سورۃ الفتح: آیت 6 - ويعذب المنافقين والمنافقات والمشركين والمشركات... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الفتح

وَيُعَذِّبَ ٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱلْمُنَٰفِقَٰتِ وَٱلْمُشْرِكِينَ وَٱلْمُشْرِكَٰتِ ٱلظَّآنِّينَ بِٱللَّهِ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ ٱلسَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا

اردو ترجمہ

اور اُن منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WayuAAaththiba almunafiqeena waalmunafiqati waalmushrikeena waalmushrikati alththanneena biAllahi thanna alssawi AAalayhim dairatu alssawi waghadiba Allahu AAalayhim walaAAanahum waaAAadda lahum jahannama wasaat maseeran

آیت 6 کی تفسیر

اس کے بعد اللہ کی حکمت کا ایک دوسرا پہلو سامنے آتا ہے ، جو اللہ نے اس واقعہ میں رکھا ہوا تھا یہ کہ منافقین اور منافقات کو سزا دے اور مشرکین اور مشرکات سے ایسے کاموں کا صدور ہو اور وہ سزاؤں کے مستحق ہوجائیں۔

ویعذب المنفقین والمنقت ۔۔۔۔۔۔۔ وساءت مصیرا (6) واللہ جنود ۔۔۔۔۔ عزیز حکیما (48 : 7) ” اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ، اللہ کا غضب ان پر ہو اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لئے جہنم مہیا کردی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ زمین اور آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔

اس آیت میں اللہ نے مشرکین اور مشرکات ، منافقات اور منافقین کو صفت سوء ظن میں شریک کیا ہے اور اس صفت میں کہ ان کو یقین نہ تھا کہ اللہ مومنین کی امداد کرے گا۔ اس لیے اللہ نے ان کو اس سزا میں بھی شریک رکھا کہ ان پر برائی کا پھیر آگیا اور یہ خود ہی گھیرے گئے۔ اور یہ برائی ان پر پڑنے والی ہے ۔ اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے اور سب پر اللہ کی لعنت ہے اور ان سب کا انجام بھی برا ہے اور یہ اس میں شریک ہیں۔ یہ اس لیے کہ نفاق ایک بہت ہی ذلیل حرکت ہے۔ یہ شرک کے برابر ہے بلکہ شرک سے بھی بری ہے اور گری ہوئی حرکت ہے۔ اور مسلمانوں کو اذیت دینے میں ان منافقین اور منافقات کا کردار مشرکین اور مشرکات سے کم نہیں ہے۔ اگرچہ دونوں کی اذیتوں کا دائرہ اور نوعیت مختلف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کی اہم صفت یہ قرا ردی ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں بدگمانیاں کرتے ہیں۔ ایک مومن اپنے رب کے ساتھ حن ظن رکھتا ہے اور ہمیشہ اللہ سے خیر چاہتا ہے۔ اور خیر کی توقع کرتا ہے خواہ اس کے حالات اچھے ہوں یا وہ مشکلات میں ہو۔ وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے کہ دونوں حالات میں اللہ سے بھلائی چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا دل اللہ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ بھلائی کے چشمہ کو کبھی بند نہیں فرماتا۔ جب انسان کا قلب واصل باللہ ہو تو وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے اور براہ راست اس کا ذائقہ محسوس کرتا ہے۔ رہے منافق اور مشرک تو ان کو تعلق باللہ کی نعمت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ اس حقیقت کو محسوس نہیں کرتے اور نہ اسے اپنے اندر پاتے ہیں۔ پس وہ اللہ کے ساتھ سوء ظن کرتے ہیں اور صرف ظاہری امور کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور اپنے احکام کو ظاہری امور پر مبنی کرتے ہیں۔ جب کوئی ظاہری علامات ان کو نظر آتی ہیں تو وہ توقع کرتے ہیں کہ ان پر بھی مصیبت آگئی اور مسلمانوں پر بھی۔ ان کو اللہ کی تقدیر اور تدبیر پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ کی تقدیر اور تدبیر بعض اوقات نظروں سے اوجھل ہو کر کام کرتی ہیں۔

اس آیت میں اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مختلف انواع و اقسام کو جمع کیا ، ان کا حال بیان کیا اور بتایا کہ ان کے لئے کس قدر برا انجام ہے اور آخر میں بتایا کہ ان کا سوء ظن غلط ہے۔ اللہ کی قدرت وسیع اور حکمت دور رس ہے۔

وللہ جنود السموت والارض وکان اللہ عزیز حکیما (48 : 7) ” زمین و آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست و حکیم ہے “۔ لہٰذا ان دشمنان اسلام کی کوئی بات اللہ کو عاجز نہیں کرسکتی ، ان کی کوئی سرگرمی اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تو زمین و آسمان کی قوتوں کا مالک ہے اور عزیز و حکیم ہے۔

اس کے بعدنبی ﷺ کی طرف رخ کیا جاتا ہے کہ آپ کا فرض منصبی کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے فرائض کیا ہیں۔ آپ نے ان تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ وہ ایمان لا چکے ، بیعت الرضوان میں براہ راست اللہ سے بیعت بھی کرچکے ۔ یہ عہد انہوں نے براہ راست اللہ سے کیا ہے۔ اس لیے یہ نہایت ہی عظیم مقام ہے جس تک وہ پہنچ گئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اس بیعت اور عقد کی ذمہ داریاں بھی عظیم ہیں۔

آیت 6 { وَّیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْئِ } ”اور تاکہ اللہ سزا دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں بہت ُ برے گمان رکھنے والے ہیں۔“ یہ الفاظ سورة الاحزاب کی آخری آیت کے الفاظ سے گہری مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں۔ سورة الاحزاب 5 ہجری میں نازل ہوئی تھی جبکہ سورة الفتح 6 ہجری میں۔ { عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ } ”انہی پر مسلط ہے برائی کا دائرہ۔“ یعنی برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ہیں۔ { وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا } ”اور اللہ ان پر غضبناک ہوا ہے اور اس نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ اور وہ بہت بری جگہ ہے لوٹنے کی۔“

آیت 6 - سورۃ الفتح: (ويعذب المنافقين والمنافقات والمشركين والمشركات الظانين بالله ظن السوء ۚ عليهم دائرة السوء ۖ وغضب الله عليهم ولعنهم وأعد لهم...) - اردو