سورۃ الغاشیہ: آیت 1 - هل أتاك حديث الغاشية... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الغاشیہ

هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ ٱلْغَٰشِيَةِ

اردو ترجمہ

کیا تمہیں اُس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ataka hadeethu alghashiyati

آیت 1 کی تفسیر

ھل اتک .................... الغاشیة

” اس آغاز کے ذریعہ یہ سورت دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کائنات میں جو نشانات الٰہیہ موجود ہیں ان کی طرف متوجہ کرتی ہے اور یہ بتاتای ہے کہ انسان نے قیامت میں حساب دینا ہے اور جزاء وسزا سے دوچار ہونا ہے۔ اور یہ یقینی امر ہے۔ استفہامی تاکیدی یا تقریری کے ذریعہ اس بات کو نہایت تاکید سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس استفہامی انداز میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سورت سے قبل اس امر کی بار بار تاکید اور تذکیر کی گئی ہے۔ اس لئے یہاں قیامت کو ایک نیا نام دیا گیا ہے۔ الغاشیہ (چھاجانے والی) یعنی ایک ایسی مصیبت جس کی ہولناکیاں لوگوں پر چھاجائیں گی۔ یہ ایک نیا نام ہے لیکن اس نام کے ذریعہ قیامت کی خوفناکی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں قیامت کے لئے کئی نام آئے ہیں۔ الطامہ ، الصاخہ ، الغاشیہ اور القارعہ اور یہ سب نام اسی پارے کے مضامین کے ساتھ مناسب ہیں۔

یہ سوال کہ کیا غاشیہ کی کچھ خبریں آپ کو ملی ہیں ، تو حضور اکرم ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ سب سے پہلے یہ سوال ان سے کیا گیا ہے۔ جب بھی حضور اکرم ﷺ اس سورت کو پڑھتے یا سنتے تو یوں محسوس ہوتا کہ شاید حضور اکرم ﷺ نے اسے پہلی مرتبہ سنا ہے اور ابھی یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہورہی ہے۔ آپ اللہ کے اس خطاب کو سن کر چوکنے ہوجاتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ اللہ کا خطاب ہے ، اور آپ کے احساسات یہ ہوتے کہ ابھی یہ خطاب انہوں نے پایا اور سنا۔ ابن ابوحاتم روایت کرتے ہیں ابن محمد طنافسی سے ، وہ ابوبکر ابن عباس سے ، وہ ابواسحاق سے ، وہ عمر ابن میمون سے کہ حضور اکرم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو پڑھ رہی تھی۔

ھل اتک .................... الغاشیة (1:88) ” کیا آپ تک الغاشیہ کی بات پہنچی ہے ؟ “ تو آپ کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا ” ہاں میرے پاس بات آئی ہے “۔

اس کے باوجود خطاب ہر اس شخص کو ہے جو قرآن مجید سنتا ہے یا پڑھتا ہے کیونکہ الغاشیہ کی بات قرآن کی بات ہے جو بار بار قیامت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کریم قیامت کی یاد دہانی کرا کے لوگوں کو ڈراتا ہے اور خوشخبری دیتا ہے اور ڈرنے والے حساس اور متقی دلوں کے اندر عمل اور احتیاط کے کذبات ابھارتا ہے۔ ڈر اور احتیاط کے ساتھ ساتھ قرآن مجید امید اور فلاح کا انتظار بھی سکھاتا ہے تاکہ انسانی ضمیر غافل ہو کر مرہی نہ جائے۔

اور یہ کہنے کے بعد ، کہ ” کیا تمہیں اس چھاجانے والی آفت کی خبر پہنچی ؟ “ اس خبر کی ہیڈ لائن دی جاتی ہیں۔

آیت 1{ ہَلْ اَتٰٹکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ۔ } ”کیا پہنچ چکی ہے آپ ﷺ کے پاس اس ڈھانپ لینے والی آفت کی خبر ؟“ یعنی قیامت کی خبر ‘ جو پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

سب کو ڈھانپنے والی حقیقت غاشیہ قیامت کا نام ہے اس لیے کہ وہ سب پر آئیگی سب کو گھیرے ہوئے ہوگی اور ہر ایک کو ڈھانپ لے گی ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کہیں جا رہے تھے کہ ایک عورت کی قرآن پڑھنے کی آواز آئی آپ کھڑے ہو کر سننے لگے اس نے یہی آیت ھل اتک پڑھی یعنی کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات پہنچی ہے ؟ تو آپ نے جواباً فرمایا نعم قد جآءنی یعنی ہاں میرے پاس پہنچ چکی ہے اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہروں والے ہوں گے پستی ان پر برس رہی ہوں گی ان کے اعمال غارت ہوگئے ہوں گے انہوں نے تو بڑے بڑے اعمال کیے تھے سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں وہ آج بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگئے ایک مرتبہ حضرت عمر ایک خانقاہ کے پاس سے گزرے وہاں کے راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر روئے لوگوں نے پوچھا حضرت کیا بات ہے ؟ تو فرمایا اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی کہ عبادت اور ریاضت کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد نصرانی ہیں عکرمہ اور سدی فرماتے ہیں کہ دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے یہ سخت بھڑکنے والی جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں سوائے ضریع کے اور کچھ کھانے کو نہ ملے گا جو آگ کا درخت ہے یا جہنم کا پتھر ہے یہ تھوہر کی بیل ہے اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے اور نہایت ہی برا نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع پہنچے نہ نقصان دور ہو۔

آیت 1 - سورۃ الغاشیہ: (هل أتاك حديث الغاشية...) - اردو