سورہ غافر: آیت 1 - حم... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ غافر

حمٓ

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 223 تشریح آیات

آیت نمبر 1 تا 3

یہ سورت ان سات سورتوں میں سے پہلی سورت ہے جن کا آغاز حا اور میم کے حروف مقعات سے ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک سورت ایسی ہے جس میں حا ۔ میم کے بعد عین ، سین اور قاف بھی آیا ہے۔ حرف مقطعات کے بارے میں ہم تمام سورتوں میں کہہ آئے ہیں کہ ان میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کلام انہی حروف تہجی سے بنا ہے اور یہ ایک معجز کلام ہے حالانکہ یہ حروف تہجی تمہاری دسترس میں ہیں۔ یہ تمہاری زبان کے حروف ہیں اور اس زبان کو تم بولتے بھی ہو ، لکھتے بھی ہو۔

ان حروف کے بعد پھر نزول کتاب کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ بات ہے جو اکثر مکی سورتوں کے اغاز میں کہی جاتی ہے جن کا مضمون اکثر اسلامی نظریہ حیات اور کلمہ توحید سے ہوتا ہے۔

تنزیل ۔۔۔۔ العلیم (40: 2) ” اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے “۔

اس اشارے کے بعد اب بات اس ذات کی بعض صفات کی طرف منتقل ہوتی ہے جس نے یہ کلام نازل کیا ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں جن کا اس سورت کے موضوع کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ اس سورت میں جو موضوعات اور جو مسائل لیے گئے ہیں ان کے ساتھ ان صفات الہٰی کا ربط ہے۔

غافر الذنب۔۔۔۔ المصیر (40: 3) ” زبردست ہے ، سب کچھ جاننے والا ہے ، گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے ، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب قضل ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے “۔ اس آیت میں عزت ، علم ، گناہوں کی مغفرت ، توبہ کی قبولیت ، سخت سزا ، فضل وکرم ، الوہیت اور حاکمیت کی وحدت اور سب لوگوں کا اس کی طرف لوٹنے کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اور اس سورت کے تمام موضوعات انہی معافی کے اردگرد گھومتے ہیں جن کو اس آیت میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اس آیت میں نہایت زور دار انداز ، زور دار آواز میں اور قومی ترتراکیب اور جملوں میں نہایت پختگی اور استقلال سے لایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی وہ صفات یہاں متعارف کرائی ہیں جن کا انسانی وجود اور انسانی زندگی پر گہرا اثر ہے۔ یوں اللہ نے انسانوں کے دلوں اور ان کے شعور کے احساسات کو تیز کیا۔ ان کے اندر رجائیت پیدا کی اور امید کو جگایا۔ ان کے اندر خوف اور تقویٰ پیدا کیا گیا اور ان کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ اللہ کے قبضے میں ہیں۔ وہ اللہ کے تصرفات سے کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ ذرا ان صفات کا تفصیلی جائزہ لیں۔

العزیز (40: 2) ” وہ قوی اور قادر مطلق جو ہر کسی پر غالب ہے ، اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا ۔ وہ تمام امور میں تصرف کرتا ہے اور اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا اور نہ اس کے اوپر کوئی نگران ہے۔

العلیم (40: 2) وہ ذات ہے جو اس کائنات کو علم اور مہارت سے چلاتی ہے ، اس پر اس کائنات کا کوئی راز مخفی نہیں ہے۔ اور کوئی چیز اس کے علم سے غائب نہیں ہے۔

غافر الذنب (40: 3) وہ جو بندوں کے گناہوں کو بخشتا ہے ، ان بندوں کے گناہوں کو جن کے بارے میں اپنے شامل علم کے ذریعے اللہ جانتا ہے کہ وہ بخشش کے مستحق ہیں۔

وقابل التوب (40: 3) وہ جو نافرمانوں پر مہربانی کرتا ہے اور ان کو لوٹا کر اپنے خطیرۂ امن میں لاتا ہے اور ان کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور بلاروک ٹوک ان کو اندر آنے دیتا ہے۔

شدید العقاب (40: 3) جو متکبرین کو نیست ونابود کرتا ہے ، اور اسلام کے دشمنوں کو سزا دیتا ہے ، جو نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ استغفار کرتے ہیں۔

ذی الطول (40: 3) وہ جو لوگوں کو انعامات دیتا ہے ، جو نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس قدر دیتا ہے کہ ان انعامات کا کوئی حساب نہیں کیا جاسکتا ۔

لاالٰه الاھو (40: 3) الوہیت ، حاکمیت اسی کی ہے۔ ، اور وہ وحدہ لاشریک ہے ، اپنی ذات وصفات ہیں۔

الیه المصیر (40: 3) حساب و کتاب کے لیے ہر کسی نے اس کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور اس سے ملاقات ہوگی۔ تمام مخلوق نے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور وہی لوٹنے کی جگہ ہے۔

یوں بندوں کا تعلق اللہ سے اور اللہ کا تعلق بندوں سے واضح کیا جاتا ہے۔ بندوں کے شعور ان کے تصورات ، ان کے ارداک ، اور ان کے علم میں اللہ سے رابطہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کس قدر چوکنا ہو کر اور احتیاط سے معاملہ کرنا ہے اور یہ جانتے ہوئے معاملہ کرنا ہے کہ کس چیز سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور کس چیز سے راضی ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے ادیان اور عقائد افسانوی ہیں ، وہ اپنے الہوں کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں ، وہ اس کے بارے میں حیرت میں رہتے ہیں ، انہیں ان الہوں کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہوتیں ، ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کیا چیز انہیں ناراض کرتی ہے اور کس سے وہ راضی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے الہوں کی جو تصویر کھینچتے ہیں۔ اس کے مطابق ان الہوں کی خواہشات بدلتی رہتی ہیں ، ان کا رجحان صاف نہیں ہوتا۔ وہ الہہ جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ ان الہوں کے ساتھ ہمیشہ بےچینی کی زندگی گزارتے ہیں اور ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ان کی رضا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے۔ آیا وہ تعویذوں سے راضی ہوتے ہیں ، قربانیوں سے راضی ہوتے ہیں۔ ذبیحوں سے راضی ہوتے ہیں یا اور اگر وہ یہ کام کر بھی گزریں تو بھی ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ راضی ہوگئے یا نہیں ہوئے۔

ان حالات میں اسلام آیا ، اس نے واضح اور ستھرے و عقائد دیئے ، لوگوں کو اپنے سچے خدا سے ملا دیا۔ ان کو اللہ کی صحیح صفات سے آگاہ کردیا ۔ ان کو اللہ کی مشیت کے بارے میں بتا دیا ، یہ بھی صاف صاف بتادیا کہ وہ اللہ کے قریب کس طرح ہوسکتے ہیں ، اسکی رحمت کی امیدوہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ اسکے عذاب سے کسطرح ڈرسکتے ہیں اور اللہ کا سیدھا اور درست راستہ کونسا ہے۔

آیت 1 { حٰمٓ۔ ”ح ‘ م۔“

سورتوں کے اول میں حم وغیرہ جیسے جو حروف آئے ہیں ان کی پوری بحث سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں جس کے اعادہ کی اب چنداں ضرورت نہیں۔ بعض کہتے ہیں حم اللہ کا ایک نام ہے اور اس کی شہادت میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں یذکرنی حم والرمح شاجر فھلا تلا حم قبل التقدم یعنی یہ مجھے حم یاد دلاتا ہے جب کہ نیزہ تن چکا پھر اس سے پہلے ہی اس نے حم کیوں نہ کہہ دیا۔ ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں وارد ہے کہ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو حم لاینصرون کہنا، اس کی سند صحیح ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ نے فرمایا تم کہو حم لاینصروا یعنی نون کے بغیر، تو گویا ان کے نزدیک لاینصروا جزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہوگے۔ تو قول صرف حم رہا یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے، جس کی جناب ہر بےادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو، وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کرکے آخرت سے بےرغبت ہوجائے۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دی نے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے (نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ) 15۔ الحجر :49) یعنی میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک عذاب ہیں۔ اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف وامید کی حالت میں رہے۔ وہ وسعت و غنا والا ہے۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے۔ بندوں پر اس کے انعام، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کرسکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا۔ اور بہت جلد حساب سے فارغ ہوجائے گا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ایک شخص آکر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کردیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ آپ نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عمر کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور تھا ذرا ایسا ہی آدمی ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیرالمومنین نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بہ کثرت شراب پینا شروع کردیا ہے۔ حضرت عمر نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو یہ خط ہے عمر بن خطاب کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعداز سلام علیک میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو متوجہ کردے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو حضرت عمر ؓ کا خط ملا تو اس نے اسے بار بار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رودیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی توبہ کی جب حضرت فاروق اعظم کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو۔ حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت مصعب بن زبیر ؓ کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جاکر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورة مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی الیہ المصیر تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب غافر الذنب پڑھو تو کہو یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی اور جب قابل التوب پڑھو تو کہو یاشدید العقاب لا تعاقبنی حضرت مصعب فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گذرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ حضرت الیاس تھے۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں حضرت الیاس کا ذکر نہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

آیت 1 - سورہ غافر: (حم...) - اردو