سورۃ الحدید: آیت 2 - له ملك السماوات والأرض ۖ... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الحدید

لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu mulku alssamawati waalardi yuhyee wayumeetu wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

آیت 2 کی تفسیر

لہ ملک ............ قدیر (75 : 2) ” زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے ، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “

آسمان اور زمین کی ہر چیز نے تسبیح کی ہے اللہ کی ، جو مالک سموت والارض ہے اور اس کی ملکیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ پس یہ تسبیح ہے از جانب غلام بحق آقا۔ یہ مالک کوئی دنیاوی مالک نہیں ہے۔ یہ تو موت وحیات کا بھی مالک ہے۔ وہ موت وحیات کا بھی خالق ہے۔ اس نے ہر زندہ کے لئے حیات اور ہر مرنے والے کے لئے موت مقدر کردی ہے۔ لہٰذا حیات وممات اس کی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں۔

حیات ابھی تک تو راز ہے اس کا سرچشمہ بھی اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ آج تک کوئی اللہ کے سوا اور کوئی سرچشمہ حیات نہیں بتا سکا نہ کوئی اس کی کیفیت آمد بتا سکا ہے اور یہ تو بڑی باتیں ہیں آج تک انسان حیات وممات کی حقیقت ہی نہیں سمجھ سکے کہ یہ کیا ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ ہی حیات دیتا ہے۔ ہر زندہ چیز کو حیات اللہ ہی دیتا ہے۔ کوئی شخص آج تک اس کا انکار نہیں کرسکا اور نہ اس کی ضد کو ثابت کرسکا ہے۔ اس طرح موت بھی ایک راز ہے جس کے اوپر پردے ہیں۔ کوئی شخص موت کی طبیعت اور ماہیت کو بھی نہیں جانتا۔ کوئی شخص موت کو پیدا نہیں کرتا کیونکہ جو حیات نہیں دے سکتا وہ اسے سلب بھی نہیں کرسکتا۔ یہ سب چیزیں اللہ کی ملکیت مطلقہ ہیں۔ اس لئے زمین و آسمان میں جو چیزیں بھی ہیں ان کی حیات بھی وہی دیتا ہے اور ان کو ممات بھی وہی دیتا ہے۔

وھو .................... قدیر (75 : 2) ” اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “ وہ ہر چیز پر قادر ہے بغیر حدود وقیود کے۔ اس کی مشیت مطلق ہے کسی حدوقید کے اندر محدود ومقید نہیں ہے۔ اس کی مشیت کا رابطہ ہر چیز سے ہوتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ، ہوتا ہے۔ انسانی عقل اللہ کی قدرت پر اگر کوئی بندش لگاتی ہے خواہ جس رنگ میں ہو اور جس قسم کی ہو ، جس انداز کی ہو وہ باطل ہے۔ وہ عقل بشری کی پیدا کردہ سوچ ہے جو بذات خود محدود ہے۔ اور اللہ کی مشیت نے اس کائنات کے لئے جو قوانین قدرت اور نوامیس فطرت مقرر کیے ہیں۔ وہ اللہ کی مشیت مطلقہ میں داخل ہیں کہ وہ بلاحدود وقیودکام کررہی ہے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت ان نوامیس فطرت کو آزادی سے اختیار کرتی ہے۔ اور ان قوانین قدرت کو اللہ کبھی کبھی توڑتا بھی ہے۔

قرآن کریم نے اس نکتے کو بہت اہمیت دی ہے۔ بار بار اس بات کی تصریح کی جاتی ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہاں تک کہ وہ خود اپنے بنائے ہوئے قوانین قدرت کے اجراء کو بھی روک سکتا ہے۔ تاکہ یہ حقیقت واضح ہو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اس میں کسی شے کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ اللہ نے اہل جنت کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور اہل جہنم کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ جہنم میں رہیں گے اور یہ وعدہ اللہ کی مشیت کے نتیجے میں صادر ہوا ہے لیکن اللہ نے اپنی آزادی کو اس عہد کے دائرے سے ہی خارج رکھا ہے اور مستثنیٰ کیا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا۔

خلدین ............ ماشاء اللہ ” وہ اس میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں الایہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ “ جہاں بھی اس قسم کی بات آئی وہاں الا ماشاء اللہ کے الفاظ آئے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ خود اپنے فیصلوں کا پابند نہیں ہے۔ اس سلسلے میں عقلی گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ہے۔ قرآن ہی اصل سرچشمہ ہے۔

اس آیت کے ذریعہ اس پوری کائنات پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ اور مطلق مشیت کو ثابت کیا گیا ہے چونکہ وہ قادر مطلق ہے اس لئے اس کی تسبیح بھی ہر چیز کرتی ہے۔

اللہ کے اقتدار بےقید ثبوت اور اس کے فیضان عام سے اس کائنات کے جام جام کو لبالب کردینے کے بعد اب ایک دوسری عظیم حقیقت سامنے لائی جاتی ہے۔ یہ کہ اللہ کے سوا باقی چیزوں کا وجود ہی اصلی نہیں ہے۔ موجود و حقیقی اور واجب الوجود صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی تمام عالم کو محیط ہے اور وہی ہر چیز کا علیم ہے۔

آیت 2 { لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”اسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔“ آیت کے آغاز میں جو حرفِ جار ”ل“ آیا ہے یہ تملیک کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور استحقاق کے لیے بھی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی de facto بھی اسی کی ہے اور de jure بھی۔۔۔ اسی کو حاکمیت کا حق پہنچتا ہے اور بالفعل بھی وہی حاکم ہے۔ اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک ہو اور بالفعل بھی وہی مالک ہے۔ اس سورة مبارکہ میں دین کا ذکر خصوصی طور پر بطور ایک نظام کے کیا گیا ہے اور یہ نظام صرف حکومت الٰہیہ کے زیر سایہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ کی ایسی صفات بار بار نمایاں کی گئی ہیں جن کا تعلق طاقت ‘ حکومت ‘ قدرت اور اختیار سے ہے۔ { یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ } ”وہی زندہ رکھتا ہے ‘ وہی مارتا ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ اس سورة مبارکہ کی پہلی چھ آیات پورے قرآن حکیم میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر فلسفے اور منطق کی سطح پر جامع ترین انداز میں ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ موقع ایسی تفصیلات میں جانے کا نہیں۔

آیت 2 - سورۃ الحدید: (له ملك السماوات والأرض ۖ يحيي ويميت ۖ وهو على كل شيء قدير...) - اردو