سورۃ الفجر: آیت 6 - ألم تر كيف فعل ربك... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الفجر

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara kayfa faAAala rabbuka biAAadin

آیت 6 کی تفسیر

الم ترکیف .................................... المرصاد

اس قسم کے مطابق سیاق کلام میں استفہام کا صیغہ پرکشش ہوتا ہے اور وہ سامعین کو زیادہ متوجہ کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ ابتداً یہ خطاب تو نبی ﷺ کو ہے لیکن بعدہ ہر اس شخص کو خطاب ہے جو ان اقوام کے عبرت آموز واقعات سے سبق لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس زمانے میں یہ آیات اتریں ، مخاطبین کے درمیان ان اقوام کے قصے معروف ومشہور تھے۔ اس علاقے میں جو آثار قدیمہ ابھی تک باقی ہیں اور جو قصے ابھی تک زبان زدعام ہیں ، ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام کے بارے میں عرب اچھی طرح جانتے تھے۔ یہاں فعل کا فاعل ” ربک “ کو لایا گیا ہے۔ اس میں حضور اکرم ﷺ اور اس وقت کے مٹھی بھر مسلمانوں کے لئے سامان اطمینان ہے۔ اس وقت مکہ کے مسلمان قریش کے سرکشوں کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے اور ان کے خلاف یہ لوگ ہر محاذ پر راہ روکے کھڑے تھے۔ اس پیرا یہ اظہار سے ان کے دلوں میں راحت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔

ان مختصر آیات میں اللہ نے تاریخ انسانی کے سرکردہ جباروں کی داستانوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک مشہور قوم عادارم ہے جسے عاد اولیٰ بھی کہا گیا ہے۔ یہ ان عربوں میں سے تھے جو ابتدائی ادوار میں خالص عرب تھے (عاربہ) یا ان عربوں میں سے تھے جن کی نسل ختم ہوگئی ہے (بائدہ) یہ لوگ احقاف میں رہتے تھے ، احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں۔ جنوب عرب میں یمن اور حضرت موت کے درمیان ان کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ بدوی لوگ تھے اور ایسے خیموں میں رہے تھے جو ستوتوں پر قائم ہوتے تھے۔ قرآن کریم میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ بڑے قوی تھے اور سخت گرفت کی طاقت رکھتے تھے۔ اپنے وقت پر یہ قوی تر قوم تھی اور اقوام میں زیادہ ممتاز تھی۔

التی لم ........................ فی البلاد (8:89) ” جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی “۔ یعنی اس وقت تک۔

آیت 6 - سورۃ الفجر: (ألم تر كيف فعل ربك بعاد...) - اردو