سورۃ الفلق: آیت 1 - قل أعوذ برب الفلق... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الفلق

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلْفَلَقِ

اردو ترجمہ

کہو، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul aAAoothu birabbi alfalaqi

آیت 1 کی تفسیر

اس سورت میں اللہ اپنی وہ صفات بیان فرماتا ہے ، جس کے ذریعہ اس شر سے پناہ حاصل ہوتی ہے ، جس کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔

قل اعوذ ................ الفلق (1:113) ” کہو ، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی “۔ فلق کے معانی میں سے ایک معنی صبح کا ہے اور ایک معنی ” مخلوق “ کا بھی ہے۔ بایں معنی کہ ہر وہ چیز جس سے وجود اور زندگی پھوٹتی ہے جس طرح سورة انعام (95) میں کہا گیا ہے۔

ان اللہ فالق ........................................ من الحی (95:6) ” اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالنے والا ہے “۔ اور اگلی آیت (96) میں ہے۔

فالق الاصباح ............................ حسبانا (96:6) ” وہ صبح کو پھاڑ کر نکالنے والا ہے ، اس نے رات کو وجہ سکون بنایا۔ اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا “۔

اگر فلق کے معنی صبح کے لئے جائیں تو معنی یہ ہوں گے۔ صبح کے وہ رب جو روشنی پھیلا کر ہر چیز کو اس شر سے محفوظ کردیتا ہے جو اندھیروں میں مستور ہوتی ہے اور اگر فلق سے مراد مخلوق ہو تو معنی یہ ہوں گے۔ پناہ مانگتا ہوں مخلوق کے رب کی جو اپنی مخلوق کے شر سے پنا دینے والا ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں مفہوم بعد کے فقرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

من شرما خلق (2:113) ” ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی یعنی مطلق اور اجمالاً تمام مخلوق کے شر سے۔ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض جب بعض سے ملتی ہیں تو اس اتصال سے بعض اوقات شر پیدا ہوتا ہے جبکہ بعض حالات میں مخلوقات کے ملاپ اور اتصال سے خیر اور نفع پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا بتایا جاتا ہے کہ مخلوق کے شر سے پناہ مانگو تاکہ خیر ہی خیر رہ جائے۔ اور اللہ کی ذات جو اس مخلوقات کی خالق ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اس کو ایسی راہ کی ہدایت دے اور ایسی تدابیر کرے کہ ان سے خیر نمودار ہو اور شر کا ظہور نہ ہو۔

ومن شر ................ وقب (3:113) ” اور رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ چھا جائے “۔ غاسق کے لغوی معنی کودنے والے کے ہوتے ہیں اور وقب پہاڑ کے اس سوراخ کو کہتے ہیں جس سے پانی نکلتا ہے۔ یہاں غاسق سے مراد رات ہے یعنی رات اور اس میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں یعنی وہ رات جب وہ پھوٹ کر زمین پر چھا جاتی ہے۔ یہ رات بذات خود خوفناک ہوتی ہے اور اس وقت اس کی خوفناکی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب اس میں ہر خفیہ اور نامعلوم خطرہ درپیش ہوسکتا ہے مثلاً کوئی وحشی درندہ حملہ آور ہوجائے ، کوئی چور گھس جائے۔ کوئی فریب دہندہ دشمن ہاتھ دکھاجائے۔ کوئی زہریلا مکوڑا اور سانپ کاٹ جائے۔ پھر رات کے وقت خیالات ووساوس انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دکھ اور درد یاد آتے ہیں۔ شعور وجذبات اور خواہشات ومیلانات کی گھٹن زوروں پر ہوتی ہے ، اور تمام شیطانی قوتیں کھل جاتی ہیں اور ہر طرف سے برے اشارے ملتے ہی ، اور انسانی شہوت رات کو زوروں پر ہوتی ہے۔ غرض رات کے ہر ظاہری اور خفیہ بلائیں حملہ آور ہوتی ہیں کیونکہ اس وقت اندھیرے چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔

ومن شر .................... فی العقد (4:113) ” اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے “۔ گرہوں میں پھونکنے والیاں کون ہیں ؟ وہ جادوگرنیاں جو انسان حواس پر سحرانگیزی کرکے اذیت دیتی ہیں جو اعصاب کو دھوکہ دیتی ہیں ، انسانی نفس کو اشارات دیتی ہیں اور انسانی شعور کو متاثر کرتی ہیں ۔ جو دھاگوں میں گرہیں ڈالا کرتی تھیں اور ان میں پھونکا کرتی ہیں جیسا کہ جادوگروں کی عادت ہوتی ہے۔

جادو چیزوں کی حقیقت اور ماہیت نہیں بدل سکتا۔ نہ کوئی نئی حقیقت پیدا کرسکتا ہے البتہ احساس و شعور پر ایسی تخیلاتی حالت طاری ہوجاتی ہے جس طرح کہ جادوگرچاہتا ہے۔ جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں سورة طہ (65 تا 69) میں قرآن کریم اس کی تصویر کشی کی ہے۔

قالوا یموسی .................................... الساحر حیث اتی (65:20 تا 69) ” جادوگربولے : موسیٰ تم پہلے پھینکتے ہو یا ہم پہلے پھینکیں ؟ موسیٰ نے کہا : ” نہیں تم ہی پھینکو “۔ یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ، ان کے جادو کے زور سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہونے لگیں اور موسیٰ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا مت ڈرو ، تو ہی غالب رہے گا ۔ پھینک جو تیرے ہاتھ میں ہے۔ ابھی ان کی ساری بناﺅٹی چیزوں کو نگل جاتا ہے۔ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادو کا فریب ہے۔ اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ کسی شان سے وہ آئے “۔

ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں سانپ نہ بن گئے تھے۔ البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عوام نے یہ خیال کیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ ہیں۔ یہاں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے نفس میں ڈر گئے اور اللہ کی طرف سے ان کو تسلی دینے کی ضرورت پیش آئی ۔ لیکن حقائق اس وقت سامنے آئے جب عصائے موسیٰ فعلااژدھا بن گیا اور ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل گیا۔

یہ ہے حقیقت سحر اور ہمیں چاہئے کہ ہم اسے اسی طرح تسلیم کریں۔ اس طرح یہ جادو لوگوں پر اثر ڈالتا ہے اور جادوگروں کے اشارے کے مطابق لوگوں کے حواس کو متاثر کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات اور انسانی شعور میں خوف پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔ اور انسانی حواس اس طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جدھر جادو گر چاہتا ہے۔ جادو گری کی حقیقت بیان کرنے اور گرہوں میں پھونکنے کے مفعوم میں بس یہی کافی ہے۔ یہ ایک شر ہے جس سے بچنے کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ مانگو اور اللہ کی پناہ میں آجاﺅ۔

بعض روایات میں آتا ہے۔ ان میں سے بعض اگرچہ متواتر نہیں مگر صحیح ہیں کہ لبید بن اعصم یہودی نے مدینہ میں نبی ﷺ پر جادو کیا تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ اس کا اثر چند دن تک رہا اور بعض میں آتا ہے کہ کئی مہینوں تک رہا۔ یہاں تک کہ آپ یہ خیال کرتے کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ نہ گئے ہوتے تھے۔ اور بعض اوقات یوں محسوس کرتے کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے ، حالانکہ آپ نے نہ کیا ہوتا تھا ، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے اور پھر یہ سورتیں اس جادو کے بتانے کے لئے جھاڑ پھونک کے لئے نازل ہوئیں اور جب جادو کی وہ چیز حاضر کرلی گئی اور اس پر یہ سورتیں پڑھی گئیں تو وہ گرہیں کھل گئیں اور وہ برا اثر ختم ہوگیا۔ جس طرح بعض روایات میں آتا ہے۔

لیکن یہ روایات عصمت انبیاء کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہیں کہ آپ اپنے تمام افعال اور تبلیغ میں معصوم عن الخطاء ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال وافعال سنت اور شریعت ہیں۔ یہ روایات اس سے بھی متصادم ہیں۔ پھر قرآن نے صراحت سے اس الزام کی تردید کی ہے کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے کیونکہ مشرکین یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے تب آپ یہ باتیں کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے نزدیک یہ روایات مستعبد ہیں۔ پھر خبر واحد کے ساتھ عقائد کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عقائد کا ماخذ قرآن ہے اور احادیث سے عقائد تب ہی ثابت ہوتے ہیں جب وہ تواتر کی حد تک پہنچ جائیں اور جن روایات کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ متواتر نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ راجح قول یہ ہے کہ یہ سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں جس سے ان روایات کی بنیاد ہی کمزور ہوجاتی ہے۔

ومن شر .................... اذا حسد (5:113) ” اور حاسد کے شر کے لئے جب وہ حسد کرے “۔ حسد کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے اوپر اللہ کا کرم دیکھ کر کوئی برا تاثر لے اور یہ خواہش کرے کہ اس بندے پر سے اللہ کی نعمت زائل ہوجائے۔ چاہے اس تاثر کے بعد حاسد اس بندے سے نعمتوں کے دور کرنے کے لئے سعی بھی کرے۔ یا محض ذہنی تاثر کی حد تک رک جائے کیونکہ اس تاثر کے بعد ممکن ہے کہ وہ اس بندے کے خلاف کوئی شر عملاً بھی اٹھائے۔

اس کائنات کے بعض اسرار ، نفس انسانی کے بعض راز اور جسم انسانی کے بعض رموز ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں ابھی تک ہمار علم نامکمل ہے۔ اس لئے ہمیں بہت سختی سے ان کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ بعض پراسرار واقعات ان میدانوں میں واقع ہوتے ہیں اور ہم ان کی ماہیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ مثلاً دور سے خیالات کی منتقلی کا عمل ، جب دو افراد کے درمیان رابطہ ہوجاتا ہے ، ایسے روابط کی خبریں اس قدر تواتر سے آرہی ہیں کہ انسان ان میں شک نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس پر بہت تجربات ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں اور جو معلومات ہمیں دستیاب ہیں ان کی کوئی معقول توجیہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ مثلاً مقناطیسی عمل تنویم جو آج کل مکرر تجربے میں آرہا ہے لیکن اس کے راز سے کوئی واقف نہیں ہے۔ دور سے خیالات کی منتقلی اور مقناطیسی عمل تنویم (ہپنائزم) کے علاوہ جسم انسانی اور انسانی نفسیات کے بہت افعال جن کی تہہ تک ابھی تک انسان نہیں پہنچا۔

حاسد جدوجہد کرتا ہے اور اپنے اس تاثر کو اس شخص کی طرف بطور شر منتقل کرتا ہے تو ہم اس آثار کی اس منتقلی کا محض اس لئے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارے علم اور ہمارے آلات تجربہ کی رو سے اس انتقال کی کیفیت کو ابھی سمجھ نہیں سکے۔ اس لئے کہ نفس انسانی کے بارے میں ہماری معلومات ابھی تک ابتدائی ہیں اور یہ قلیل علم جو ہمیں حاصل ہوا ہے وہ محض اتفاقی طور پر ہمیں حاصل ہوا ہے ۔ اس کو حقیقت کی شکل دینا ابھی تک باقی ہے۔

بہرحال حاسد کا شر ہوتا ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہیے اور اللہ کی حفاظت میں اپنے آپ کو داخل کرنا چاہئے۔ یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ وہ اپنے رسول کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آئیں اور آپ کے واسطہ سے آپ کے بعد آنے والی پوری امت کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بھی اللہ کی پناہ میں آئے۔ جو ہر قسم کے شر سے پناہ گاہ فراہم کرنے والا ہے۔

امام بخاری نے ، اپنی سند کے ساتھ ، حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم جب رات بستر پر لیٹتے تو دونوں ہتھیلیوں کو ملالیتے ، پھر ان میں۔

قل ھو اللہ احد ........................ برب الناس (1:114) پڑھ کر پھونکتے۔ اور پھر پورے جسم پر ہتھیلیوں کو پھیرتے ، جہاں تک ممکن ہوتا ۔ سر اور چہرے سے شروع کرتے ، اور جسم کے سامنے کے حصے پر جس قدر ممکن ہوتا اور یہ عمل آپ تین بار کرتے۔ (اس حدیث کو اصحاب سنن نے اس طرح روایت کیا ہے ) ۔

٭٭٭٭٭

آیت 1{ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ } ”کہو کہ میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی۔“ فَلَقَ یَفْلِقُکے معنی کسی چیز کو پھاڑنے کے ہیں۔ سورة الانعام کی آیت 96 میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے { فَالِقُ الْاِصْبَاحِ } کے الفاظ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے سپیدئہ سحر نمودار کرتا ہے۔ البتہ اسی سورت کی آیت 95 میں یہ لفظ دانوں اور گٹھلیوں وغیرہ کے پھاڑنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے : { اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی }۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے زمین کے اندر دانوں یا گٹھلیوں کو پھاڑتا ہے تو پودوں یا درختوں کی پتیاں اور جڑیں نکلتی ہیں۔ چناچہ فلق سے مراد یہاں صرف صبح ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عدم کا پردہ چاک کر کے وجود بخشا ہے۔ جیسے کہ اگلی آیت میں واضح کردیا گیا :

بیماری، وبا، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے باؤ کی دعا٭٭ حضرت جابر وغیرہ فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو، خود قرآن میں نور جگہ ہے فالق الاصباح ابن عباس سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں فلق جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔ امام بخاری بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ تمام مخلوق کی برائی سے جسم میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی۔ غاسق سے مراد رات ہے۔ اذا وقت یس مراد سورج کا غروب ہوجانا ہے، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آجائے، ابن زید کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ اور روایت میں ہے کہ غاسق اذا وقب سے یہی مراد ہے، دونوں قولوں میں با آسانییہ تطبیق ہوسکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آجائے، واللہ اعلم۔ گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں، حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں نہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے رسول اللہ ﷺ نے کہا کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرائیل ؑ نے یہ دعا پڑھی یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے۔ اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کردیا اور ان کی تدبیروں کو بےاثر کردیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی۔ مسند احمد میں ہے نبی ﷺ پر ایک یہودی نے جادہ کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل ؑ نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا، صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے، حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے، جب یہ حالت آپ کی ہوگئی ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتادیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائیتوں کی طرف، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے ؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے، کہا کس چیز میں ؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں، پھر حضور صلی اللہ ؑ اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے، میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ ﷺ انسے بدلہ لینے چائے آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کرچکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حم سے بند کردیا گیا، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی، تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور ﷺ بیما ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہوگیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر ؓ کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں، حضور ﷺ ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہوگئے، ادھر جبرائیل ؑ نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے، لوگوں نے کہا حضور ﷺ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کردیں آپ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں واللہ اعلم۔

آیت 1 - سورۃ الفلق: (قل أعوذ برب الفلق...) - اردو