سورۃ الحدید: آیت 3 - هو الأول والآخر والظاهر والباطن... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ الحدید

هُوَ ٱلْأَوَّلُ وَٱلْءَاخِرُ وَٱلظَّٰهِرُ وَٱلْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa alawwalu waalakhiru waalththahiru waalbatinu wahuwa bikulli shayin AAaleemun

آیت 3 کی تفسیر

ھوالاول ................ علیم (75 : 3) ” وہی اول بھی ہے اور آخر بھی ، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ “ وہ اول یوں ہے کہ اس سے ماقبل کوئی چیز نہیں ہے۔ آخر یوں ہے کہ اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی وہ ظاہر ہے یعنی اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ہے اور وہ باطن ہے یعنی اس سے نیچے کوئی شیئی نہیں ہے۔

اول اور آخر کے الفاظ حقیقت زمانیہ کا استیعاب کرتے ہیں اور ظاہر اور باطن حقیقت مکانیہ کا استیعاب کرتے ہیں۔ مطلقاً ہر زمانے میں وہ موجود ہے اور مطلقاً ہر مکان میں وہ موجود ہے۔ اور کسی زمان ومکان میں قید نہیں ہے۔ اس تصور کے مطابق صرف وہی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے اور ہمارا قلب اور ہمارا تصور بھی اسی سے وجود اخذ کرتا ہے۔ لہٰذا وجود الٰہی ہی حقیقی وجود ہے اور اللہ ہی حق ہے اور اللہ ہی حقیقت ہے اور کوئی حقیقت ہے تو وہ اللہ سے مستعاد ہے۔ نہ کسی اور کے پاس ذاتی حقیقت ہے اور نہ ذاتی وجود ہے ، اس پوری کائنات میں۔

وھو ................ علیم (75 : 3) ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ “ وہ حقیقی اور کامل علم رکھتا ہے۔ اس لئے کہ تمام اشیاء کی حقیقت تو ادھر ہی سے آئی ہوئی ہے لہٰذا اللہ کے ذاتی علم میں ہے۔ اور اللہ کا علم ایسا ہے کہ اس کی حقیقت ، اس کی نوعیت اور اس کی صفات میں کوئی بھی شریک نہیں۔ کسی اور کے پاس ایسا علم نہیں ہے۔ چاہے مخلوق کو جس قدر ظاہری معلومات بھی ہوں۔

جب کسی دل میں یہ حقیقت بیٹھ جاتی ہے تو اسے پھر اللہ کی ذات کے سوا کسی اور چیز کی پرواہ ہی نہیں رہتی۔ کوئی چیز یہاں تک کہ انسانی قلب وعقل کوئی حقیقت اور کوئی وجود نہیں رکھتے مگر وہی جو اس حقیقت کبریٰ نے عطا کیا ہوتا ہے۔ ہر چیز وہم ہے ، جانے والی ہے۔ صرف اللہ ہی باقی رہنے والا ہے۔ اور وہی ایک حقیقی وجود ہے۔

جب کوئی دل اس حقیقت کو اپنے اندر بٹھا لے تو وہ اس حقیقت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ وہ ایک نہایت ہی بلند مرتبہ سکون وقرار تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جب تک وہ اس رتبہ حصول الی الحقیقت پر فائز نہیں ہوجاتا اسے چاہئے کہ وہ اس آیت پر تدبر کرتا رہے اور یہ کوشش کرتا رہے کہ وہ اس کے مدلول اور حقیقت تک پہنچ جائے ، اس آیت کا مفہوم ہی بڑی حقیقت ہے۔

اہل تصوف نے اسی حقیقت ، عظیم حقیقت کو پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور اس میں انہوں نے کئی کئی راتے نکالے۔ بعض نے کہا کہ وہ اس کائنات کی ہر چیز میں اللہ کو دیکھتے ہیں۔ بعض نے کہا انہوں نے دیکھا کہ ہر چیز کے پیچھے اللہ کھڑا ہے۔ بعض نے کہا کہ اس نے اللہ کو دیکھا ہے اور اس کائنات میں تو اسے اللہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر ہم الفاظ کی کمی بیشی اور الفاظ کی تنگ دامانی کو نظر انداز کردیں تو یہ سب اقوال اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، لیکن متصوفین پر جو تنقید کی جاسکتی ہے۔ وہ صرف یہ ہے انہوں نے اس تصور کو اپنے اوپر اس قدر طاری کردیا ہے کہ عملی زندگی کو مہمل کردیا۔ جبکہ اسلام کا متوازن انداز یہ تھا کہ انسان کے دل و دماغ اس حقیقت کو اخذ کریں ، اس کے اندر رہیں اور بسیں لیکن وہ اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت بھی ادا کریں جس کے لئے اللہ نے ان کی تخلیق کی ہے۔ اور اس کے تمام تقاضے پورے کریں جن میں سے بڑی چیز یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں وہ نظام زندگی قائم کریں جو اللہ نے اس قرآن میں نازل فرمایا ہے۔ اس خیال سے کہ اس عظیم حقیقت کے تصور ہی کے مطابق اس دنیا میں انسان کو اپنی زندگی بسر کرنی ہے۔ یہ نظام فطرت انسانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس طرح اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور جس طرح اس نے قرآن کو بطور ہدایت نامہ بھیجا ہے۔

اس عظیم حقیقت کو قلب میں بٹھانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس حقیقت کبریٰ کا ظہور اس کائنات میں کیونکر ہوا ؟

آیت 3{ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ } ”وہی اول ہے ‘ وہی آخر ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی باطن ہے۔“ ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ ہر زمان ‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورت حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟اس آیت کے بارے میں امام رازی رح کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُہیبٌ”جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بڑا ُ پرہیبت مقام ہے !“ اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ”ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را !“ اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا ‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آگیا ہے ! صوفیاء نے ”وحدت الوجود“ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے ‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ”وحدت الوجود“ کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ”ہمہ اوست“ کا تصور گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ”وحدت الوجود“ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم 1896۔ 1984 ئ سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ”وحدت الوجود“ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہوگئے ہیں ‘ لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کرسکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورة الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ”حادث“ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اس وقت کون موجود تھا ؟ ظاہر ہے اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ اللہ سے ! پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ { کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ } الرحمن ”جو کوئی بھی اس زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔“ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اس وقت کون موجود ہوگا ؟ { وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ۔ } الرحمٰن ”اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔“ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ تو پھر ”آخر“ کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ ! اب یوں سمجھیں کہ اول اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔ اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ حضور ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلَّ شَیْئٍ ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ 1 ”اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب ! اے عرش عظیم کے مالک ! اے ہمارے رب اور ہرچیز کے پروردگار ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات ‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہرچیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اوّل ہے ‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تو ہی آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ‘ اور تو ہی ظاہر ہے ‘ تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ‘ اور تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔“ { وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } ”اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔“ جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے ‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ کیسے ہوسکتی ہے ! بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورة قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں : { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘ اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں“۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہرچیز پر قادر عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس کے علم ِکل ُ کا بیان ہے کہ اسے ہرچیز کا علم ہے وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔

آیت 3 - سورۃ الحدید: (هو الأول والآخر والظاهر والباطن ۖ وهو بكل شيء عليم...) - اردو