سورہ غافر: آیت 15 - رفيع الدرجات ذو العرش يلقي... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورہ غافر

رَفِيعُ ٱلدَّرَجَٰتِ ذُو ٱلْعَرْشِ يُلْقِى ٱلرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ لِيُنذِرَ يَوْمَ ٱلتَّلَاقِ

اردو ترجمہ

وہ بلند درجوں والا، مالک عرش ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل کر دیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کر دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

RafeeAAu alddarajati thoo alAAarshi yulqee alrrooha min amrihi AAala man yashao min AAibadihi liyunthira yawma alttalaqi

آیت 15 کی تفسیر

آیت 15 { رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوالْعَرْشِ } ”وہی اللہ ہے درجات کو بلند کرنے والا ‘ عرش کا مالک۔“ یہاں پھر اللہ کی شان کا بیان مرکب اضافی کی شکل میں ہوا ہے۔ { یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ } ”وہ القا کرتا ہے روح کو اپنے امر میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے تاکہ وہ خبردار کر دے لوگوں کو ملاقات کے دن سے۔“ تاکہ اللہ تعالیٰ کے وہ بندے لوگوں کو یاد دہانی کرائیں کہ ایک دن انہوں نے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔ یہاں پر الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ سے وحی مراد ہے۔ فرشتہ ‘ وحی اور انسانی روح تینوں کا تعلق عالم امر سے ہے ‘ لہٰذا ”روح“ کا لفظ ان تینوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے (مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ ۭ) 70۔ المعارج :3) ، یعنی وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہوگا جو سیڑھیوں والا ہے۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اور اس بات کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گذر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے وہ جس پر چاہے وحی بھیجے۔ جیسے (يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ) 16۔ النحل :2) ، وہ فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کردو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے ڈرتے رہو اور جگہ فرمان ہے (وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ01902ۭ) 26۔ الشعراء :192) یعنی یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے۔ جسے معتبر فرشتے نے تیرے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے۔ جس میں حضرت آدم خود اور ان کی اولاد میں سے سب سے آخری بچہ ایک دوسرے سے مل لے گا۔ ابن زید فرماتے ہیں بندے اللہ سے ملیں گے۔ قتادہ فرماتے ہیں آسمان والے اور زمین والے آپس میں ملاقات کریں گے۔ خالق و مخلوق، ظالم و مظلوم ملیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے ملاقات کرے گا۔ بلکہ عامل اور اس کا عمل بھی ملے گا۔ آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہوگی۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے۔ اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے ؟ کون ہوگا جو جواب تک دے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا۔ میں بادشاہ ہوں، میں جبار ہوں متکبر ہوں۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں ؟ صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کرلے گا۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہر چیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہر چیز ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منای ندا کرے گا کہ لوگو ! قیامت آگئی جسے مردے زندے سب سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لئے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لئے، پھر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہوگا بلکہ نیکیاں دس دس گنی کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اے میرے بندوں میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کرلیا ہے اور تم پر بھی حرام کردیا ہے۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے۔ پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے (مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 28؀) 31۔ لقمان :28) یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کردینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کردینے کی مانند ہے اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے (وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀) 54۔ القمر :50) یعنی ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہوجاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول لی۔

آیت 15 - سورہ غافر: (رفيع الدرجات ذو العرش يلقي الروح من أمره على من يشاء من عباده لينذر يوم التلاق...) - اردو