سورہ الحج: آیت 3 - ومن الناس من يجادل في... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ الحج

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَٰنٍ مَّرِيدٍ

اردو ترجمہ

بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yujadilu fee Allahi bighayri AAilmin wayattabiAAu kulla shaytanin mareedin

آیت 3 کی تفسیر

ومن الناس ……السعیر (4)

اللہ کے بارے میں بحث ! خواہ اللہ کے وجود کے بارے میں ہو ، اللہ کی وحدانیت کے بارے میں ہو ، اللہ کی قدرت کے بارے میں ہو ، اللہ کے علم کے بارے میں ہو ، اللہ کی صفات میں سے کسی صفت کے بارے میں ہو ، اور یہ دیکھتے ہوئے کہ انسان نے کن خوفناک مناظر سے دوچار ہونا ہے اور کن ہولناک مقامات سے گزرنا ہے ، کسی عقلمند آدمی کی جانب سے یہ بحث عجیب اور جسورانہ نظر آتی ہے ، یہ منظر ایک خاطی اور پر تقصیرات بندے کو ہلاک کر رکھ دیتا ہے۔

کاش کہ اللہ کے بارے میں بات کرنے الے علم معرفت اور یقین کی بات کرتے اور علی وجہ البصیرت کرتے ، لیکن وہ تو بغیر علم کے اپنے حدود سے بڑھ رہے ہیں اور یہ بحث وجدال شیطان مردود کی اطاعت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسانوں میں ہر وقت ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں اور وہ اپنی خواہشات نفس کے اتباع میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔

ویتبع کل شیطن مرید (22 : 3) ” اور وہ ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ “ جو نافرمان ، مخالف حق اور متکبر ہے۔

کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ ویھدیہ الی عذاب السعیر (22 : 3) ” حالانک ہ اس کے تو نصیب میں لکھا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا اسے گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنم کا راستہ دکھائے گا۔ “ تو اس کی دوستی کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے دوست کو جہنم رسید کر دے گا۔ آخر کوئی عقلمند شخص دیکھتے اور بوجھتے ہوئے ایسے شخص سے دوستی کیوں کرتا ہے اور اس سے ہدایات کیوں لیتا ہے ؟

لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ بعث بعد الموت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر قیامت کے زلزلے میں بھی انہیں شک ہے۔ اگر ان کو انسان کے دوبارہ زندہ کئے جانے میں شک ہے تو انسان کی موجودہ زندگی اور خود اپنی زندگی کی نشو و نما کے نظام ہی کو دیکھ لیں۔ اور اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھیں۔ ان کو بیشمار دلائل قیامت ملیں گے۔ لیکن لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان دلائل پر سے غفلت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔

آیت 3 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ ”آج کے نام نہاد مذہبی سکالرز اور دانشور بھی اس آیت کا مصداق ہیں ‘ جو عملی طور پر غیر مسلم مغربی تہذیب کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مغربی افکار و نظریات سے مرعوب ہیں اور ان نظریات کا ہر طریقے سے پرچار کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حدیث کی ضرورت و اہمیت کے سرے سے منکر ہیں۔ ان کی روشن خیالی انہیں باور کراتی ہے کہ قرآنی احکام صرف ایک زمانے تک قابل قبول تھے اور انسان کے لیے ہمیشہ ان کا پابند رہنا ممکن نہیں۔ لہٰذا نئے زمانے کی ضروریات کے مطابق قرآنی آیات کو معاذ اللہ ! over rule کر کے اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن ایک ایسے ہی پاکستانی سکالر تھے ‘ جو McGill یونیورسٹی مانٹریال ‘ کینیڈا سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن آنحضور ﷺ کا کلام بھی ہوسکتا ہے اور اللہ کا بھی۔ اسی قبیل کے ایک ایرانی سکالر سید حسین نصر بھی ہیں۔ ایسے لوگ یہودی اداروں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور پھر ساری عمر یہودیوں سے حق وفا داری نبھانے میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وائٹ ہاؤس سے بھی خصوصی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

ازلی مردہ لوگ جو لوگ موت کے بعد کی زندگی کے منکر ہیں اور اللہ کو اس پر قادر نہیں مانتے اور فرمان الٰہی سے ہٹ کر نبیوں کی تابعداری کو چھوڑ کر سرکش انسانوں اور جنوں کی ماتحتی کرتے ہیں ان کی جناب باری تعالیٰ تردید فرما رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جتنے بدعتی اور گمراہ لوگ ہیں وہ حق سے منہ پھیر لیتے ہیں، باطل کی اطاعت میں لگ جاتے ہیں۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور گمراہ سرداروں کی مانتے ہیں وہ ازلی مردود ہے اپنی تقلید کرنے والوں کو وہ بہکاتا رہتا ہے اور آخرش انہیں عذابوں میں پھانس دیتا ہے جو جہنم کی جلانے والی آگ کے ہیں۔ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں اتری ہے اس خبیث نے کہا تھا کہ ذرا بتلاؤ تو اللہ تعالیٰ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا اس کے اس سوال سے آسمان لرز اٹھا اور اس کی کھوپڑی اڑ گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی نے ایسا ہی سوال کیا تھا اسی وقت آسمانی کڑاکے نے اسے ہلاک کردیا۔

آیت 3 - سورہ الحج: (ومن الناس من يجادل في الله بغير علم ويتبع كل شيطان مريد...) - اردو