سورۃ الغاشیہ: آیت 17 - أفلا ينظرون إلى الإبل كيف... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورۃ الغاشیہ

أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى ٱلْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ

اردو ترجمہ

(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afala yanthuroona ila alibili kayfa khuliqat

آیت 17 کی تفسیر

افلا ینظرون ................................ سطحت

یہ مختصر چار آیات ہیں لیکن ان کے اندر قرآن کریم کے پہلے مخاطب عرب سوسائٹی کے ماحول کی پوری طرح تصویر کھینچ دی گئی ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا نقشہ بھی۔ آسمان ، زمین ، پہاڑ اور زمین کے اوپر حیوانی خوبصورتی اونٹ کی صورت میں ، کیونکہ اونٹ کی تخلیق نہایت پیچیدہ ہے اور عربوں کے لئے اس کی اہمیت مسلم ہے۔ انسان جہاں بھی ہو ، یہ مناظر اس کے سامنے ہوتے ہیں۔ آسمان ، پہاڑ ، ہموار زمین اور اس کے اوپر قسم قسم کے حیوانات۔ انسان علم ومعرفت کے جس مقام پر بھی ہو ، یہ مناظر اس کے علم ادراک اور دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان چیزوں کی ساخت پر غور کرے تو اس میں اسے وہ دلائل و شواہد مل سکتے ہیں جو اس کی رہنمائی اس کائنات کی پشت پر کار فرما قوت کی طرف کرسکتے ہیں۔

ان سب مناظر کی ایک معجزانہ شان ہے۔ ان کے اندر خالق کی صنعت کاری کے ایسے پہلو نمایاں ہیں جن کی کوئی مثال انسان کی دریافت میں نہیں ہے۔ یہ چیزیں اس بات کے لئے بالکل کافی ہیں کہ انسان اپنے ذہن میں ایک ابتدائی صحیح عقیدہ اور صحیح تصور جمالے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

افلا ینظرون ........................ خلقت (17:88) ” کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے “۔ قرآن کو پہلے مخاطب ایک عرب کے ہاں اونٹ کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اس کے اوپر سفر کرتا تھا ، اس کا دودھ پیتا تھا ، اور اس کا گوشت کھاتا تھا ، اور اس کے بالوں اور چمڑے سے لباس اور بچھونا بناتا تھا گویا اس کی زندگی کے لئے سپلائی کا یہ بڑا ذریعہ تھا اور زندگی کا ایک بڑا اثاثہ تھا۔ پھر اونٹ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں کچھ منفرد خصوصیات بھی رکھتا تھا۔ ایک خصوصیت یہ تھی کہ اپنی ضخامت ، قوت اور عظیم جثہ کے باوجود اس قدر شریف جانور ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اسے چلائے تو بڑی فرماں برداری سے اطاعت کرتا ہے۔ پھر اس سے انسانوں کو جس قدر منافع زیادہ ہیں ، اسی نسبت اس کا سنبھالنا آسان تر ہے۔ اس کے کھانے اور چرنے کی چیزیں آسان ہیں اور اس کی خوراک کے لئے انسان کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ جس قدر خانگی جانور ہیں ان میں سے یہ سب سے زیادہ بھوک ، پیاس ، مشقت اور برے حالات برداشت کرتا ہے۔ پھر اللہ نے جس سیاق میں اسے یہاں پیش فرمایا ہے اس میں اس کی ساخت نہایت موزوں تھی۔ اس کی تفصیلات آرہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے مخاطبین سے کہا ذرا اونٹ کی تخلیق پر غور کرو ، یہ تو ہر وقت تمہارے سامنے رہتا ہے۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، اس پر غور کرنے کے لئے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے۔

افلا ینظرون .................... خلقت (17:88) کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے “۔ ان کی ساخت اور ان کی تخلیق پر غور نہیں کرتے۔ اور پھر غور نہیں کرتے کہ اس کی ساخت اس کے مقاصد تخلیق کے ساتھ کس قدر ہم آہنگ ہے۔ اور وہ کس طرح اچھے طریقے سے مقصد تخلیق کو پورا کرتے ہیں۔ یہ عرب معاشرے اور عرب ماحول میں اپنے فرائض کس اچھے انداز میں پورے کرتے ہیں۔ کیا اونٹوں کو کسی انسان نے بنایا ہے ، کیا اونٹ خود بخود بن گئے ، اگر یہ دونوں صورتیں نہیں تو لازماً ایک خالق ہے ، جب خالق ہے تو پھر وہ نہایت ہی حکیم ہے کہ اس نے ایسی عجیب اور مفید مخلوق بنائی۔

آیت 17{ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ } ”تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ انہیں کیسے بنایا گیا ہے !“ کیا یہ لوگ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے ؟ اور نہیں تو یہ اونٹ کی تخلیق کو ہی دیکھ لیتے کہ اس جانور کے جسم کی ریگستان کے ماحول کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی ہے۔ ریگستان کی گرمی میں یہ کئی کئی دن کھائے پئے بغیر چلتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایسے بنائے گئے ہیں کہ ریت میں نہیں دھنستے۔

کائنات پر غور و تدبر کی دعوت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی مخلوقات پر تدبر کے ساتھ نظریں ڈالیں اور دیکھیں کہ اس کی بےانتہا قدرت ان میں سے ہر ایک چیز سے کس طرح ظاہر ہوتی ہے اس کی پاک ذات پر ہر ایک چیز کس طرح دلالت کر رہی ہے اونٹ کو ہی دیکھو کہ کس عجیب و غریب ترکیب اور ہیئت کا ہے کتنا مضبوط اور قوی ہے اور اس کے باوجود کس طرح نرمی اور آسانی سے بوجھ لاد لیتا ہے اور ایک بچے کیساتھ کس طرح اطاعت گزار بن کر چلتا ہے۔ اس کا گوشت بھی تمہارے کھانے میں آئے اس کے بال بھی تمہارے کام آئیں اس کا دودھ تم پیو اور طرح طرح کے فائدے اٹھاؤ، اونٹ کا حال سب سے پہلے اس لیے بیان کیا گیا کہ عموما عرب کے ملک میں اور عربوں کے پاس یہی جانور تھا حضرت شریح قاضی فرمایا کرتے تھے آؤ چلو چل کر دیکھیں کہ اونٹ کی پیدائش کس طرح ہے اور آسمان کی بلندی زمین سے کس طرح ہے وغیرہ اور جگہ ارشاد ہے آیت (اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓا اِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنٰهَا وَزَيَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ) 50۔ ق :6) کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا کیسے مزین کیا اور ایک سوراخ نہیں چھوڑا، پھر پہاڑوں کو دیکھو کہ کیسے گاڑ دئیے گئے تاکہ زمین ہل نہ سکے اور پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ سکیں پھر اس میں جو بھلائی اور نفع کی چیزیں پیدا کی ہیں ان پر بھی نظر ڈالو زمین کو دیکھو کہ کس طرح پھیلا کر بچھا دی گئی ہے غرض یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جو قرآن کے مخاطب عربوں کے ہر وقت پیش نظر رہا کرتی ہیں ایک بدوی جو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر نکلتا ہے زمین اس کے نیچے ہوتی ہے آسمان اس کے اوپر ہوتا ہے پہاڑ اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور اونٹ پر خود سوار ہے ان باتوں سے خالق کی قدرت کاملہ اور صنعت ظاہرہ بالکل ہویدا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ خالق، صانع، رب عظمت و عزت والا مالک اور متصرف معبود برحق اور اللہ حقیقی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا اظہار کریں جسے ہم حاجتوں کے وقت پکاریں جس کا نام دود زباں بنائیں اور جس کے سامنے سر خم ہوں حضرت ضمام ؓ نے جو سوالات آنحضرت ﷺ سے کیے تھے وہ اس طرح کی قسمیں دے کر کیے تھے بخاری مسلم ترمذی نسائی مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں بار بار سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا تو ہماری یہ خواہش رہتی تھی کہ باہر کا کوئی عقل مند شخص آئے وہ سوالات کرے ہم بھی موجود ہوں اور پھر حضور ﷺ کی زبانی جوابات سنیں چناچہ ایک دن بادیہ نشین آئے اور کہنے لگے اے محمد ﷺ آپ کے قاصد ہمارے پاس آئے اور ہم سے کہا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا وہ کہنے لگا بتائیے آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے کہا زمین کس نے پیدا کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے کہا ان پہاڑوں کو کس نے گاڑ دیا ؟ ان سے یہ فائدے کی چیزیں کس نے پیدا کیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے کہا پس آپ کو قسم ہے اس اللہ کی جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور ان پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فرمایا اس نے سچ کہا۔ کہا اس اللہ کی آپ کو قسم ہے جس نے آپ کو بھیجا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مالوں میں ہم پر زکوٰۃ فرض ہے فرمایا سچ ہے پھر کہا آپ کو اپنے بھیجنے والے اللہ کی قسم کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ فرمایا ہاں مزید کہا کہ آپ کے قاصد نے ہم میں سے طاقت رکھنے والے لوگوں کو حج کا حکم بھی دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے جو کہا سچ کہا وہ یہ سن کر یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس اللہ واحد کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نہ میں ان پر کچھ زیادتی کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہوگا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس نے کہا میں ضمام بن ثعلبہ ہوں بنو سعد بن بکر کا بھائی ابو یعلی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اکثر یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پہاڑ پر تھی اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا یہ عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے لڑکے نے اس سے پوچھا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا ؟ اس نے کہا اللہ نے۔ پوچھا میرے ابا جی کو کس نے پیدا کیا ؟ اس نے کہا اللہ نے پوچھا مجھے ؟ کہا اللہ نے پوچھا آسمان کو ؟ کہا اللہ نے، پوچھا زمین کو ؟ کہا اللہ نے، پوچھا پہاڑوں کو ؟ بتایا کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے نے پھر سوال کیا کہ اچھا ان بکریوں کو کس نے پیدا کیا ؟ ماں نے کہا انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے کے منہ سے بےاختیار نکلا کہ اللہ تعالیٰ بڑی شان والا ہے اس کا دل عظمت اللہ سے بھر گیا وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکا اور پہاڑ پر سے گرپڑا، ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ابن دینار فرماتے ہیں حضرت ابن عمر ؓ بھی یہ حدیث ہم سے اکثر بیان فرمایا کرتے تھے اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن جعفر مدینی ضعیف ہیں۔ امام علی بن مدینی جو ان کے صاحبزادے اور جرح و تعدیل کے امام ہیں وہ انہیں یعنی اپنے والد کو ضعیف بتلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ تم تو اللہ کی رسالت کی تبلیغ کیا کرو تمہارے ذمہ صرف بلاغ ہے حساب ہمارے ذمہ ہے آپ ان پر مسلط نہیں ہیں جبر کرنے والے نہیں ہیں ان کے دلوں میں آپ ایمان پیدا نہیں کرسکتے، آپ انہیں ایمان لانے پر مجبور نہیں کرسکتے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے حکم کیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے اپنے جان و مال مجھ سے بچا لیے مگر حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی (مسلم ترمذی مسند وغیرہ) پھر فرماتا ہے مگر وہ جو منہ موڑے اور کفر کرے یعنی نہ عمل کرے نہ ایمان لائے نہ اقرار کرے جیسے فرمان ہے آیت (فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى 31 ؀ۙ) 75۔ القیامة :31) نہ تو سچائی کی تصدیق کی نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیرلیا اسی لیے اسے بہت بڑا عذاب ہوگا ابو امامہ باہلی حضرت خالد بن یزید بن معاویہ ؓ کے پاس گئے تو کہا کہ تم نے نبی ﷺ سے جو آسانی سے آسانی والی حدیث سنی ہو اور اسے مجھے سنا تو آپ نے فرمایا میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ تم میں سے ہر ایک جنت میں جائیگا مگر وہ جو اس طرح کی سرکشی کرے جیسے شریر اونٹ اپنے مالک سے کرتا ہے (مسند احمد) ان سب کا لوٹنا ہماری ہی جانب ہے اور پھر ہم ہی ان سے حساب لیں گے اور انہیں بدلہ دیں گے، نیکی کا نیک بدی کا بد۔ سورة غاشیہ کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 17 - سورۃ الغاشیہ: (أفلا ينظرون إلى الإبل كيف خلقت...) - اردو