ربی سے ہے اور اس کے بارے میں ہمارا علم ابھی تک قلیل ہے۔ اس روح ہی کی وجہ سے یہ مٹی سے جدا ہوگیا ہے لیکن اصلاً ہے تو مٹی ہی ہے۔ اس کس جسمانی ساخت ، اس کی غذا اور تمام اجزائے جسم مٹی ہی سے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مٹی میں اور انسان میں پھر یہ فرق کس طرح ہوگیا۔ مٹی کہاں اور انسان کہاں ؟ مٹی تو سادہ ذرات ہیں لیکن انسان تو تخلیق کے بعد (فسواھا) بھی ہے۔ یہ انسان فاعل بھی ہے اور فعالیت کا اثر بھی لیتا ہے۔ مئوثر بھی ہے اور متاثر بھی ہے۔ اس کے قدم زمین پر ہیں اور اس کی اڑان آسمانوں کی طرف ہے۔ وہ اپنی فکر سے مادہ سے آگے تخلیقات کرتا ہے۔ مادہ کے اندر بھی اس کی تخلیقات ہیں۔

کیا یہ ایک عظیم معجزہ اور عظیم انقلاب نہیں ہے کہ اللہ نے مٹی سے انسان بنا دیا۔ اسی انسانی مادے کو دوبارہ جمع کرنا اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ عجیب مخلوق مادہ سے پیدا کردہ۔

ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم من مضغۃ مخلقۃ لنبین لکم و نقر فی الارحام ما نشاء الی اجل مسمی ثم نخر جکم طفلاً (22 : 5) ’ پھر نطفے سے ، پھر خلیہ سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی (یہ ہم اس لئے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں۔ ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں۔ “

اب ذرا مٹی کے ان سادہ عناصر کو دیکھیے۔ پھر نطفے کو دیکھے جو زندہ مٹی کے خلیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ کس قدر تبدیلی آگئی۔ اسی کے اندر وہ عظیم راز مضمر ہے یعنی زندگی کا راز۔ وہ راز جس کے بارے میں آج تک انسان کوئی قابل ذکر معلومات حاصل نہیں کرسکا۔ اربوں سال گزر گئے ہیں۔ انسان یہ معلوم کرنے کی سعی میں ہے کہ روج کیا ہے ؟ حیات کیا ہے ؟ ان اربوں سالوں کے دوران ہر نطفے میں اربوں زندہ خلیے بنتے ہیں لیکن ان خلیوں کے ملاحظے سے بھی ہم عاجز ہیں چہ جائیکہ ہم ان کی تخلیق کو سمجھ سکیں اگرچہ انسان نظر کو بلند کرے اور محالات کے دامن کو پکڑ لے۔

پھر یہ نطفہ علقہ کس طرح بن جاتا ہے ، یہ خون کے لوتھڑے کی شکل کس طرح اختیار کرت ا ہے۔ اس کے بعد یہ خون بوٹی کی شکل میں کس طرح آتا ہے اور یہ بوٹی انسان کی شکل کس طرح اختیار کرتی ہے۔ نطفہ کیا ہے ، مرد کا پانی۔ ایک نطفے میں ہزارہا مادہ منویہ کے حیوانات ہوتے ہیں۔ ان ہزاروں لاکھوں حیوانات میں سے صرف ایک حیوان عورت کے انڈے میں داخل ہوتا ہے جو رحم مادر میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ متحد ہوتا ہے اور رحم کید یوار کے ساتھ لٹک جاتا ہے۔ اس بیضہ میں جو نہایت ہی باریک نکتے کے برابر ہوتا ہے اور جو رحم مادر کی دیواروں کے ساتھ پیوست ہوتا ہے۔ مادہ منویہ میں دوڑنیوالا یہ باریک حیوان پیوست ہوجاتا ہے بلکہ اس بیضہ کے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ یہ کام ایک خود کار نظام کے مطابق ہوتا ہے۔ ان دونوں چیزوں میں قبولیت اللہ نے رکھی ہے۔ اس نکتے میں اللہ نے تمام انسانیخصائل اور عادات ودیعت کئے ہوئے ہیں۔ آنے والے انسان کی تمام خصوصیات کہ اس کا وزن کیا ہوگا ، لمباکتنا ہوگا ، جسامت کتنی ہوگی ، موٹاپا کتنا ہوگا ، خوبصورت ہوگا یا بدصورت ، صحت مند ہوگا یا بمیار۔ اسی کے اندر انسان کی اعصابی خصوصیات ، عقلی صلاحیتیں اور نفسیاتی حالات ودیعت کردیئے جاتے ہیں۔ اس کے میلانات ، جذبات ، رجحان ، اچھائی کی طرف یا برائی کی طرف اس چھوٹے سے حیوان کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔

کون یہ تصور کرسکتا ہے کہ رحم مادر کے اندر معلق بیضے اور اس چھوٹے سے حیوان کے ملاپ کے اندر یہ سب کچھ موجود ہے اور یہی نکتہ جو خوردبین سے نظرآتا ہے اس کے اندر پورا انسان موجود ہے جس کے جسم کی ساخت ہی پیچیدہ ہے۔ اس قدر کہ دنیا میں کوئی ایک انسان بھی دوسرے کا مکمل ہم شکل نہیں ہوتا اور آدم سے لے کر آج تک کوئی بھی دو انسان مکمل طور پر ہم شکل نہیں ہوتے۔

اب یہ نکتہ حلقہ سے مضغہ بنجاتا ہے۔ یہ گاڑھے خون کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے ، اس کی کوئی شکل و صورت نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ مضغہ پھر شکل اختیار کرتا ہے ، اور یہ ہڈیوں کے ہیکل کی شکل میں ہوجاتا ہے جس کے اوپر بھی گوشت چڑھتا ہے۔ اگر اس نے پیدا ہونا ہو ورنہ رحم مادر اسے باہر پھینک دیتا ہے۔ اگر اللہ نے اس کے لئے بحیثیت انسان دنیا میں آیا مقرر نہ کیا ہو۔

لنبین لکم ” تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں۔ “ مضغہ اور طفل کے درمیان قرآن مجید جملہ معترضہ کہتا ہے تاکہ ہم تمہیں بتائیں کہ خون کے اس لوتھڑے کے اندر قدرت الہیہ نے کیا کیا کمالات رکھے ہیں۔ یہ ہے قرآن مجید کا نہایت ہی مئوثرانداز بیان۔ اس کے بعد پھر رحم مادر میں جنین کے حالات۔ ونقر فی الارحام مانشآء الی اجل مسمی (22 : 5) ” ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک خاص مدت تک رحموں میں ٹھہراتے ہیں۔ “ جن جنینوں کو اللہ تمام کردینا چاہتے ہیں وہ رحم مادر میں رہتے ہیں اپنے وقت وضع حمل تک ۔ ثم نخرجکم (طفلاً (22 : 5) ” پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں۔ “ ذرا آپ نطفہ معلقہ کو دیکھیں اور طفل مولود کو دیکھیں دونوں کے درمیان کس قدر فرق ہے۔ “

اگر اس زمانے کو دیکھا جائے تو بہت ہی تھوڑا ہے صرف 9 ماہ عموماً اور اگر نطفہ معلقہ کو دیکھا جائے اور طفل مولود کو دیکھا جائے تو دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ نطفہ تو خوردبین کے بغیر نظر ہی نہیں آتا جبکہ بچہ ایک نہایت ہی پیچیدہ مکمل مخلوق کی شکل میں ہے جس کے اعضا وجوارح ہیں۔ جس کے اپنے خدو خال ہیں ، اپنی صفات اور صلاحیتیں ہیں اور جذبات و میلانات ہیں۔ یہ اس قدر بڑا فرق ہے کہ کوئی سمجھ دار ، ذی عقل اور مفکر انسان اس پر بار بار غور کئے بغیر اور قدرت الہیہ کو تسلیم کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اس کے بعد قرآن مجید اس طفل مولود کے حالات کے ساتھ ذرا آگے جاتا ہے۔ یہ بچہ روشنی دیکھتا ہے اور اس پوشیدہ مقام کو چھوڑ دیتا ہے جس کے اندر اس نے یہ معجزانہ طفر طے کیا اور جہاں یہ نظروں سے اوجھل رہا ۔

ثم لتبلغوا اشد کم (22 : 5) ” پھر تمہاری پرورش کرتے ہیں تاکہ تم جوانی کو پہنچو۔ “ اور اپنی جسمانی ساخت کو مکمل کرو ، اپنی عقل بلوغت تک جا پہنچو اور نفسیاتی طور پر ترقی یافتہ انسان بنو۔ اس مقام پر یہ بات غور طلب ہے کہ ایک نومولود بچے اور ایک مکمل نوجوان اور مضبوط انسان کے درمیان کس قدر درجات ہیں۔ ان کے درمیان کتنا عظیم فاصلہ ہے۔ زمانوں کے فاصلے سے بہت بعید۔ لیکن دست قدرت نے یہ تمام فاصلے طے کرا دیئے۔ اس بچے کو دست قدرت نے تمام انسانی خواص عطا کردیئے اور رحم مادر کے ساتھ معلق نطفہ جو ایک بےقدر پانی پر مشتمل تھا ، اب ایک مکمل انسان ہے۔ اس کے بعد پھر

ومنکم من یتوفی ومنکم من یرنہ الی ار ذل العمر لکیلا یعلم من بعد علم شیئاً (22 : 5) ” اور تم میں سے کوئی پہلے بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ “ جو بلا لیا جاتا ہے یعنی جلدی مر جاتا ہے تو وہ اپنے اس انجام تک جا پہنچتا ہے جو ہر زندہ کا آخری انجام ہے۔ کسی کو نہایت ہی بدترین عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو یہ ہمارے لئے قابل غور فکر ہے کہ علم اور دانش مندی اور فہم و فراست اور کمال کے بعد وہ پھر ایک بچہ بن جاتا ہے۔ اس کے جذبات ، تاثرات اور حافظہ بچوں کی طرح ہوتا ہے ، وہ کوئی چیز ہاتھ میں نہیں پکڑ سکتا۔ حافظہ ختم ہوجاتا ہے ، اسے کوئی چیز یاد ہی نہیں رہتی۔ یوں بھی بچہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حادثہ کو ایک اکیلا واقعہ سمجھتا اور دیکھتا ہے۔ دو واقعات کے درمیان کوئی ربط نہیں دیکھ سکتا۔ پھر وہ ہر بات کے بارے میں بار بار پوچھتا رہتا ہے ۔ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ جب آخری واقعہ دیکھتا ہے اس کی ابتدائی کڑیاں وہ بھول چکا ہوتا ہے۔

لکیلا یعلم من بعد علم شیئاً (22 : 5) ” تاکہ اسے جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ “ اس کی گرفت سے وہ علوم بھی نکل جائیں جن کا وہ بہت ہی ماہر فن تھا اور کسی وقت تو وہ اللہ کی ذات وصفات میں بھی بحث کرتا تھا۔

اس کے بعد انسانوں کی تخلیق اور ان کی تربیت سے ذرا آگے بڑھ کر زمین کے اندر حیوانوں اور نباتات کے تخلیقی عمل پر بحث کی جاتی ہے۔

وتری الارض ھامدۃ فاذا انزلنا علیھا المآء اھتزت وربت و انبتت من کل زوج بھیج (22 : 5) ” اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے ، پھر جہاں ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کردی۔ “

ہمود موت وحیات کے درمیان ایک درجہ ہے۔ زمین بارش یا پانی ملنے سے قبل حالت ہمود میں ہوتی ہے۔ پانی حیوانات اور نباتات میں ایک بڑا عنصر ہے ، جب وہ نازل ہوتا ہے تو یہ زمین اھتزت و ربت (22 : 5) حرکت کرتی ہے۔ یہ عجیب حرکت ہے جسے قرآن نے قلم بند کردیا ہے۔ قبل اس کے کہ سائنسی آلات کے ذریعہ اس کا ملاحظہ کیا جائے ۔ جب خشک زمین کو پانی ملے تو یہ حرکت کرتی ہے ، ہلتی ہے ، پانی پیتی ہے ، پھول جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں سے نباتات پھوٹ کر نکلتے ہیں۔ من کل زوج بھیج (22 : 5) ” اس نے ہر قسم کے خوش منظر نباتات کے جوڑے اگلنا شروع کئے۔ “ اس سے زیادہ اور کوئی سین خوش منظر نہیں ہوتا کہ زمین جمود اور مردہ حالت سے ایک بار پھر زندگی بھرپور ہوجائے اور لہلہانے لگے۔

قرآن مجید تمام زندہ چیزوں ، انسان ، حیوانات اور نباتات کے درمیان ایک ہی آیت میں ایک ربط پیدا کردیتا ہے۔ وہ لوگوں کے فکر و نظر کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ان چیزوں کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے اور وہ کیا ہے ؟ یہ قرابت اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کا حقیقی سبب ایک ہے ، وہ ایک ارادہ جو اسے جگہ جگہ نمودار کرتا ہے۔ زمین نباتات اور حیوانات اور انسان سب کے بارے میں یہ آیت :

آیت 5 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ”انسانی جسم کی اصل مٹی ہے۔ اس کی غذا بھی نباتات اور معدنیات کی شکل میں مٹی ہی سے آتی ہے۔ اگر وہ کسی جانور کا گوشت کھاتا ہے تو اس کی پرورش بھی مٹی سے حاصل ہونے والی غذا سے ہی ہوتی ہے۔ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ”اور یہ مادہ بھی اسی جسم کی پیدوار ہے جو مٹی سے بنا اور مٹی سے فراہم ہونے والی غذا پر پلا بڑھا۔ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ”عام طور پر ”علقہ“ کا ترجمہ ”جما ہوا خون“ کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ اس لفظ کی وضاحت سورة المؤمنون کی آیت 14 کے ضمن میں آئے گی۔ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ ”پہلے مرحلے میں اس لوتھڑے پر کسی قسم کے کوئی نشانات نہیں تھے۔ پھر رفتہ رفتہ مختلف مقامات پر نشانات بننے لگے۔ بازوؤں اور ٹانگوں کی جگہوں پر دو دو نشانات بنے اور اسی طرح دوسرے اعضاء کے نشانات بھی ابھرنا شروع ہوئے۔لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط ”تا کہ رحم مادر میں انسانی جنین پر گزرنے والے مختلف مراحل کے بارے میں پوری وضاحت کے ساتھ تم لوگوں کو بتادیا جائے۔ تعار فِ قرآن بیان القرآن ‘ جلد اوّل کے باب پنجم میں علم جنین Embryology کے ماہر سائنسدان کیتھ ایل مور کینیڈا کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس مضمون پر اس شخص کی ٹیکسٹ بکس دنیا بھر میں مستند مانی جاتی ہیں اور یونیورسٹی کی سطح تک پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ قرآن نے رحم مادر میں جنین کے مختلف مراحل کو جس طرح بیان کیا ہے اس موضوع پر دستیاب معلومات کی اس سے بہتر تعبیر ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں وہ اس امر پر حیرت کا اظہار بھی کرتا ہے کہ صدیوں پہلے قرآن میں ان مراحل کا درست ترین تذکرہ کیونکر ممکن ہوا۔وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآء الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ”یعنی رحم کے اندر حمل ویسا ہوتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف وہی کرتا ہے کہ وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث ‘ ذہین وفطین ہوگا یا کند ذہن ‘ خوبصورت ہوگا یا بدصورت ‘ تندرست وسالم ہوگا یا بیمار و معذور۔ اس معاملے میں کسی کی خواہش یا کوشش کا سرے سے کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس مضمون کے بارے میں سورة المؤمنون کے پہلے رکوع میں مزید تفصیل بیان ہوگی۔وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ الآی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْءًا ط ””اَرْذَلِ الْعُمُر“ کی کیفیت سے حضور ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ بڑھاپے میں بعض اوقات ایسا مرحلہ بھی آتا ہے کہ انسان demencia کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں اس کی ذہنی صلاحیتیں جواب دے جاتی ہیں ‘ یادداشت زائل ہوجاتی ہے اور وہی انسان جو اپنے آپ کو کبھی سقراط اور بقراط کے برابر سمجھتا تھا ‘ بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کیفیت کو پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا سے اٹھا لے۔ میں نے ذاتی طور پر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مرحوم کو بڑھاپے کی اس کیفیت میں دیکھا ہے۔ آخری عمر میں ان کی کیفیت ایسی تھی کہ نہ زندوں میں تھے ‘ نہ مردوں میں۔ دیکھنے والے کے لیے مقام عبرت تھا کہ ایک ایسا شخص جو اعلیٰ درجے کا خطیب تھا اور اس کے قلم میں بلا کا زور تھا ‘ عمر کے اس حصے میں بےچارگی و بےبسی کی تصویر بن کر رہ گیا تھا اور اپنے پاس بیٹھے لوگوں کو پہچاننے سے بھی عاجز تھا۔ میں اس زمانے میں انہیں ملنے کے لیے ان کے پاس جاتا تھا مگر ایک حسرت لے کر واپس آجاتا تھا۔ مولانا صاحب کی تفسیر ”تدبر قرآن“ بلاشبہ بہت اعلیٰ پائے کی تفسیر ہے۔ اس میں انہوں نے ”نظام القرآن“ کے حوالے سے اپنے استاد حمید الدین فراحی رح کی فکر اور ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اس تفسیر سے بہت استفادہ کیا ہے ‘ لیکن مجھے مولانا سے بہت سی باتوں میں اختلاف بھی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رجم کی سزا سے متعلق رائے دینے میں ان سے بہت بڑی خطا ہوئی ہے۔ وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة النور ‘ تشریح آیت 2 اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ مولانا کا ذکر ہوا ہے تو ان کے لیے دعا بھی کیجیے : اللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَاَدْخِلْہُ فِی رَحْمَتِکَ وَحَاسِبْہُ حِسَاباً یَسِیْرًا۔ اَلّٰلھُمَّ نَوِّرْ مَرْقَدَہٗ وَاَکْرِمْ مَنْزِلَہٗ وََاَلْحِقْہُ بِعِبَادِکَ الصَّالِحِین۔ آمین یا ربَّ العالَمین ! زیر نظر آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کریں۔ یہاں انسانی زندگی کا پورا نقشہ سامنے رکھ کر بعث بعد الموت کے منکرین کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ ہماری قدرت کا مشاہدہ کرنا چاہو تو تم اپنی زندگی اور اس کے مختلف مراحل پر غور کرو۔ دیکھو ! تمہاری ابتدا مٹی سے ہوئی تھی۔ اس مٹی سے پیدا ہو کر تم لوگ کس کس منزل تک پہنچتے ہو ‘ اور پھر آخر مر کر دوبارہ مٹی میں مل جاتے ہو۔ جس اللہ نے تمہیں یہ زندگی بخشی ‘ تمہیں بہترین صلاحیتوں سے نوازا ‘ جس کی قدرت سے انسانی زندگی کا یہ پیچیدہ نظام چل رہا ہے ‘ کیا تم اس کی قدرت اور خلاقی کے بارے میں شک کر رہے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا۔ اپنی زندگی کی اس مثال سے اگر حقیقت تم پر واضح نہیں ہوئی تو ایک اور مثال پر غور کرو :وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ”اھتزاز کے معنی حرکت اور جنبش کرنے کے ہیں۔ اسی سے لفظ تَھْتَزُّ سورة النمل ‘ آیت 10 اور سورة القصص ‘ آیت 31 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے بارے میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنا عصا زمین پر رکھا تو اس میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے چلنے لگا۔ چناچہ یہاں ”اِھْتَزَّتْ“ کا مفہوم یہ ہے کہ بارش کے اثرات سے زمین میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ‘ مردہ زمین یکایک زندہ ہوگئی اور اس میں حرکت پیدا ہوگئی۔ مختلف نباتات کی اَن گنت کو نپلیں جگہ جگہ سے زمین کو پھاڑ کر باہر نکلنا شروع ہوگئیں اور پھر وہ سبزہ لمحہ بہ لمحہ نشوونما پانے لگا۔وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍم بَہِیْجٍ ”نباتات کی زندگی کا دورانیہ cycle بہت مختصرہوتا ہے ‘ اس لیے تم اکثر اس کا مشاہدہ کرتے ہو۔ اپنے اسی مشاہدے کی روشنی میں تم لوگ اگر اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لو گے تو تمہیں انسانی اور نباتاتی زندگی میں گہری مشابہت نظر آئے گی۔ مردہ زمین میں زندگی کے آثار پیدا ہونے ‘ نباتات کے اگنے ‘ نشوونما پانے ‘ پھولنے پھلنے اور سوکھ کر پھر بےجان ہوجانے کا عمل گویا انسانی زندگی کے مختلف مراحل مثلاً پیدائش ‘ پرورش ‘ جوانی ‘ بڑھاپے اور موت ہی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس میں صرف دورانیے کا ہی فرق ہے۔ نباتاتی زندگی کا دورانیہ چند ماہ کا ہے جبکہ انسانی زندگی کا دورانیہ عموماً پچاس ‘ ساٹھ ‘ ستر یا اسیّ سال پر مشتمل ہے۔

پہلی پیدائش دوسری پیدائش کی دلیل مخالفین اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل بیان کی جاتی ہے کہ اگر تمہیں دوسری بار کی زندگی سے انکار ہے تو ہم اس کی دلیل میں تمہاری پہلی دفعہ کی پیدائش تمہیں یاد دلاتے ہیں۔ تم اپنی اصلیت پر غور کرکے دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا ہے یعنی تمہارے باپ حضرت آدم ؑ کو جن کی نسل تم سب ہو۔ پھر تم سب کو ذلیل پانی کے قطروں سے پیدا کیا ہے جس نے پہلے خون بستہ کی شکل اختیار کی پھر گوشت کا ایک لوتھڑا بنا۔ چالیس دن تک تو نطفہ اپنی شکل میں بڑھتا ہے پھر بحکم الٰہی اس میں خون کی سرخ پھٹکی پڑتی ہے، پھر چالیس دن کے بعد وہ ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں کوئی صورت وشبیہ نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اسے صورت عنایت فرماتا ہے سرہاتھ، سینہ، پیٹ، رانیں، پاؤں اور کل اعضابنتے ہیں۔ کبھی اس سے پہلے ہی حمل ساقط ہوجاتا ہے، کبھی اس کے بعد بچہ گرپڑتا ہے۔ یہ تو تمہارے مشاہدے کی بات ہے۔ اور کبھی ٹھہرجاتا ہے۔ جب اس لوتھڑے پر چالیس دن گزرجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھاک اور درست کرکے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور جیسے اللہ چاہتا ہو خوبصورت بدصورت مرد عورت بنادیا جاتا ہے رزق، اجل، نیکی، بدی اسی وقت لکھ دی جاتی ہے۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات تک جمع ہوتی ہے۔ پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت رہتی ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی، پھر فرشتے کو چار چیزیں لکھ دینے کا حکم دے کر بھیجا جاتا ہے۔ رزق، عمل، اجل، شقی یا سعید ہونا لکھ لیا جاتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے عبداللہ فرماتے ہیں نطفے کے رحم میں ٹھیرتے ہی فرشتہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ یہ مخلوق ہوگا یا نہیں ؟ اگر انکار ہوا تو وہ جمتا ہی نہیں۔ خون کی شکل میں رحم اسے خارج کردیتا ہے اور اگر حکم ملا کہ اس کی پیدائش کی جائے گی تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ؟ نیک ہوگا یا بد ؟ اجل کیا ہے ؟ اثر کیا ہے ؟ کہاں مرے گا ؟ پھر نطفے سے پوچھا جاتا ہے تیرے رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ پوچھا جاتا ہے رازق کون ہے ؟ کہتا ہے کہ اللہ۔ پھر فرشتے سے کہا جاتا ہے تو جا اور اصل کتاب میں دیکھ لے وہیں اس کا حال مل جائے گا پھر وہ پیدا کیا جاتا ہے لکھی ہوئی زندگی گزارتا ہے مقدر کا رزق پاتا ہے مقررہ جگہ چلتا پھرتا ہے پھر موت آتی ہے اور دفن کیا جاتا ہے جہاں دفن ہونا مقدر ہے۔ پھر حضرت عامر ؒ نے یہی آیت تلاوت فرمائی مضغہ ہونے کے بعد چوتھی پیدائش کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور ذی روح بنتا ہے۔ حضرت حذیفہ بن اسید کی مرفوع روایت میں ہے کہ چالیس پینتالیس دن جب نطفے پر گزر جاتے ہیں تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ یہ دوزخی ہے یا جنتی ؟ جو جواب دیا جاتا ہے لکھ لیتا ہے پھر پوچھتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی ؟ جو جواب ملتا ہے لکھ لیتا ہے پھر عمل اور اثر اور رزق اور اجل لکھی جاتی ہے اور صحیفہ لپیٹ لیا جاتا ہے جس میں نہ کمی ممکن ہے نہ زیادتی پھر بچہ ہو کر دنیا میں تولد ہوتا ہے نہ عقل ہے نہ سمجھ۔ کمزور ہے اور تمام اعضا ضعیف ہیں پھر اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہتا ہے ماں باپ کو مہربان کردیتا ہے۔ دن رات انہیں اس کی فکر رہتی ہے تکلیفیں اٹھا کر پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے۔ یہاں تک کہ عنفوان جوانی کا زمانہ آتا ہے خوبصورت تنومند ہوجاتا ہے بعض تو جوانی میں ہی چل بستے ہیں بعض بوڑھے پھونس ہوجاتے ہیں کہ پھر عقل وخرد کھوبیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح ضعیف ہوجاتے ہیں۔ حافظہ، فہم، فکر سب میں فتور پڑجاتا ہے علم کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54؀) 30۔ الروم :54) اللہ نے تمہیں کمزوری میں پیدا کیا پھر زور دیا پھر اس قوت وطاقت کے بعد ضعف اور بڑھاپا آیا جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے پورے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔ مسندحافظ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بچہ جب تک بلوغت کو نہ پہنچے اس کی نیکیاں اس کے باپ کے یا ماں باپ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور برائی نہ اس پر ہوتی ہے نہ ان پر۔ بلوغت پر پہنچتے ہی قلم اس پر چلنے لگتا ہے اس کے ساتھ کے فرشتوں کو اس کی حفاظت کرنے اور اسے درست رکھنے کا حکم مل جاتا ہے جب وہ اسلام میں ہی چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تین بلاؤں سے نجات دے دیتا ہے جنون اور جذام سے اور برص سے جب اسے اللہ تعالیٰ کے دین پر بچ اس سال گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کردیتا ہے جب وہ ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کے کاموں کی طرف اس کی طبعیت کا پورا میلان کردیتا ہے اور اسے اپنی طرف راغب کردیتا ہے جب وہ ستر برس کا ہوجاتا ہے تو آسمانی فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی برس کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں تو لکھتا ہے لیکن برائیوں سے تجاوز فرما لیتا ہے جب وہ نوے برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اس کے گھرانے والوں کے لئے اسے سفارشی اور شفیع بنا دیتا ہے وہ اللہ کے ہاں امین اللہ کا خطاب پاتا ہے اور زمین میں اللہ کے قیدیوں کی طرح رہتا ہے جب بہت بڑی ناکارہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب کہ علم کے بعد بےعلم ہوجاتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی صحت اور ہوش کے زمانے میں نیکیاں کیا کرتا تھا سب اس کے نامہ اعمال میں برابر لکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی برائی اس سے ہوگئی تو وہ نہیں لکھی جاتی۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے باوجود اس کے اسے امام احمد بن حنبل ؒ اپنی مسند میں لائے ہیں موقوفاً بھی اور مرفوعا بھی۔ حضرت انس ؓ سے موقوفامروی ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب ؓ سے از فرمان رسول اللہ ﷺ پھر حضرت انس ؓ سے ہی دوسری سند سے مرفوعا یہی وارد کی ہے۔ حافظ ابوبکر بن بزار ؒ نے بھی اسے بہ روایت حضرت انس بن مالک ؓ مرفوع میں بیان کیا ہے (اور مسلمانوں پر رب کی مہربانی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اللہ ہماری عمر میں نیکی کے ساتھ برکت دے آمین) مردوں کے زندہ کردینے کی ایک دلیل یہ بیان کرکے پھر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے کہ چٹیل میدان بےروئیدگی کی خشک اور سخت زمین کو ہم آسمانی پانی سے لہلہاتی اور تروتازہ کردیتے ہیں طرح طرح کے پھل پھول میوے دانے وغیرہ کے درختوں سے سرسبز ہوجاتی ہے قسم قسم کے درخت اگ آتے ہیں اور جہاں کچھ نہ تھا وہاں سب کچھ ہوجاتا ہے مردہ زمین ایک دم زندگی کے کشادہ سانس لینے لگتی ہے جس جگہ ڈرلگتا تھا وہاں اب راحت روح اور نورعین اور سرور قلب موجود ہوجاتا ہے قسم قسم کے طرح طرح کے میٹھے کھٹے خوش ذائقہ مزیدار رنگ روپ والے پھل اور میوؤں سے لدے ہوئے خوبصورت چھوٹے بڑے جھوم جھوم کر بہار کا لطف دکھانے لگتے ہیں۔ یہی وہ مردہ زمین ہے جو کل تک خاک اڑا رہی تھی آج دل کا سرور اور آنکھوں کا نور بن کر اپنی زندگی کی جوانی کا مزا دی رہی ہے۔ پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے دماغ کو مخزن عطار بنا دیتے ہیں دور سے نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے کتنے خوشگوار معلوم ہوتے ہیں۔ سچ ہے خالق، مدبر، اپنی چاہت کے مطابق کرنے والا، خود مختیار حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور اس کی نشانی مردہ زمین کا زندہ ہونا مخلوق کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ وہ ہر انقلاب پر ہر قلب ماہیت پر قادر ہے جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے۔ جس کام کا ارادہ کرتا ہے۔ فرماتا ہے ہوجا۔ پھر ناممکن ہے کہ وہ کہتے ہی ہو نہ جائے۔ یاد رکھو قیامت قطعا بلاشک وشبہ آنے والی ہی ہے اور قبروں کے مردوں کو وہ قدرت والا اللہ زندہ کرکے اٹھانے والا ہے وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر تھا اور ہے اور رہے گا۔ سورة یاسین میں بھی بعض لوگوں کے اس اعتراض کا ذکر کرکے انہیں ان کی پہلی پیدائش یاد دلاکر قائل کیا گیا ہے ساتھ ہی سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی قلب ماہیت کو بھی دلیل میں پیش فرمایا گیا ہے اور آیتیں بھی اس بارے میں بہت سی ہیں۔ حضرت لقیط بن عامر ؓ جو ابو رزین عقیلی کی کنیت سے مشہور ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم لوگ سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھیں گے ؟ اور اس کی مخلوق میں اس دیکھنے کی مثال کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم سب کے سب چاند کو یکساں طور پر نہیں دیکھتے ؟ ہم نے کہا ہاں فرمایا پھر اللہ تو بہت بڑی عظمت والا ہے آپ نے پھر پوچھا حضور ﷺ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی کوئی مثال دنیا میں ہے ؟ جواب ملا کہ کیا ان جنگلوں سے تم نہیں گزرے جو غیرآباد ویران پڑے ہوں خاک اڑ رہی ہو خشک مردہ ہو رہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہی ٹکڑا سبزے سے اور قسم قسم کے درختوں سے ہرا بھرا نوپید ہوجاتا ہے بارونق بن جاتا ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مخلوق میں یہی دیکھی ہوئی مثال اس کا کافی نمونہ اور ثبوت ہے (ابوداؤد وغیرہ) حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں جو اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قطعا بےشبہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقینا جنتی ہے۔

آیت 5 - سورہ الحج: (يا أيها الناس إن كنتم في ريب من البعث فإنا خلقناكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم...) - اردو