سورۃ الفتح: آیت 1 - إنا فتحنا لك فتحا مبينا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الفتح

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fatahna laka fathan mubeenan

آیت 1 کی تفسیر

اس سورت کا آغاز نبی ﷺ کے اوپر ایک فضل و کرم کے ذکر سے ہوتا ہے۔ کہ آپ ﷺ کو فتح مبین بھی عطا کردیا گیا ہے اور آپ کے اگلے اور پچھلے سب ذنوب معاف کر دئیے گئے۔ آپ ﷺ پر اپنی نعمتیں تمام ہوگئیں ، آپ ﷺ کو مستقل ہدایت نامہ دے دیا گیا اور ایک زبردست نصرت اور فتح بھی دے دی گئی۔ اور یہ ہے صلہ اس گہرے اطمینان اور صبر کا جن کے ساتھ آپ نے ہدایات الٰہیہ پر عمل کیا۔ اور اس بات کا کہ آپ نے اللہ کی جانب سے وحی اور الہامات و ہدایات پر پورا پورا عمل کیا۔ اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو ترک کردیا اور اللہ کی نگرانی پر پورا پورا بھروسہ کیا۔ آپ نے ایک خواب دیکھا ، اس کے مطابق آپ حرکت میں آگئے ۔ آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی اور لوگ چیخے کہ “ قصواء ” نے چلنے سے انکار کردیا۔ اڑ گئی۔ لیکن آپ ﷺ نے اس سے کوئی اور اشارہ لیا۔ “ قصواء اڑ نہیں گئی اور نہ اس کی یہ عادت ہے لیکن اسے اس ذات نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا ۔ اگر قریش آج کوئی بھی ایسا منصوبہ مجھے دیں جس میں صلہ رحمی کی درخواست ہو تو میں منظور کر دوں گا ”۔ حضرت عمر ابن الخطاب آپ سے نہایت ہی جوش میں پوچھتے ہیں “ کیا ہمیں اپنے دین میں ذلت نہیں دی جارہی ہے ؟” آپ ﷺ جواب دیتے ہیں “ میں اللہ کا بندہ ہوں ، رسول ہوں ، میں اس کے حکم کی مخالفت نہیں کرسکتا اور انشاء اللہ وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا ”۔ یہ تو رہی صلح کی بات لیکن جب اطلاع آتی ہے کہ حضرت عثمان ؓ قتل ہوگئے تو آپ ﷺ فرماتے ہیں “ ہم اس وقت تک ڈٹے رہیں گے جب تک قوم سے انتقام نہ لے لیں ”۔ لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا جاتا ہے۔ یہ بیعت ، بیعت الرضوان قرار پاتی ہے اور اس سے ان لوگوں کو بھلائی نصیب ہوتی ہے اور یہ ان کے لئے رتبہ بلند تھا جنہوں نے اس میں حصہ لیا ۔

یہ سورت دراصل فتح عظیم تھی۔ اور صلح حدیبیہ بھی دراصل فتح عظیم تھی ، کیونکہ اس کے نتیجے میں بیشمار فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔ یہ دعوت اسلامی کے زاویہ بھی فتح تھی۔ امام زہری کہتے ہیں اس سے قبل اسلام کو جو فتوحات ملی تھیں یہ ان سے بڑی فتح تھی۔ اس سے قبل یہ تھا کہ لوگ جہاں بھی ملتے جنگ ہوتی۔ جب صلح ہوگئی اور حالت جنگ ختم ہوگئی اور لوگوں کو ایک دوسرے کی جانب سے امن نصیب ہوگیا ، ملنا جلنا آزاد ہوگیا تو انہوں نے اسلام کے موضوع پر بحث و مکالمہ شروع کردیا۔ اسلام کے بارے میں جس شخص نے معقول گفتگو کی وہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ صلح حدیبیہ اور فتح کے درمیان دو سالوں میں اس قدر لوگ مسلمان ہوگئے کہ ان کی تعداد سابقہ تمام عرصے کے مسلمانوں کے برابر تھی یا زیادہ تھی۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ زہری کی بات پر دلیل یہ ہے کہ جابر بن عبد اللہ کے قول کے مطابق حضور اکرم ﷺ حدیبیہ کی مہم پر چودہ سو افراد لے کر نکلے تھے لیکن ٹھیک دو سال بعد جب مکہ پر حملہ ہوا تو آپ کے ہم رکاب دس ہزار زائد افراد تھے۔ اور اس عرصہ میں خالد ابن ولید اور عمر ابن العاص ؓ مسلمان ہوئے۔

زمین پر یہ فتح یوں تھی کہ مسلمان قریش کے شر سے محفوظ ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کو موقعہ مل گیا کہ جزیرۃ العرب کو یہودیوں کے باقی خطرات سے پاک فرما دیں۔ بنی قینقاع ، بنی النضیر اور بنو قریظہ کو اس سے قبل ختم کردیا گیا تھا۔ یہ خطرہ اب خیبر کے محفوظ قلعوں میں موجود تھا۔ کیونکہ خیبر کے یہ قلعے شام کے راستے میں واقع تھے۔ چناچہ حدیبیہ کے بعد اللہ نے خیبر کا علاقہ بھی مسلمانوں کو دے دیا ۔ اور نبی ﷺ نے خیبر کے علاقے اور غنائم کو صرف ان لوگوں میں تقسیم کیا جو حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ان کے علاوہ کسی کو کچھ نہ دیا۔

یہ مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ کے قریش کی طویل جنگ میں مسلمانوں کی فتح تھی۔ استاذ محمد دروزہ اپنی کتاب سیرۃ الرسول میں فرماتے ہیں :

“ اس میں شک نہیں کہ یہ صلح جسے قرآن کریم نے فتح قرار دیا اسے ہر مفہوم میں مسلمانوں کی فتح سمجھنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے سیرۃ النبی کے فیصلہ کن واقعات میں شمار کرنا چاہئے۔ یہ واقعہ اسلام کی تاریخ میں اسلام کی قوت اور استحکام کا سبب بنا۔ ایک بڑا مفید واقعہ تو وہ بہرحال تھا ہی۔ اس صلح کے ذریعہ قریش نے پہلی مرتبہ اسلامی حکومت اور نبی ﷺ کی حیثیت کو تسلیم کیا اور مسلمانوں کو انہوں نے اپنے برابر کی قوت تسلیم کیا بلکہ قریش نے اسلامی حکومت کا دفاع کیا۔ اس سے پہلے دو سالوں میں قریش نے دو مرتبہ مدینہ پر حملہ کیا اور جنگ احزاب تو حدیبیہ سے ایک سال قبل ہوتی تھی جس میں قریش بیشمار احزاب کو لے کر مدینہ پر چڑھ آئے تھے تا کہ مومنین اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اور غزوۂ احزاب کے درمیان اہل ایمان کی صفوں میں بےحد اضطراب پیدا ہوگیا تھا اور ایک عام بےچینی سی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ مدینہ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی اور جنگ احزاب کا پورے عالم عرب پر اثر تھا کیونکہ تمام عرب اہل قریش کی پیروی کرتے تھے اور وہ قریش کے سخت موقف سے متاثر ہوتے تھے۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ مدینہ کے اردگرد کے دیہاتی اور منافق یہ پیشن گوئیاں کرتے تھے کہ اس جنگ سے مسلمان کسی صورت میں صحیح سالم اپس نہ آسکیں گے اور وہ ہر قسم کا سوئے ظن رکھتے تھے۔ تو اس صورت میں اس فتح کی اہمیت اور ظاہر ہوجاتی ہے اور اس کے اثرت دوررس ثابت ہوتے ہیں ”۔

“ بعد کے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ نبی ﷺ کا جو الہام تھا ، وہ درست تھا اور یہ کہ قرآن کریم نے بھی اس کی تائید کردی۔ اور اس صلح کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت ہی عظیم مادی معنوی اور دعوتی فوائد حاصل ہوئے۔ نیز جنگی اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی پوزیشن بہت ہی مضبوط ہوگئی۔ قبائل کی نظروں میں مسلمان ایک مضبوط قوت بن گئے اور واپس ہوتے ہی مدینہ کے گرد کے جو قبائل پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر عذرات پیش کرنے لگے۔ مدینہ کے اندر منافقین کی آواز دبنے لگی اور وہ کمزور ہوگئے۔ اور ہر طرف سے عرب وفود نبی ﷺ کی خدمت میں آنا شروع ہوگئے اور یہودیوں کی قوت کو خیبر اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے ہٹا دیا گیا۔ یہ لوگ شام کے راستے پر پھیلے ہوئے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے لئے ممکن ہوگیا کہ آپ نجد ، یمن اور بلقا جیسے دور دراز علاقوں میں فوجی مہمات ارسال کریں۔ اور ٹھیک دو سال بعد حضور ﷺ نے مکہ کو دس ہزار کے لشکر کے ساتھ فتح کیا۔ یہ فیصلہ کن فتح تھی کہ جب اللہ کی مدد آئی اور فتح مکمل ہوئی اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے ”۔

میں یہ کہتا ہوں کہ ان تمام پہلوؤں کے سوا ایک دوسرا پہلو ہے جس کے زاویہ سے یہ فتح عظیم تھی۔ اس سے اسلام کے لئے لوگوں کے دل و دماغ فتح ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں بیعت الرضوان کا واقعہ پیش آیا جس میں مسلمانوں نے موت اور عدم فرار پر بیعت کی اور اللہ نے اعلان کردیا کہ درخت کے نیچے جن لوگوں نے بیعت کی ان سے اللہ راضی ہوگیا ہے۔ اور قرآن میں اس اعلان کا اندارج ہوگیا اور پھر محمد ﷺ کی انقلابی لیڈر شپ اور انقلابی جماعت کے خدو خال اور اوصاف کو اس سورت میں اس فتح کے نتیجے میں قلم بند کردیا گیا۔

محمد رسول اللہ ۔۔۔۔۔ واجرا عظیماً (48 : 29) “ محمد ، اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلب میں پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں۔ جن سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی۔ پھر اس کو تقویت دی پھر وہ گدرائی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تا کہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ”۔

میں کہتا ہوں اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بہت ہی بڑی فتح ہے جو کسی جماعت کو حاصل ہوئی۔ اس کے آثار کافی دیر تک اسلامی تاریخ میں نکلتے رہے۔

پھر اس کے نتیجے میں سورت فتح نازل ہوئی۔ جس پر حضور اکرم ﷺ بہت ہی خوش تھے۔ حضور ﷺ پر اللہ کی رحمتوں کی بارش یوں ہوئی کہ اگلے پچھلے قصور معاف ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھی مومنین پر یہ فیض ہوا کہ اللہ ان سے راضی ہوا۔ حضور ﷺ کو مکمل ہدایت دی گئی اور عظیم نصرت دی گئی اور پھر جماعت اہل ایمان کو تورات ، انجیل اور قرآن کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا “ گزشتہ رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی جو اس تمام دولت سے زیادہ قیمتی ہے جس پر کبھی سورج طلوع ہوا ہے ”۔ اور آپ نے رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ان نعمتوں پر آپ ﷺ اور طویل ترین نمازیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ نماز پڑھنے کے لئے اٹھتے تو آپ کے پاؤں سوج جاتے۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں تو آپ ﷺ کیوں اس قدر تکلیف کرتے ہیں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : “ اے عائشہ ! کیا میں گزار بندہ نہ بنوں ”۔

یہ افتتاح تو حضور ﷺ کا حصہ تھا۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اس فتح کے ذریعے مسلمانوں پر کس قدر انعامات کئے گئے اور اللہ نے اپنے دست قدرت سے کس طرح ان کے دلوں پر سکینہ اتارا۔ اور آخرت میں ان کے لئے یہ بخشش اور فوز عظیم کے انعامات ہوں گے۔

آیت 1 { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ”یقینا ہم نے آپ ﷺ کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔“

ذی قعدہ سنہ006ہجری میں رسول اللہ ﷺ عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور حضور ﷺ نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کرلی جسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی جس میں خاص قابل ذکر ہستی حضرت عمر فاروق کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آرہا ہے، انشاء اللہ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا۔ ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے۔ حضرت جابر سے بھی یہی مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہوگیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت حضور ﷺ کے کانوں میں پہنچی آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لئے۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے حضور ﷺ کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بےادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو چناچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا تھوڑی دیر گذری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں حضور ﷺ یاد فرماتے ہیں اب تو میرے ہوش گم ہوگئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا جلدی جلدی حاضر حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے آیت (اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ) 48۔ الفتح :1) ، تلاوت کی۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے آیت (لیغفرک لک اللہ) الخ، نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ سنائی صحابہ آپ کو مبارکباد دینے لگے اور کہا حضور ﷺ یہ تو ہوئی آپ کے لئے ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت (لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۙ) 48۔ الفتح :5) نازل ہوئی (بخاری و مسلم) حضرت مجمع بن حارثہ انصاری جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آرہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لئے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے آپ اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی تھی ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے یہ فتح ہے، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا۔ (ابو داؤد وغیرہ) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گذارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے، دیکھا رسول اللہ ﷺ بھی سوئے ہوئے ہیں ہم نے کہا آپ کو جگانا چاہیے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے۔ اسی سفر میں حضور ﷺ کی اونٹنی کہیں گم ہوگئی ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر حضور ﷺ کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورة (اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ) 48۔ الفتح :1) ، اتری ہے (ابو داؤد، ترمذی مسند وغیرہ) حضور ﷺ نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دیئے ؟ آپ نے جواب دیا کیا پھر میں اللہ کا شکر گذار غلام نہ بنوں ؟ (بخاری ومسلم) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المومنین عائشہ تھیں (مسلم) پس مبین سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیرو برکت حاصل ہوئی لوگوں میں امن وامان ہوا مومن کافر میں بول چال شروع ہوگئی علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔ ہاں بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لئے بھی آئے ہیں، اس میں حضور ﷺ کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الہٰی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کم اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے۔ اور چونکہ حضور ﷺ سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے اسی لئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کرلیا تو اللہ عزوجل نے فتح سورت اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند وبالا کیا آپ کی تواضع، فروتنی، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عز و جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چناچہ خود آپ کا فرمان ہے بندہ درگذر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سزا نہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔

آیت 1 - سورۃ الفتح: (إنا فتحنا لك فتحا مبينا...) - اردو