آیت نمبر 65 تا 66
یہ اعلان ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی آیات سے منہ موڑتے ہیں اور اللہ کے عطیات کی ناشکری کرتے ہیں ، کہ میں تو ان معبودوں کی بندگی سے منع کردیا گیا ہوں جن کو تم پکارتے ہو۔ لہٰذا میں منع ہوگیا ہوں۔ اس لیے کہ میرے پاس نشانات آگئے ہیں اور آئے بھی میرے رب کی طرف سے ہیں۔ میرے پاس دلائل پہنچ چکے ہیں اور میں ان پر ایمان لاچکا ہوں۔ اور اللہ نے میرے پاس جو دلائل بھیجے ہیں ، ان کا حق ہے کہ میں ان پر مطمئن ہوجاؤں اور تصدیق کردوں اور اس سچائی کا اعلان کردوں جو میرے پاس آگئی ہے۔ اور غیر اللہ کی بندگی سے رک جانا ہی کافی نہیں بلکہ رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کردینا اور ایک مثبت پروگرام شروع کرنا بھی بڑا مشن ہے۔ اس میں ” لا “ بھی ہے اور ” الا “ بھی ہے۔
اور آفاقی دلائل الہیہ کے بیان کے بعد اب انفس کی طرف روئے سخن مڑتا ہے۔ انفس کے دلائل میں سے بڑی دلیل ظہور حیات انسانی ہے اور پھر اس کے ظہور کے عجیب اطوار ودرجات ہیں۔ انسانی حیات کا مطالعہ ایک مقدمہ ہے۔ اس بات کے لیے کہ اس کائنات میں ہر قسم کی حیات درحقیقت اللہ کے دست قدرت کا کرشمہ ہے اور اس کی مٹھی میں ہے۔
آیت 65 { ہُوَ الْحَیُّ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ } ”وہ زندہ وجاوید ہستی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں“ ایک وہی ذات ہے جو خود زندہ ہے ‘ صرف اسی کی حیات ذاتی ہے۔ باقی زندگی جہاں بھی ہے ‘ جس شکل میں بھی ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ ہمیں بھی زندگی کے یہ چار دن اسی نے مستعار دیے ہیں۔ ع ”عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن !“ { فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } ”پس اسی کو پکارو ! اس کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔“ نوٹ کیجیے ‘ پھر وہی حکم دہرایا جا رہا ہے کہ دعا اسی سے مانگو ‘ وہ قبول بھی کرے گا ‘ مگر شرط یہ ہے کہ تمہاری اطاعت خالص اسی کے لیے ہونی چاہیے۔ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن } ”کل ُ حمد اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“