سورہ غافر: آیت 10 - إن الذين كفروا ينادون لمقت... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ غافر

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ ٱللَّهِ أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى ٱلْإِيمَٰنِ فَتَكْفُرُونَ

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کیا ہے، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا "آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اُس سے زیادہ غضب ناک اُس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo yunadawna lamaqtu Allahi akbaru min maqtikum anfusakum ith tudAAawna ila aleemani fatakfuroona

آیت 10 کی تفسیر

آیت نمبر 10 تا 12

لمقت کا مفہوم ہے بہت شدید ناپسندیدگی۔ ان کو سب مخلوق خدا ہر طرف سے یہ پکارے گی ، کی بدبختو تمہیں رسول اللہ ﷺ ، ایمان کی پکار دے رہے تھے اور تم ناحق انکار کرتے تھے۔ اور اللہ تم پر بہت ناراض ہوتا تھا۔ اور تمہارے رویے کو بہت ناپسند فرماتا تھا ، جس طرح آج تمہیں حقیقت معلوم ہوئی ہے تو تم اپنے رویے کو ناپسند کرتے ہو لیکن تم سے تو وقت چلا گیا ہے۔ تم نے کفر کیا ، ایمان سے منہ موڑا اور تم سے ایک عظیم دولت چلی گئی۔ پوری کائنات کی جانب سے یہ علامت آرہی ہوگی اور یہ ان کے لیے سخت سوہان روح ہوگی۔ اس برے دن میں کسی تسلی کے بجائے ہر طرف سے مزید ملامت۔ اب تو دھوکے اور گمراہی کے پردے آنکھوں کے سامنے سے ہٹ گئے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ نجات کی جگہ اب صرف ذات باری ہے۔ لہٰذا گڑگڑاتے ہیں :

قالوا ربنآ۔۔۔۔۔ من سبیل (40: 11) ” وہ کہیں گے ” اب ہمارے رب ، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ زندگی دے دی ، اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں ، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ؟ “ یہ ایک نہایت ہی بدحال ، مایوس اور بدبخت کی درخواست ہے ، اب تو وہ کہتے ہیں ” اے ہمارے رب “ اور اس وقت وہ رب کا انکار کرتے تھے ، تو نے پہلی مرتبہ ہمیں زندگی دی ۔ مردے میں روح ڈالی ، وہ زندہ ہوگیا۔ پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندگی دی اور اب ہم میدان حشر میں ہیں ۔ اس لیے تو اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ہمیں موجودہ مصیبت سے نکال دے۔ اب تو ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے۔

فھل الیٰ خروج من سبیل (40: 11) ” کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے “۔ یہ ہے سرزنش جس سے ان کی بےتابی ، مایوسی اور تلخی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کڑے وقت میں ان کو یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ تمہارے اس برے انجام کا اصل سبب کیا ہے :

ذٰلکم بانه۔۔۔۔ الکبیر (40: 12) ” یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو ، اس وجہ سے ہے کہ اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم مان نے سے انکار کردیتے تھے اور جب اسکے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے ، میں ذلیل کرنے والے انجام تک تمہیں یہ بات لائی ہے کہ تم عقیدۂ توحید کا انکار کرتے تھے۔ اور عقیدۂشرک کو مان لیتے تھے۔ لہٰذا اب فیصلہ اللہ وحدہ کے ہاتھ میں ہے جو علی اور کبیر ہے۔ فیصلے کے حوالے سے یہ دونوں مناسب صفات ہیں۔ کوئی فیصلہ وہی شخص کرسکتا ہے جو بزرگ ہو اور برتر مقام رکھتا ہو اور اللہ تو ہر چیز پر برتر ہے اور ہر چیز سے بڑا ہے ، خصوصاً قیامت کے دن۔

یہاں اللہ کی صفات علی وکبیر کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے اور مومنین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس علی وکبیر کی بارگاہ میں

دعا کرو اور توحید کا عقیدہ اپنا کر نظام زندگی بھی اسی کا اپنا لو ، یہاں قیامت کے فیصلے کی گھڑی سے بھی ڈرایا جاتا ہے جہاں اللہ واحد

وقہار کے پاس سب اختیارات ہوں گے اور وہ بہت ہی بلندو برتر ہے۔

گزشتہ آیات میں مومنین ِصادقین کے حالات کا نقشہ دکھایا گیا ہے کہ قیامت کے دن حاملین ِعرش ملائکہ ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے۔ نہ صرف ان کے لیے بلکہ وہ ان کے آباء و اَجداد اور اہل و عیال کے لیے بھی سفارش کریں گے کہ ان میں سے اگر کوئی جنت کے نچلے درجے میں ہے تو اے پروردگار ! تو اس کے درجات کو بھی بلند فرما دے تاکہ وہ اپنے ان عزیز و اقارب کے ساتھ مل جائے جنہیں بلند تر درجات عطا ہوئے ہیں۔ اب ان آیات میں اس کے برعکس کفار و مشرکین کے حالات کا منظر دکھایا جا رہا ہے :آیت 10 { اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰہِ اَکْبَرُ مِنْ مَّقْتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ } ”جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں پکارا جائے گا کہ آج تم جس قدر اپنی جانوں سے بےزار ہوگئے ہو اللہ کی بیزاری تم سے اس سے کہیں بڑھ کر تھی“ { اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَی الْاِیْمَانِ فَتَکْفُرُوْنَ } ”جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے۔“ آج عذاب کی حالت میں تمہاری جان پر بنی ہوئی ہے اور تم اپنی جانوں سے بیزار ہو کر موت کی دعائیں کر رہے ہو۔ مگر یاد کرو وہ وقت جب اللہ کا رسول تمہیں اللہ کی طرف اور قرآن کی طرف بلا رہا تھا اور تمہیں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ دکھا رہا تھا تو تم مسلسل انکار کیے جا رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ تم سے جس قدر بیزاری محسوس کر رہا تھا وہ تمہاری اس بیزاری سے کہیں زیادہ تھی جو تم لوگ آج اپنی جانوں سے محسوس کر رہے ہو۔

کفار کی دوبارہ زندگی کی لاحاصل آرزو۔ قیامت کے دن جبکہ کافر آگ کے کنوؤں میں ہوں گے اور اللہ کے عذابوں کو چکھ چکے ہوں گے اور تمام ہونے والے عذاب نگاہوں کے سامنے ہوں گے اس وقت خود اپنے نفس کے دشمن بن جائیں گے اور بہت سخت دشمن ہوجائیں گے۔ کیونکہ اپنے برے اعمال کے باعث جہنم واصل ہوں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے بہ آواز بلند کہیں گے کہ آج جس قدر تم اپنے آپ سے نالاں ہو اور جتنی دشمنی تمہیں خود اپنی ذات سے ہے اور جس قدر تم آج اپنے تئیں کہہ رہے ہو اس سے بہت زیادہ برے اللہ کے نزدیک تم دنیا میں تھے جبکہ تمہیں اسلام و ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اسے مانتے نہ تھے، اس کے بعد کی آیت (كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀) 2۔ البقرة :28) کے ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ دنیا میں مار ڈالے گئے پھر قبروں میں زندہ کئے گئے اور جواب سوال کے بعد مار ڈالے گئے پھر قیامت کے دن زندہ کردیئے گئے۔ ابن زید فرماتے ہیں حضرت آدم ؑ کی پیٹھ سے روز میثاق کو زندہ کئے گئے پھر ماں کے پیٹ میں روح پھونکی گئی پھر موت آئی پھر قیامت کے دن جی اٹھے۔ لیکن یہ دونوں قول ٹھیک نہیں اس لئے کہ اس طرح تین موتیں اور تین حیاتیں لازم آتی ہیں اور آیت میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے، صحیح قول حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور ان کے ساتھیوں کا ہے۔ (یعنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی ایک زندگی اور قیامت کی دوسری زندگی، پیدائش دنیا سے پہلے کی موت اور دنیا سے رخصت ہونے کی موت یہ دو موتیں اور دو زندگیاں مراد ہیں) مقصود یہ ہے کہ اس دن کافر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے میدان میں آرزو کریں گے کہ اب انہیں دنیا میں ایک مرتبہ اور بھیج دیا جائے جیسے فرمان ہے (وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀) 32۔ السجدة :12) ، تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا اب تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو نیکیاں کریں گے اور ایمان لائیں گے۔ لیکن ان کی یہ آرزو قبول نہ فرمائی جائے گی۔ پھر جب عذاب و سزا کو جہنم اور اس کی آگ کو دیکھیں گے اور جہنم کے کنارے پہنچا دئے جائیں گے تو دوبارہ یہی درخواست کریں گے اور پہلی دفعہ سے زیادہ زور دے کر کہیں گے جیسے ارشاد ہے (ولو تری اذوقفوا علی النار) یعنی کاش کے تو دیکھتا جبکہ وہ جہنم کے پاس ٹھہرا دیئے گئے ہوں گے کہیں گے کاش کے ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے اور اپنے رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان ہوتے، بلکہ ان کے لئے وہ ظاہر ہوگیا جو اس سے پہلے وہ چھپا رہے تھے اور بالفرض یہ واپس لوٹائے بھی جائیں تو بھی دوبارہ یہ وہی کرنے لگیں گے جس سے منع کئے گئے ہیں۔ یہ ہیں ہی جھوٹے۔ اس کے بعد جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور عذاب شروع ہوجائیں گے اس وقت اور زیادہ زور دار الفاظ میں یہی آرزو کریں گے وہاں چیختے چلاتے ہوئے کہیں گے (رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ 37؀) 35۔ فاطر :37) ، اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال دے ہم نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے خلاف جو اب تک کرتے رہے جواب ملے گا کہ کیا ہم نے انہیں اتنی عمر اور مہلت نہ دی تھی کہ اگر یہ نصیحت حاصل کرنے والے ہوتے تو یقینا کرسکتے۔ بلکہ تمہارے پاس ہم نے آگاہ کرنے والے بھی بھیج دیئے تھے اب اپنے کرتوت کا مزہ چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہیں گے کہ اللہ ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم پھر وہی کریں تو یقینا ہم ظالم ٹھہریں گے۔ اللہ فرمائے گا دور ہوجاؤ اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ اس آیت میں ان لوگوں نے اپنے سوال سے پہلے ایک مقدمہ قائم کر کے سوال میں ایک گونہ لطافت کردی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کیا کہ باری تعالیٰ ہم مردہ تھے تو نے ہمیں زندہ کردیا پھر مار ڈالا پھر زندہ کردیا۔ پھر تو ہر اس چیز پر جسے تو چاہے قادر ہے۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے یقینا ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی اب بچاؤ کی کوئی صورت بنا دے۔ یعنی ہمیں دنیا کی طرف پھر لوٹا دے جو یقینا تیرے بس میں ہے ہم وہاں جا کر اپنے پہلے اعمال کے خلاف اعمال کریں گے اب اگر ہم وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں۔ انہیں جواب دیا جائے گا کہ اب دوبارہ دنیا میں جانے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر دوبارہ چلے بھی جاؤ گے تو پھر بھی وہی کرو گے جس سے منع کئے گئے۔ تم نے اپنے دل ہی ٹیڑھے کر لئے ہیں تم اب بھی حق کو قبول نہ کرو گے بلکہ اس کے خلاف ہی کرو گے۔ تمہاری تو یہ حالت تھی کہ جہاں اللہ واحد کا ذکر آیا وہیں تمہارے دل میں کفر سمایا۔ ہاں اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو تمہیں یقین و ایمان آجاتا تھا۔ یہی حالت پھر تمہاری ہوجائے گی۔ دنیا میں اگر دوبارہ گئے تو پھر بھی یہی کرو گے۔ پس حاکم حقیقی جس کے حکم میں کوئی ظلم نہ ہو سرا سر عدل و انصاف ہی ہو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے نہ دے جس پر چاہے رحم کرے جسے چاہے عذاب کرے اس کے حکم وعدل میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ اللہ اپنی قدرتیں لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ زمین و آسمان میں اس کی توحید کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ سب کا خالق سب کا مالک سب کا پالنہار اور حفاظت کرنے والا وہی ہے۔ وہ آسمان سے روزی یعنی بارش نازل فرماتا ہے جس سے ہر قسم کے اناج کی کھیتیاں اور طرح طرح کے عجیب عجیب مزے کے مختلف رنگ روپ اور شکل وضع کے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں حالانکہ پانی ایک زمین ایک۔ لہذا اس سے بھی اس کی شان ظاہر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عبرت و نصیحت فکر و غور کی توفیق ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رغبت و رجوع کرنے والے ہوں، اب تم دعا اور عبادت خلوص کے ساتھ صرف اللہ واحد کی کیا کرو۔ مشرکین کے مذہب و مسلک سے الگ ہوجاؤ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ہر فرض کے سلام کے بعد یہ پڑھتے تھے۔ (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر)اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی ہر نماز کے بعد انہیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند احمد) یہ حدیث مسلم ابو داؤد وغیرہ میں بھی ہے ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرو اور قبولیت کا یقین کامل رکھو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور دوسری طرف کے مشغول دل کی دعا نہیں سنتا۔

آیت 10 - سورہ غافر: (إن الذين كفروا ينادون لمقت الله أكبر من مقتكم أنفسكم إذ تدعون إلى الإيمان فتكفرون...) - اردو