سورۃ الغاشیہ: آیت 22 - لست عليهم بمصيطر... - اردو

آیت 22 کی تفسیر, سورۃ الغاشیہ

لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ

اردو ترجمہ

کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lasta AAalayhim bimusaytirin

آیت 22 کی تفسیر

لست ................ بمصیطر (22:88) آپ ان جبر کرنے والے نہیں ہیں “۔ کیونکہ دلوں کا مالک تو اللہ ہے۔ آپ جبر کرکے ان کے دلوں کو نہیں پھیر سکتے۔ دل تو اللہ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ جس دل کو چاہے ایمان کی طرف پھیر دے۔

بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اگر پیغمبر ﷺ کا فریضہ صرف تبلیغ تھا تو پھر جہاد کیوں فرض کیا گیا ؟ جہاڈ اس لئے نہیں فرض ہوا کہ لوگوں کو مومن بنایا جائے بلکہ اس لئے کہ تبلیغ کے راستے میں رکاوٹیں دور کی جائیں۔ یہ نہ ہو کہ لوگوں تک دین کی بات ہی نہ پہنچے اور یہ بھی نہ ہو کہ اگر کوئی دین اسلام کو قبول کرلے تو اس پر تشدد ہو۔ جہاد کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ دین کے راستے میں سیاسی رکاوٹیں دور کی جائیں۔ رسول کا اصل فریضہ بہرحال دعوت دین ہے۔

یہ اشارات وہدایات کہ رسول اللہ کی ڈیوٹی صرف تبلیغ ہے۔ اس کو قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ تبلیغ کرنے کے بعد اگر لوگ نہیں مانتے تو رسول خدا پریشان نہ ہوں ، ان کو تسلی ہوجائے کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ وہ مطمئن ہوجائیں اور لوگوں کو تقدیر الٰہی کے حوالے کردیں کہ وہ جو چاہے کرے۔ کیونکہ انسانوں بالخصوص دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے دلوں میں اس بات کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کا مشن کامیاب ہو اور غالب ہو۔ تمام لوگ اس کو قبول کرلیں اس لئے اللہ نے بار بار اس کی تاکید کی کہ داعی کا کام دعوت دینا ہے اور اسے اس قدر اخلاص سے کام کرنا چاہیے کہ ذاتی خواہش اور ذاتی پسند کو دعوت کے کھاتے سے نکال دے۔ اور دعوت کا کام جاری رکھے۔ آگے انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اسے کیا ہے کہ کوئی مومن بنتا ہے یا کافر بنتا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب کسی معاشرے میں دعوت اسلامی کے لئے حالات سازگار نہ ہوں ۔ لوگ دین سے دور ہوں اور دین کی راہ میں مادی وسیاسی رکاوٹیں ہوں تو داعی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔

یہ بات کہ دعوت اسلامی ایک خیر محض ہے اور ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ لوگ اس میں داخل ہوجائیں۔ اس خواہش کی شدت کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے بار بار یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ کا کام صرف تبلیغ ہے۔ آپ کسی پر جبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ رسول اللہ خدا کے پیغمبر تھے۔ آپ اپنی ڈیوٹی کے حدود وقیود سے اچھی طرح واقف تھے۔ اللہ کے نظام فضاوقدرے سے بھی واقف اور تربیت یافتہ تھے۔ اس لئے بھی اس نکتے کو قرآن نے بار بار مکرر کرکے بیان کیا ہے ۔ لیکن اگر رسول اللہ ﷺ کا فریضہ تبلیغ پر ختم ہوجاتا ہے ، تو انکار کرنے والوں کا معاملہ بہرحال ختم نہیں ہوتا۔ اور نہ تکذیب کرنے والے چھوٹ جاتے ہیں اور صحیح سالم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اللہ موجود ہے اور تمام امور اللہ کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔

آیت 22{ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ۔ } ”آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔“ آپ ﷺ کی ذمہ داری صرف تذکیر اور نصیحت تک ہے ‘ کسی کو زبردستی راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔

آیت 22 - سورۃ الغاشیہ: (لست عليهم بمصيطر...) - اردو