سورۃ الغاشیہ: آیت 20 - وإلى الأرض كيف سطحت... - اردو

آیت 20 کی تفسیر, سورۃ الغاشیہ

وَإِلَى ٱلْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ

اردو ترجمہ

اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waila alardi kayfa sutihat

آیت 20 کی تفسیر

والی الارض ................ سطحت (20:88) ” اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی “۔ یہ بچھی ہوئی زمین تو ہمارے سامنے ہے۔ یہ زندگی گزارنے کے لئے ، اس پر چلنے کے لئے ، اور اس پر کام کرنے کے لئے آسان بنادی گئی ہے۔ کیا اسے لوگوں نے بچھایا ہے ، ظاہر کہ انہوں نہیں بچھایا ، انسانوں کی پیدائش سے تو زمین پہلے تھی۔ کیا یہ اس پر غور نہیں کرتے۔ ان کے ذہنوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھتا کہ کون ہے اس کو بچھانے والا ؟ اور کون ہے اسے اس طرح درست کرنے والا کہ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے۔

یہ مناظر قلب انسانی کی طرف اہم اشارات کرتے ہیں ، محض تامل اور غوروفکر سے انسان یہ اشارات پاتا ہے اور یہ اشارات وجدان کے ابھارنے اور انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان اشارات سے انسان اپنے موجد ، خالق اور اس پوری کائنات کے خالق کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

اس کائناتی منظر کی منظر کشی میں جس توازن اور ہم آہنگی کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ اس پر قدرے غور کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ قرآن انسانوں سے کس خوبصورت زبان میں مخاطب ہوتا ہے۔ اور اس میں فنی خوبیوں کو کس قدر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور ایک باشعور مومن کے احساسات میں یہ دونوں چیزیں کس طرح پیوست ہوتی ہیں۔

اس منظر میں بلند آسمان اور بچھائی ہوئی زمین کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن پہاڑوں کی بلندی افقی نہیں ہے اور نہ ہی وہ زمین پر گرے ہوئے ہیں ، بلکہ وہ نصب کردہ ہیں۔ اس طرح نصب ہیں جس طرح اونٹ کے اوپر کوہان ہوتی ہے۔ اس منظر میں دو افقی خط ہیں اور دوراسی خط ہیں۔ لیکن باہم متناسب ہیں اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے جس کے مطابق وہ مناظر کو پیش کرتا ہے۔ انداز تعبیر مجمل ہوتا ہے لیکن مصور ہوتا ہے۔

پہلا سفر تو تھا عالم آخرت میں ، دوسرا مشاہدتی سفر تھا ۔ اس کائنات کے مناظر میں ، جو ہمارے سامنے تھے ، اب روئے سخن حضور اکرم ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے۔ آپ کو اپنے واجبات وفرائض کے حدود کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے فرائض کی نوعیت کیا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے احساسات کو آخری چٹکی دی جاتی ہے تاکہ دعوت اسلامی کے حوالے سے سوئے ہوئے دلوں کو جگایا جائے۔

آیت 20{ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ۔ } ”اور کیا یہ دیکھتے نہیں زمین کی طرف کہ کیسے بچھا دی گئی ہے !“ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے لیکن ان آیات میں خصوصی طور پر قرآن مجید کے مخاطبین اوّلین سے خطاب ہے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں سرزمین حجاز کے باشندوں کا زیادہ تر وقت صحرائی مسافتوں میں گزرتا تھا ‘ جیسا کہ سورة قریش کی آیت { رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ } میں بھی ذکر ہوا ہے۔ چناچہ اپنے سفروں کے دوران جس ماحول سے ان لوگوں کا دن رات واسطہ رہتا تھا ان آیات میں اسی ماحول کی چار چیزوں کو گنوا کر انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یعنی ایک وہ اونٹ جو ان کے صحرائی سفر کی واحد سواری تھی ‘ اوپر آسمان ‘ نیچے زمین اور اطراف و جوانب میں پہاڑی سلسلے۔ یہ تھا وہ ماحول جس میں عام طور پر ان لوگوں کے شب وروز گزرتے تھے۔ بہرحال قرآن مجید کی ایسی تمام آیات صاحب شعور انسانوں کو دعوت ِفکر دیتی ہیں کہ تم لوگ ان مظاہر ِ فطرت کو غور سے دیکھا کرو۔ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی نشانی اور اس کی صناعی و خلاقی کا نمونہ ہے : { اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔ } ”یقینا آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ان کشتیوں اورجہازوں میں جو سمندر میں یا دریائوں میں لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد ‘ اور ہر قسم کے حیوانات اور چرند پرند اس کے اندر پھیلادیے ‘ اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘ یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔“ اسی حقیقت کو شیخ سعدی رح نے اپنے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار ہر ورقش دفترے است معرفت ِکردگار !کہ ایک صاحب شعور انسان کے لیے سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّگویا معرفت ِخداوندی کا دفتر ہے۔ شیخ سعدی رح نے تو اپنے زمانے میں یہ بات اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر کہی تھی لیکن آج سائنسی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّدراصل phtosynthesis کی فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹریاں سارا دن آکسیجن بنانے اور سورج کی روشنی کو جذب کرکے درختوں کی لکڑی کی طرف منتقل کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صفحات ایسی مثالوں کی تفصیل کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس حوالے سے انسان کے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو محض حیوانی آنکھ سے نہیں بلکہ عقل اور شعور کی نظر سے دیکھے۔ علامہ اقبال نے اس حوالے سے ”زبورِعجم“ میں کیا پتے کی بات کہی ہے :دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی نشنیدی !در خاکِ تو یک جلوئہ عام است ندیدی !دیدن دگر آموز ‘ شنیدن دگر آموز !کہ اے غافل انسان ! تمہارا ہر سانس اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے۔ کیا تم نے اس پیغام کو کبھی سنا ؟ نہیں سنا ! اور تمہاری اس خاک حیوانی جسم کے اندر ایک جلوئہ ربانی نورانی روح بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن تم نے اس جلوے کو کبھی دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چناچہ تمہیں چاہیے کہ تم اس کائنات کی چیزوں کو حیوانی آنکھوں سے دیکھنا اور حیوانی کانوں سے سننا چھوڑو اور انسانوں کا سا دیکھنا اور سننا سیکھو۔ تم اشرف المخلوقات ہو ‘ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور سمیت بہت سی اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ‘ ان صلاحیتوں کو استعمال میں لائو۔ مظاہر فطرت اور دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان پر غور کرو : { خَلَقَ لَـکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاق } البقرۃ : 29 یہ زمین پر جو کچھ ہے سب اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔ ان چیزوں پر تحقیق کرو ‘ نئے نئے قوانین فطرت کو تلاش کرو ‘ انہیں کام لائو۔ تمہیں زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت عطا ہوئی ہے۔ اس حیثیت سے خود زمین ‘ اس پر موجود تمام چیزیں ‘ یہ ہوائیں ‘ یہ فضائیں ‘ ستارے ‘ سیارے ‘ کہکشائیں سب تمہارے لیے مسخر ہیں۔ یاد رکھو ! اگر تم عقل و شعور سے کام لوگے تو ان پر حکومت کرو گے ‘ لیکن اگر تم توہمات میں پڑ جائو گے تو ان چیزوں کے غلام بن جائو گے۔

آیت 20 - سورۃ الغاشیہ: (وإلى الأرض كيف سطحت...) - اردو