سورۃ الفرقان: آیت 61 - تبارك الذي جعل في السماء... - اردو

آیت 61 کی تفسیر, سورۃ الفرقان

تَبَارَكَ ٱلَّذِى جَعَلَ فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَٰجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا

اردو ترجمہ

بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabaraka allathee jaAAala fee alssamai buroojan wajaAAala feeha sirajan waqamaran muneeran

آیت 61 کی تفسیر

تبرک الذی ……شکوراً (64)

بروج کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ اس سے سیاروں کے مدار مراد ہیں۔ وہ عظیم فلکیاتی مدار جو بہت ہی دور رس اثرات اور دور رس اعمال کا مظہر ہیں۔ کائنات کا یہ عظیم ترین مظہر اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس فقرے کے جواب میں پیش فرمایا ہے کہ (رحمٰن کیا ہوتا ہے) ان کو بتایا جاتا ہے کہ تم رحمٰن کو کیا سمجھتے ہو۔ ذرا رحمٰن کی اس مخلوق کو سمجھنے کی کوشش کرو تو تمہارا سر چکرا جائے۔ جو فی الحقیقت عظیم ہے۔ انہی بروج کے اندر شمس بھی سرگرداں ہے جو ایک چراغ ہے کیونکہ اسی کی روشنی سے زمین منور ہے اور اسی کی روشنی سے قمر بھی منیر ہے۔ جس کی روشنی لطیف اور خوشگوار ہے۔

یہاں گردش لیل و نہار کے تسلسل کو انسانی مشاہدے کے لئے پیش کیا جاتا ہے کیونکہ یہ دو ایسے مظہر اور معجزات ہیں جو مسلسل ہمارے سامنے دہرائے جا رہے ہیں اور صرف انہی پر اگر انسان غور کرے تو اس کی ہدایت کے لئے یہ کافی و شافی ہیں۔

لمن اراد ان یذکر او ارادشکورا (25 : 62) ” اس شخص کے لئے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہئے۔ “ اگر گردش لیل و نہار کا یہ نظام اس طرح آگے پیچھے نہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر حیات انسانی کی بقا ممکن ہی نہ ہوتی۔ نہ انسان ہوتے ، نہ حیوانات ہوتے اور نہ نباتات ہوتے۔ اگر رات اور دن کی موجودہ چوبیس گھنٹے کی مدت میں بھی طوالت کردی جائے تو پھر بھی زندگی گزارنا مشکل ہوجائے۔

کتاب ” سائنس دعوت ایمان دے رہا ہے “ میں ہے :

” یہ کرہ ارض یعنی زمین اپنے محور کے اردگرد چوبیس گھنٹوں میں گھومتی ہے۔ اس کی رفتار ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ صرف سو میل فی گھنٹہ کے حساب سے گردش کرے گی تو ہمارے دن اور رات کا وقت دس گنا زیادہ ہوجائے گا۔ اس حالت میں جس حصے پر سورج چمک رہا ہوگا۔ سورج سب کچھ جلا کر رکھ دے گا اور رات کے وقت زمین پر جو کچھ ہوگا وہ جم کر رہ جائے گا۔ “

لہٰذا بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کو صحیح اندازے کے مطابق بنایا۔ اور بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے آسمانوں میں بروج بنائے اور ایک چراغ اور قمر منیر بنایا اور جس نے رات اور دن کو ایک دور سے کا جانشین بنایا۔ اس میں عبرت ہے اس شخص کے لئے جو نصیحت پکڑنا یا شکر ادا کرنا چاہئے۔

اب اس سورة کا آخری رکوع شروع ہو رہا ہے جو ہمارے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا ایک اہم درس درس نمبر 11 بھی ہے۔ منتخب نصاب کے حصہ اول میں چار جامع اسباق ہیں۔ ان میں سے دوسرا درس آیت البر سورۃ البقرۃ کی آیت 177 پر مشتمل ہے ‘ جس کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ حصہ دوم میں ”مباحث ایمان“ کے عنوان کے تحت پانچ دروس ہیں جن میں سے تین مقامات سورۃ الفاتحہ ‘ سورة آل عمران کے آخری رکوع کی آیات اور سورة النور کی آیات نور یعنی پانچواں رکوع کا مطالعہ ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ منتخب نصاب کا تیسرا حصہ ”مباحث عمل صالح“ پر مشتمل ہے اور اس حصے کا پہلا درس سورة المؤمنون کی ابتدائی آیات کے حوالے سے ہے ‘ جن کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ ان آیات میں ایک بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر کے لیے بنیادی اساسات کے بارے میں راہنمائی کی گئی ہے ‘ جبکہ سورة الفرقان کے آخری رکوع کی جن آیات کا مطالعہ اب ہم کرنے چلے ہیں منتخب نصاب کے تیسرے حصے کا دوسرا درس ان آیات کے حوالے سے ہے ان میں بندۂ مؤمن کی تعمیر شدہ mature شخصیت و سیرت کے خصائص اور خدوخال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لیکن اس موضوع کو شروع کرنے سے پہلے رکوع کی ابتدائی دو آیات میں ایمان کے بارے میں قرآن حکیم کے فطری استدلال کا خلاصہ بیان ہوا ہے :آیت 61 تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا ”یہاں سورج کے لیے ”سراج“ یعنی چراغ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاند کو روشن بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک یہ حقیقت انسان کے علم میں آچکی ہے کہ سورج کے اندر جلنے یا تحریق combustion کا عمل جاری ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ روشنی کے ساتھ ساتھ حرارت کا منبع بھی ہے ‘ جبکہ چاند محض سورج کی روشنی کے انعطاف reflection کی وجہ سے روشن نظر آتا ہے اور اس میں کسی قسم کا عمل تحریق نہیں پایا جاتا۔ اس کی سطح ہماری زمین کی سطح سے ملتی جلتی ہے۔ اب تو انسان خود چاند کی سطح کا عملی طور پر مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رفعت و عظمت اللہ تعالیٰ کی بڑائی، قدرت، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں۔ اور آیت میں ہے آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں کیساتھ مزین بنایا۔ سراج سے مراد سورج ہے جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے جیسے فرمان ہے آیت (وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا 13؀۽) 78۔ النبأ :13) اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نوربنایا۔ حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا آیت (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا 15؀ۙ) 71۔ نوح :15) کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا۔ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے۔ یہ جاتا ہے وہ آتا ہے اس کا جانا اس کا آنا ہے۔ جیسے فرمان ہے اس نے تمہارے لئے سورج چاند پے درپے آنے جانے والے بنائے ہیں۔ اور جگہ ہے رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے نہ رات دن سے سبقت لے سکے۔ اسی سے اس کے بندوں کو اسکی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کرلیں۔ دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کرلیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کرلے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک دن ضحی کی نماز میں بڑی دیر لگادی۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا میرا وظیفہ کچھ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا یا قضا کرلوں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی خلفتہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن رات تاریک اس میں اجالا اس میں اندھیرا یہ نورانی اور وہ ظلماتی۔

آیت 61 - سورۃ الفرقان: (تبارك الذي جعل في السماء بروجا وجعل فيها سراجا وقمرا منيرا...) - اردو