سورۃ الفتح: آیت 29 - محمد رسول الله ۚ والذين... - اردو

آیت 29 کی تفسیر, سورۃ الفتح

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَىٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًا ۖ سِيمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ ٱلسُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْـَٔهُۥ فَـَٔازَرَهُۥ فَٱسْتَغْلَظَ فَٱسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِۦ يُعْجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًۢا

اردو ترجمہ

محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Muhammadun rasoolu Allahi waallatheena maAAahu ashiddao AAala alkuffari ruhamao baynahum tarahum rukkaAAan sujjadan yabtaghoona fadlan mina Allahi waridwanan seemahum fee wujoohihim min athari alssujoodi thalika mathaluhum fee alttawrati wamathaluhum fee alinjeeli kazarAAin akhraja shatahu faazarahu faistaghlatha faistawa AAala sooqihi yuAAjibu alzzurraAAa liyagheetha bihimu alkuffara waAAada Allahu allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati minhum maghfiratan waajran AAatheeman

آیت 29 کی تفسیر

اب ہم اس سورت کے خاتمہ کی طرف آرہے ہیں۔ اس میں قرآن نے صحابہ کرام کی وہ تصویر کشی کی ہے جو اس وقت عملاً موجود تھی اور یہ جماعت محترمہ جس کے بارے میں پہلے آچکا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اس جماعت کے ایک ایک فرد تک اللہ کی خوشنودی کی اطلاع کردی گئی ، یہ کون لوگ تھے ؟ تو سنئے !

محمد رسول اللہ والذین ۔۔۔۔۔۔ مغفرۃ واجرا عظیما (48 : 29) ” محمد ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود ، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ ۔۔۔۔۔ ہے جس نے پہلے کونپل نکالی ، پھر اس کو تقویت دی ، پھر وہ گدرائی ، پر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تا کہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ، اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے “۔

یہ ایک زبردست تصویر ہے ۔ قرآن کریم نہایت ہی انوکھے انداز میں یہ تصویر کشی کرتا ہے۔ اس جماعت کی نمایاں جھلکیاں یہاں دی گئی ہیں۔ ان کے ظاہری حالات ، ان کے پوشیدہ روحانی حالات ، ان کے باہم تعلقات ، ان کے کفار کے ساتھ تعلقات ،۔

اشداء علی الکفار رحماء بینھم (48 : 29) ” کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں “ ۔ اور اللہ کی بندگی اور پرستش کرتے ہوئے۔

ترھم رکعا سجدا (48 : 29) ” تم دیکھو گے انہیں رکوع و سجود میں “۔ اور ان کی قلبی حالت اور خواہش اور فکر کیسی ہے۔ ان کی دلچسپیاں کیا ہیں۔

یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا (48 : 29) ” اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول ہیں “۔ اور ان کے ظاہری خدو خال اور نشانات کیا ہیں ، چہرے ہرے کیسے ہیں۔

سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود (48 : 29) ” سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں “۔ اور تورات و انجیل میں بھی ان کی یہی صفات بتائی گئی ہیں۔ (1) کزرع اخرج شعلتہ (48 : 29) ” ایک کھیتی کی طرح جس نے پہلے کونپل نکالی “۔ (2) فازرہ (48 : 29) ” پھر اسے تقویت دی “۔ (3) فاستغلظ (48 : 29) ” پھر وہ گدرائی “۔ (4) فاستوی علی سوقہ (48 : 29) ” پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی “۔ (5) یعجب الزراع (48 : 29) ” کاشت کرنے والے کو وہ خوش کرتی ہے “۔ (6) لیغیظ بھم الکفار (48 : 29) ” تا کہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر چلیں “۔

یہاں سب سے پہلے اس صفت محمد کو ثابت اور موکد کیا جاتا ہے جس کا انکار سہیل ابن عمرو نے کیا تھا کہ آپ ﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ نہ لکھیں یعنی محمد رسول اللہ ﷺ (محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ) اور اس کے بعد صحابہ کرام کی یہ انوکھی اور عجیب تصویر شروع ہوجاتی ہے ، نہایت ہی انوکھے انداز میں۔

مومنین کے حالات تو مختلف ہوتے ہیں لیکن ان جھلکیوں میں جو صفات دی گئی ہیں یہ تمام مومنین کی زندگی میں ہوتی ہیں اور یہ ان کی زندگی کے بنیادی نکات ہیں۔ انہی نکات سے اس تصویر کے خطوط ابھرتے ہیں جو نہایت ہی خوبصورت اور چمک دار ہیں۔ یہاں اللہ نے جو جھلکیاں دی ہیں ، ان میں ان باتوں کو بہت نمایاں کیا گیا ہے جن سے اس جماعت کی عزت افزائی ہو۔ لہٰذا وہ نکات اور وہ خطوط یہاں نمایاں ہیں جن کے ذریعہ عالم بالا میں انہیں اعزاز ملا ہے۔ ان کے معزز اور مکرم ہونے کی پہلی جھلکی اور رنگ یہ ہے کہ یہ لوگ۔

اشداء علی الکفار رحماء بینھم (48 : 29) ” کافروں پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں “۔ یہ کافروں پر بہت ہی سخت ہیں حالانکہ اس وقت کافروں میں ان کے آباء ، بھائی ، قریبی رشتہ دار اور دوست موجود تھے۔ لیکن انہوں نے ایسے تمام رشتوں کو یکدم کاٹ کر رکھ دیا۔ اور وہ آپس میں رحم دل ہیں حالانکہ ان کے درمیان صرف دینی اخوت ہے۔ لہٰذا ان کی شدت بھی اللہ کے لئے ہے اور ان کی نرمی بھی اللہ کے لئے ہے۔ یہ ہے نظریاتی حمیت ، اسلامی حمیت ، دینی غیرت۔ لہٰذا وہ اپنے نفس کے لئے کچھ نہیں چاہتے ۔ اور نہ ان کے نفوس کے لئے اس دین میں کچھ ہے۔ یوں وہ اپنے جذبات اور اپنی محبتوں کو اپنے تعلقات اور طرز عمل کو اپنے نظریات اور عقائد کی اساس پر استوار اور تعمیر کر رہے ہیں۔ وہ نظریاتی دشمنوں پر سخت اور نظریاتی دوستوں کے لئے ریشم کی طرح نرم ہیں۔ وہ انانیت اور خواہشات نفسانیہ سے مجرد ہوگئے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی اور کے لئے کسی اور تعلق کے لئے وہ مشتعل ہی نہیں ہوتے۔

اب دوسری جھلکی ، ان کے تکریم اور ان کا شرف ان کی رکوع و سجود میں ہے۔ جب وہ عبادت کرتے ہیں تو رکوع و سجود میں ہوتے ہیں اور تم انہیں ہمیشہ اس حالت میں پاؤ گے ، گویا یہ صفت ان کی دائمی صفت ہے اور عبادت میں رکوع و سجود مکمل حالت ہے ، اور ان کے ذہنوں میں بھی یہی حالت ہے اور ان کے جسم بھی بروقت رکوع و سجود میں ہیں گویا ان کی پوری زندگی اور پورا وقت اسی کام میں گزرتا ہے۔

ان کی جو تیسری جھلکی دکھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی باطنی ، ان کی روحانی اور ان کی نفسیات کی حالت کیا ہے۔

یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا (48 : 29) ” تم ان کو اللہ کے فضل اور خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے “۔ یہ ان کے شعور کی دائمی حالت ہے۔ ان کا دل جن باتوں میں ہر وقت مشغول رہتا ہے ، ان کے اندر ہر وقت جو شوق اٹھتے ہیں وہ یہی ہیں کہ کسی طرح اللہ راضی ہوجائے ، اللہ کی رضا اور اس کے فضل کی طلب کے سوا ان کا اور کوئی مشغلہ اور دلچسپی ہی نہیں ہے۔

اور چوتھی خوبی یہ کہ ان کی عبادات ان کے فیچرز اور ان کے خدوخال میں ظاہری طور پر نظر آتی ہیں۔

سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود (48 : 29) ” ان کے سجود کے اثرات ان کے چہروں میں موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں “۔ یعنی ان کے چہرے میں نور ، روشنی اور چمک نظر آئے گی۔ اور ان کا چہرا صاف و شفاف ہوگا۔ اور یہ ان کی صاف ، زندہ اور روح پرور عبادت کی وجہ سے۔ اس سیماھم سے مراد وہ معروف نشان (محراب) نہیں ہے جو بعض لوگوں کے ماتھے پر پڑجاتا ہے (جب وہ سجدے میں ماتھا رگڑتے ہیں ) من اثر السجود (48 : 29) کے لفظ سے ذہن میں یہ نشانی آجاتی ہے۔ اثر السجود سے مراد اثر العبادہ ہے۔ کیونکہ سجدہ عبادت اور بندگی اور اطاعت کا درجہ کمال ہوتا ہے اور اس میں انسان عاجزی اور اطاعت کی کمال حالت میں ہوتا ہے۔ اس حالت کا اثر انسان کے چہرے پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ عبادت گزاروں کے چہروں پر سے کبرو غرور اور مستی دور ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ شریفانہ تواضع ، صاف و شفاف طرز عمل ، پروقار نور اور تقویٰ کا دھیما پن آجاتا ہے جس سے مومن کا چہرہ نہایت یہ خوبصورت نظر آتا ہے جبکہ اس کے چہرے پر مایوسی بالکل نہیں ہوتی اور وہ خوش اور مطمئن نظر آتا ہے۔

یہ روشن تصویر جو ان جھلکیوں میں نظر آتی ہے یہ کوئی نئی تصویر نہیں ہے۔ یہ ان کے لئے نظام قضا و قدر میں لکھی ہوئی ہے۔ لوح محفوظ میں درج ہے۔ اور اسی وجہ سے اس کا تذکرہ توریت میں بھی آیا ہے اور انسانوں کو ان کے بارے میں خوشخبری دی گئی ہے۔ قبل اس کے وہ اس زمین پر پیدا ہوں۔

ذلک مثلھم فی التورۃ ومثلھم فی الانجیل (48 : 29) ” یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے ”

اللہ نے ان دوسابقہ کتابوں میں حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے رفقاء کی تعریف یوں کی ہے کہ وہ :

کزرع اخرج شطئہ (48 : 29) ” ایک کھیتی کی طرح ہیں جس نے پہلے کونپل نکالی “۔ وہ اس طرح بڑھے جس طرح فصل ابتداء میں کونپلیں نکالتی ہے ، تروتازہ ہوتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ بڑھتی اور قوی ہوتی ہے۔

فازرہ (48 : 29) ” پھر اس کو تقویت دی “۔ یعنی اس کو نپل نے اسے مضبوط کیا۔ یا نال نے اس کو مضبوط کیا۔

فاستغلظ (48 : 29) ” پھر وہ مضبوط سے مضبوط ہوگئی “ یعنی وہ نال اور فصل ۔

فاستوی علی سوقہ (48 : 29) ” پھر وہ تنے پر کھڑی ہوگئی “۔ یعنی وہ فصل اپنی نال ، تنے یا ڈنڈی پر کھڑی ہوگئی ، اب اس میں نہ کمزوری ہے اور نہ جھکاؤ ، مضبوط ہے اور سیدھی ہے۔

یہ تو ہے فصل کی ذاتی صورت حالات۔ لیکن کسان کے نفس پر اس کے کیا اثرات ہیں۔ ماہرین پر اس کے کیا اثرات ہیں جو بڑھنے والے کو بھی جانتے ہیں اور مرجھانے والے کو بھی جانتے ہیں۔ پھلدار کو بھی جانتے اور بےپھل کو بھی۔ تو ایسے لوگوں کے دل میں مسرت دوڑ جاتی ہے۔

یعجب الزراع (48 : 29) ” کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے “۔ اور بعض قراتوں میں الزراع کی جگہ الزارع (بونے والا) آیا ہے ۔ اور مراد ہے رسول اللہ ﷺ سے جو اس بڑھنے والی ، قوی ، تروتازہ اور فرحت بخش فصل کے کسان ہیں۔ پھر کفار کے دلوں پر اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں ؟ وہ غصہ اور جھنجھلاہٹ ۔

لیغیظ بھم الکفار (48 : 29) ” تا کہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں “۔ آخر میں کفار کے غصے کا ذکر کر کے قرآن نے اشارہ کردیا کہ کہیں اس کو لوگوں کی فصل پر ہی چسپاں نہ کرو۔ اس سے مراد اللہ والوں کی فصل ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی فصل ہے اور یہ ان لوگوں کی فصل ہے جو دست قدرت کے آلات ہیں اور کفار کے لئے پریشانی کا باعث ۔

یہ مثال بھی کوئی نئی مثال نہیں ہے کہ کتاب تقدیر کے صفحات میں درج ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ذکر حضرت محمد ﷺ کے زمین پر آنے اور مبعوث کئے جانے سے بھی پہلے اس کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے ۔ اور انجیل میں تو اس کی تصریح موجود ہے کہ محمد اور اس کے ساتھی آئیں گے ۔

یوں اللہ اپنی لازوال کتاب میں اس جماعت کی صفات کو قلم بند فرماتا ہے ۔ یعنی جماعت صحابہ کی۔ یوں اس کائنات کے مرکز میں یہ جماعت قائم ہوتی ہے ۔ پوری کائنات اس کے ساتھ چلتی ہے اور یہ جماعت باری تعالیٰ سے اپنی یہ تعریف سنتی ہے۔ اور پھر آنے والی نسلوں کے لئے ان کی صفت بطور نمونہ ریکارڈ کردی جاتی ہے تا کہ آئندہ کی نسلیں بھی اس معیار کو قائم کرنے کی سعی کریں تا کہ ایمان اپنے اعلیٰ درجات میں قائم ہو۔

جماعت صحابہ کی اس صفت اور تکریم کے بعد پھر اعلان ہوتا ہے کہ ان کے لئے اجر عظیم ہے۔

وعد اللہ الذین ۔۔۔۔ واجرا عظیما (48 : 29) ” اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور اجر کا وعدہ فرمایا ہے “۔ اس جماعت کی صفات کے بعد اب یہ ایک عمومی اعلان ہے اور اس اعلان کے مستفید ہونے والوں میں ظاہر ہے کہ وہ سب سے پہلے داخل ہیں۔ مغفرت اور اجر عظیم۔ یہی ایک اعلان ہی ان کے لئے بڑا اعزاز ہے اور ان کے لئے تو اللہ کی رضا مندی ہی بڑا اجر ہے لیکن اللہ کا فضل و کرم بلا قیود اور بلا حدود ہے اور اللہ کی بخشش بےانتہا و لا محدود ہے۔

میں ایک بار پھر چشم خیال کو کھول کر اس جماعت مکرمہ کو دیکھ رہا ہوں جس کے دل سعید ہیں۔ جو اللہ کے یہ فیوض رحمت اور اعزاز واکرام اور عظیم اجر کے وعدے پار ہے ہیں۔ ان کو سنایا جارہا ہے۔ یہ اعلان کہ اللہ کی کتابوں میں ، اللہ کے پیمانوں میں ، اور اللہ کے ایوانوں میں ان کے لئے یہ ہے ، یہ ہے ۔ حدیبیہ سے یہ واپس ہورہے ہیں اونٹوں کی رفتار کے گردو غبار میں یہ سورت سنتے ہیں ، اب یہ ان کی روح اور ان کی زندگی ہے ۔ ان کے کانوں اور ارواح میں یہ اتر رہی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور مسکراتے ہیں اور ان کا وجود ہی اللہ کا مجسم فضل و کرم ہے۔۔۔۔ میں چشم تصور سے ان کو دیکھ کر ذرا ان کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔ ذرا مجھے بھی ان کے ساتھ چند قدم چلنے دو ، لیکن جو شخص ان کی راہ پر نہیں چلا وہ اس چشن فتح میں کیا شریک ہو سکتا ہے ؟ نہیں وہ دور ہی سے دیکھتا رہے گا۔۔۔۔۔ اللہ ! تو ہی کسی کو یہ اعزاز بخش سکتا ہے کہ وہ دور سے نجات کو نہ دیکھے بلکہ اس جشن میں کود پڑے۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں اس جشن میں کودنے کے لئے بےتاب ہوں !

آیت 29 { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } ”محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں ‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں“ آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ اگر پہلا فقرہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط پر مکمل کردیا جائے اور وَالَّذِیْنَ سے دوسرا فقرہ شروع کیا جائے تو آیت کا مفہوم وہی ہوگا جو اوپر ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔ لیکن اگر پہلے فقرے کو وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ تک پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی ایک وحدت اور ایک جماعت ہیں۔ اس طرح دوسرے فقرے میں بیان کی گئی دو خصوصیات اس جماعت کی خصوصیات قرار پائیں گی۔ یعنی اللہ کے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت شفیق و مہربان ہیں۔ اہل ایمان کی اس شان کا ذکر زیر مطالعہ آیت کے علاوہ سورة المائدۃ آیت 54 میں بھی ہوا ہے۔ وہاں مومنین صادقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا : { اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز } ”وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت بھاری ہوں گے“۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ! یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ آیت بیعت کے تذکرے کے بعد آئی ہے۔ اس ترتیب سے گویا یہ یاددہانی کرانا مقصود ہے کہ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ } کے الفاظ میں جس جماعت کا ذکر ہوا ہے وہ بیعت کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کی سیرت سے جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص آپ ﷺ پر ایمان لاتا ‘ آپ ﷺ اس سے بیعت لیتے تھے ‘ یہ ایمان کی بیعت تھی۔ لیکن سیرت کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہل مکہ میں سے آپ ﷺ نے کسی سے ایمان کی بیعت کبھی نہیں لی ‘ بلکہ اہل مکہ میں سے جو کوئی ایمان لانا چاہتا وہ کلمہ شہادت پڑھتا اور بس حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔ اس کے لیے کسی علامتی اقدام کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہاں اگر کوئی شخص باہر سے آتا تو اس سے آپ ﷺ ایمان کی بیعت لیتے تھے۔ اس کے علاوہ مکی دور میں آپ ﷺ نے دو بیعتوں کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا تھا۔ یعنی بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ۔ ان میں بیعت عقبہ ثانیہ وہ بیعت ہے جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک ”جماعت“ بنے تھے۔ اس بات کی گواہی اس بیعت کے الفاظ بھی دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک متفق علیہ روایت کے مطابق حضرت عبادہ بن صامت رض سے اس طرح نقل ہوئے ہیں : بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ، فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ، وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ، وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا ، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 1”ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل ‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے ‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں ‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے ‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بےخوف رہیں گے۔“ غور کیجئے ‘ اس بیعت کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کس قدر اہم اور سبق آموز ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول ﷺ سے کہ ہم آپ ﷺ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے۔ خواہ مشکل ہو ‘ خواہ آسانی ہو ‘ خواہ اس کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں ‘ خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے…یعنی ہم کبھی شکایت نہیں کریں گے کہ ہم آپ ﷺ کے پرانے ساتھی ہیں جبکہ آپ ﷺ ہمارے اوپر ایک نوواردکو امیر کیوں مقرر کر رہے ہیں ؟ بس یہ آپ ﷺ کا اختیار ہوگا کہ آپ ﷺ جس کو چاہیں امیر مقرر کریں ‘ آپ ﷺ جو فیصلہ چاہیں کریں… اور یہ کہ ہم آپ ﷺ کے مقرر کردہ امیر سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے…اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی بہت واضح ہے : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ 1”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“ اطاعت امیر کے حوالے سے یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جماعتی زندگی میں ”امیر“ صرف ایک نہیں ہوتابل کہ مختلف سطحوں پر اوپر نیچے بہت سے ”اُمراء“ ہوتے ہیں۔ جیسے فوج کا ایک سپہ سالار ہوتا ہے ‘ اس کے نیچے مختلف رجمنٹس ‘ بٹالینز ‘ کمپنیز اور پلاٹونز کے اپنے اپنے کمانڈرز ہوتے ہیں ‘ اسی طرح ایک تنظیم کا ایک مرکزی امیر ہوگا ‘ پھر صوبائی اُمراء ‘ ڈویثرنل امراء ‘ ضلعی امراء ہوں گے اور ان سب امراء کا سلسلہ وار سمع وطاعت کا نظام ہوگا۔ حضور ﷺ کی مذکورہ بیعت کی یہ آخری شق بھی بہت اہم ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔ یعنی مشورہ مانگا جائے گا تو بےلاگ مشورہ دیں گے ‘ اپنی رائے کو چھپا کر نہیں رکھیں گے۔ -۔ اس حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک مامور کی ذمہ داری صرف مشورہ دینے کی حد تک ہے۔ اس کے بعد امیر جو فیصلہ بھی کرے اسے دل و جان سے تسلیم کرنا اس پر لازم ہے ‘ جیسا کہ سورة محمد ﷺ کی آیت 21 کے الفاظ { فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُقف } سے واضح ہوتا ہے کہ جب فیصلہ ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت لازم ہے۔ بہر حال جب منہج ِانقلاب نبوی میں اقدام کا مرحلہ آنے کو تھا ‘ Passive Resistance تبدیل ہورہی تھی Active Resistance میں ‘ تو مسلمانوں میں ایک باقاعدہ جماعت کا نظم وجود میں آیا اور اس نظم کی بنیاد بیعت عقبہ ثانیہ بنی۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ } میں اسی جماعت اور اسی نظم کی طرف اشارہ ہے۔ { تَرٰٹہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًاز } ”تم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے ‘ سجدہ کرتے ہوئے ‘ وہ ہر آن اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں“ { سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ } ”ان کی پہچان ان کے چہروں پر ظاہر ہے سجدوں کے اثرات کی وجہ سے۔“ سجدوں کے نشان سے عام طور پر پیشانی کا گٹہ ّمراد لے لیا جاتا ہے جو بعض نمازیوں کے چہروں پر کثرت سجود کی وجہ سے پڑجاتا ہے۔ لیکن یہاں اس سے اصل مراد ایک نمازی اور متقی مومن کے چہرے کی وہ نورانیت اور خاص کیفیت ہے جو اس کے عمل و کردار کی غمازی کرتی محسوس ہوتی ہے۔ { ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ } ”یہ ہے ان کی مثال تورات میں۔“ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رض کی یہ تمثیل تورات میں بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات اور انجیل میں قطع و برید کر کے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رض کے بارے میں پیشین گوئیوں کو بالکل مسخ کردیا ہے ‘ تاہم آج بھی تورات اور انجیل دونوں میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق نبی آخرالزماں ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کتاب استثناء ‘ باب 33 ‘ آیت 2 ملاحظہ ہو : ”خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ‘ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔“ { وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَـہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ } ”اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی کو نپل ‘ پھر اس کو تقویت دی ‘ پھر وہ سخت ہوئی ‘ پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔“ { یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ } ”یہ کا شتکار کو بڑی بھلی لگتی ہے“ یہ ایک کھیتی کی مثال ہے۔ بیج کو جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اس سے ایک چھوٹی سی نرم و نازک کو نپل پھوٹتی ہے ‘ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے ‘ پھر اس کا تنا بنتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک مضبوط پودے کی صورت میں بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس طرح جب ایک کھیتی کے تمام پودے اپنے جوبن پر ہوں اور فصل خوب لہلہا رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر کاشتکار کا دل بھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ { لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ } ”تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔“ اس آخری جملے میں گویا واضح کردیا گیا کہ اس مثال یا تشبیہہ کے پردے میں جس کھیتی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل صحابہ کرام رض کی جماعت ہے اور اس کھیتی کا کاشتکار خود اللہ کا رسول ﷺ ہے۔ چشم تصور سے اس جماعت کے ماضی میں جھانکیں تو ہمیں چند سال پہلے کا وہ نقشہ نظر آئے گا جب سر زمین مکہ میں دعوت کے بیج سے ایک ایک کر کے اس کھیتی کی نرم و نازک کو نپلیں نمودار ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کو نپلوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بل پر کھڑی ہوسکتیں۔ جناب ابو طالب کے انتقال کے وقت مکہ میں بمشکل ڈیڑھ سو مسلمان تھے۔ خود حضور ﷺ کے قبیلے نے آپ ﷺ سے تعلق توڑ لیا تھا اور قبیلے کی حمایت کے بغیر مکہ میں رہنا بھی بظاہر آپ ﷺ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر آپ ﷺ اپنی دعوت اور تحریک کے متبادل مرکز کی تلاش میں طائف تشریف لے گئے تھے۔ لیکن وہاں سے بہت تکلیف دہ حالت میں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا تھا۔ طائف سے واپسی تک صورت حال اس حد تک گھمبیر ہوچکی تھی کہ آپ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے ایک مشرک مطعم بن عدی کی امان لیناپڑی تھی۔ ایک صورت حال وہ تھی جو ُ کل سرزمین مکہ میں اہل ایمان کو برداشت کرنا پڑی تھی اور ایک منظر یہ تھا جس کا نظارہ آج حدیبیہ کا میدان کر رہا تھا ‘ جہاں چودہ سو یا اٹھارہ سو مجاہدین کی سربکف جمعیت سر کٹانے کے لیے بےتاب و بےقرار تھی۔ ان کا نظم و ضبط ‘ ان کا جذبہ ایثار ‘ بیعت علی الموت کے لیے ان کا جوش و خروش ‘ پھر جنگ کے ٹل جانے اور جانوں کے بچ جانے پر ان کا ملال اور بظاہر دب کر صلح کرنے پر ان کا رنج۔ غرض ان کی ہر ادا نرالی اور ان کا ہر انداز انوکھا تھا۔ یہ تھی وہ کھیتی جو آج حدیبیہ کے میدان میں لہلہاتی ہوئی دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔ اس کھیتی کے جوبن کی اس نرالی شان کو آج ملائکہ مقربین بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوں گے اور اس کے ”نگہبان“ کے اندازِ نگہبانی کی تحسین کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کے ترانے الاپتے ہوں گے۔ ”لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ“ کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اس کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو قرآن حکیم اس کے ایمان کی نفی کر رہا ہے۔ صحابہ رض سے بغض ہو اور دعویٰ ایمان کا ہو تو اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں۔ { وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا } ”اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ مغفرت اور اجر عظیم کا۔“ تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ رض ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرچکے تھے ‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کردیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے ‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہوجائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا ہے ‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلادیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کرلینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ”بین الخوف و الرجاء“ کی کیفیت میں رہے۔

تصدیق رسالت بزبان الہ ان آیتوں میں پہلے نبی ﷺ کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت (اذلتہ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنیوالا اور کفر سے ناخوش رہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ01203) 9۔ التوبہ :123) ایمان والو اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو وہ تم میں سختی محسوس کریں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بیقرار ہوجاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہوجاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے جیسے فرمایا آیت (وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 72؀) 9۔ التوبہ :72) اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے، حضرت منصور حضرت مجاہد سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑجاتا ہے آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں حضرت سدی فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کردیتی ہے بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہوگا۔ حضرت جابر کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے روزی میں کشادگی ہوتی ہے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور اسکی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کردیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے پس مومن جب اپنے دل کو درست کرلیتا ہے اپنا باطن سنوار لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کردیتا ہے، طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی۔ لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو۔ مسند کی اور حدیث میں ہے نیک طریقہ، اچھا خلق، میانہ روی نبوۃ کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے۔ الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا حضرت امام مالک کا فرمان ہے کہ جن صحابہ نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بےساختہ پکار اٹھتے اللہ کی قسم یہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہوجاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے ؟ اسی طرح اصحاب رسول ﷺ ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لئے کہ کفار جھینپیں۔ حضرت امام مالک نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔ علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں ؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ (منھم) میں جو (من) ہے وہ یہاں بیان جنس کے لئے ہے اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں اللہ ان سے خوش اللہ ان سے راضی یہ جنتی ہوچکے اور بدلے پالئے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں میرے صحابہ کو برا نہ کہو ان کی بےادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پاسکتا۔ الحمد اللہ سورة فتح کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 29 - سورۃ الفتح: (محمد رسول الله ۚ والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم ۖ تراهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا...) - اردو