سورۃ الفجر: آیت 21 - كلا إذا دكت الأرض دكا... - اردو

آیت 21 کی تفسیر, سورۃ الفجر

كَلَّآ إِذَا دُكَّتِ ٱلْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، جب زمین پے در پے کوٹ کوٹ کر ریگ زار بنا دی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla itha dukkati alardu dakkan dakkan

آیت 21 کی تفسیر

کلااذا ................................ وثاقہ احد

دکت الارض (21:89) زمین کو کاٹا جائے گا “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نشانات مٹا کر اسے برابر کردیاجائے گا۔ یہ ان انقلابات میں سے ایک ہے جو قیامت کے وقوع کے وقت اس کائنات میں برپا ہوں گے رہی یہ بات کہ رب تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا اور فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے تو یہ ایک غیبی معاملہ ہے۔ اس کی حقیقت کو اس وقت تک ہم سمجھ نہیں سکتے ، کیونکہ ابھی ہم اس دنیا میں ہیں اور ہماری قوت ادراک محدود ہے۔ البتہ اس انداز تعبیر سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ بہت ہی ہیبت ناک اور خوفناک صورت حال ہوگی۔ اسی طرح جہنم کو لایا جانا پوری طرح ہماری فہم سے دور ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ مجرم اس کے قریب ہوجائیں گے اور وہ اہل جہنم سے قریب ہوجائے گی۔ رہی اصل کیفیت اور صورت حالات تو وہ ایک غیبی امر ہے اور یہ اسی دن اچھی طرح معلوم ہوگی جب برپا ہوگی۔

ان آیات کے ذریعہ ایک ایسی منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے جس سے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ آنکھیں سہم کر جھک جاتی ہیں۔ الفاظ کا تلفظ اور ترنم بھی خوفناک ہے اور مناظر کی شدید گرفت ہے۔ زمین کا ریزہ ریزہ کردیا جانا۔ رب تعالیٰ کا نزول و جلال اور فیصلے کرنا فرشتوں کا صف بستہ کھڑے ہونا اور جہنم کا تیار کرکے حاضر کردیاجانا ، ایسے مناظر ہیں جن کی وجہ سے انسان پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔

یومئذ ................ الانسان (23:89) ” اس دن بات انسان کی سمجھ میں آجائے گی “۔ وہ انسان اصل حقیقت کو سمجھ جائے گا جو اس جہاں میں امیری اور غریبی کی حقیقت کو بھی سمجھ نہ پارہا تھا۔ جو میراث کا تمام مال سمیٹ کر کھا جاتا تھا۔ اور یتیموں اور عورتوں کا حق بھی مار لیتا تھا۔ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار تھا۔ نہ یتیم کا اکرام کرتا تھا اور نہ مساکین کی معیشت کے لئے کوئی دوڑ دھوپ کرتا تھا۔ جو سرکش تھا اور جس نے اپنی دولت اور اقتدار کے بل بوتے پر زمین کو فساد سے بھردیتا تھا۔ ایسا شخص آج سب کچھ سمجھ لے گا اور وہ نصیحت کو اچھی طرح قبول کرلے گا لیکن اب تو وقت جاچکا ہے۔

وانی لہ الذکری (23:89) ” لیکن اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ؟ “ نصیحت لینے اور عمل کرنے کا وقت تو جاچکا ہے۔ آج نصیحت کیا فائدہ دے گی۔ یہ تو دارالجزاء ہے ۔ اب تو حسرت ہی حسرت ہے۔ تمہارے لئے دارالعمل تو دنیا کی زندگی تھی جہاں تم نہ سمجھے اور نہ عمل کیا۔

آیت 21{ کَلَّآ اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا۔ } ”ہرگز نہیں ! جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کردیا جائے گا۔“ اس آیت کا یہ ترجمہ شاہ ولی اللہ - کے فرزند ارجمند شاہ عبدالقادر - کے ترجمہ کے مطابق ہے ‘ جبکہ ان کے بھائی شاہ رفیع الدین - نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جب زمین کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔

سجدوں کی برکتیں :قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ بالیقین اس دن زمین پست کردی جائیگی اونچی نیچی زمین بربار کردی جائیگی اور بالکل صاف ہموار ہو جایئگی پہاڑ زمین کے بربار کر دئیے جائیں گے تمام مخلوق قبر سے نکل آئیگی خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آجائیگا یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ہوگی اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر ﷺ کے پاس ہو آئیگی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں پھر سب کے سب حضور ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ فرمائیں گے کہ ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں پھر آپ جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورة سبحان میں گذر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائیگا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائیگی صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جہنم کی اس روز ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر لگا پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے گھسیٹ رہے ہوں گے یہی روایت خود حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی مروی ہے اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کو یاد کرنے لگے گا برائیوں پر پچھتائے گا نیکیوں کے نہ کرنے یا کم کرنے پر افسوس کریگا گناہوں پر نادم ہوگا مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اگر کوئی بندہ اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک سجدے میں پڑا رہے اور اللہ کا پورا اطاعت گذار رہے پھر بھی اپن اس عبادت کو قیامت کے دن حقیر اور ناچیز سمجھے گا اور چاہے گا کہ اگر میں دنیا کی طرف لوٹایا جاؤں تو اجرو ثواب کام اور زیادہ کروں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی اور کا نہ ہوگا۔ جو وہ اپنے نافرمان اور نافرجام بندوں کو کریگا نہ اس جیسی زبردست پکڑ اور قید و بند کسی کی ہوسکتی ہے زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اور ہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے یہ تو ہوا بدبختوں کا انجام اب نیک بختوں کا حال سنئے جو روحیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائیگا کہ تو اپنے رب کی طرف اس کے پڑوس کی طرف اس کے ثواب اور اجر کی طرف اس کی جنت اور رضامندی کی طرف لوٹ چل یہ اللہ سے خوش ہے اور اللہ اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہوجائیگا تو میرے خاص بندوں میں آ جا اور میری جنت میں داخل ہوجا حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں اتری ہے بریدہ فرماتے ہیں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ تعای عنہ کے بارے میں اتری ہے حضرت عبداللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہا جائیگا کہ تو اپنے رب یعنی اپنے جسم کی طرف لوٹ جا جسے تو دنیا میں آباد کیے ہؤے تھی تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی و رضامند ہو یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عبداللہ اس آیت کو فاد خلی فی عبادی پڑھتے تھے یعنی اے روح میرے بندے میں یعنی اس کے جسم میں چلی جا لیکن یہ غریب ہے اور ظاہر قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے ثم ردوا الی اللہ مولا ھم الحق یعنی پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جگہ ہے وان مردنا الی اللہ یعنی ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف یعنی اس کے حکم کی طرف اور اس کے سامنے ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ آیتیں حضرت صدیق اکبر ؓ کی موجودگی میں اتریں تو آپ نے کہا کتنا اچھا قول ہے حضور ﷺ نے فرمایا تمہیں بھی یہی کہا جائیگا دوسری روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے حضرت سعید بن جبیر نے یہ آیتیں پڑھیں تو حضرت صدیق نے یہ فرمایا جس پر آپ نے یہ خوش خبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا، ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کردیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ نہ معلوم ہوسکا کہ کون پڑھ رہا ہے یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ابو ہاشم قنات بن زرین ؒ فرماتے ہیں کہ جنگ روم میں ہم دشمنوں کے ہاتھ قید ہوگئے شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایا اور کہا یا تو تم اس دین کو چھوڑ دو یا قتل ہونا منظور کرلو ایک ایک کو وہ یہ کہتا کہ ہمارا دین قبول کرو ورنہ جلاد کو حکم دیتا ہوں کہ تمہاری گردن مارے تین شخص تو مرتد ہوگئے جب چوتھا آیا تو اس نے صاف انکار کیا بادشاہ نے حکم سے اس کی گردن اڑا دی گئی اور سر کو نہر میں ڈال دیا گیا وہ نیچے ڈوب گیا اور ذراسی دیر میں اوپر آگیا اور ان تینوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اے فلاں اور اے فلاں اور اے فلاں ان کے نام لے کر انہیں آواز دی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ بھی دیکھ رہے تھے اور خود بادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہا تھا اس مسلمان شہید کے سر نے کہا سنو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یآای تھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیتہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی اتنا کہہ کر وہ سر پھر پانی میں غوطہ لگا گیا اس واقعہ کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ قریب تھا کہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہوجاتے بادشاہ نے اسی وقت دربار برخاست کرادیا اور وہ تینوں پھر مسلمان ہوگئے اور ہم سب یونہی قید میں رہے آخر خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف فدیہ آگیا اور ہم نے نجات پائی ابن عساکر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے کہا یہ دعا پڑھا کر اللھم انی اسئلک نفسا بلک مطمئنتہ تو من بلقائک وترضی بقضالک وتفنع بعطآئک الٰہی میں تجھ سے ایسا نفس طلب کرتا ہوں جو تیری ذات پر اطمینان اور بھروسہ رکھتا ہو تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو تیری قضا پر راضی ہو تیرے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا ہو سورة والفجر کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 21 - سورۃ الفجر: (كلا إذا دكت الأرض دكا دكا...) - اردو