سورۃ الفاتحہ: آیت 5 - إياك نعبد وإياك نستعين... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورۃ الفاتحہ

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

اردو ترجمہ

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iyyaka naAAbudu waiyyaka nastaAAeenu

آیت 5 کی تفسیر

اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ “ یہ بھی ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس سے پہلے جن عقائد کا ذکر ہوا ہے انہی کا منطقی نتیجہ ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی بندگی اور عبادت کے قابل نہیں ہے ‘ اور نہ کوئی اس قابل ہے کہ اس سے مدد مانگی جائے ۔ یہ عقیدہ بھی اس میدان میں حق و باطل کے درمیان فرق کرکے رکھ دیتا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ہر قسم کی غلامیوں سے مکمل آزادی کیا ہوتی ہے ‘ اور انسان کی جانب سے دوسرے انسانوں کی غلامی کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ اصول دراصل اس بات کا اہم اعلان عام ہے کہ انسان کو مکمل اور بھرپور آزادی ملنی چاہئے ۔ اوہام و خرافات کی پیروی سے آزادی ‘ غلط اوضاع واطوار کی پابندی سے آزادی اور باطل نظام زندگی کی اطاعت سے آزادی صرف ایک اللہ کی بندگی رہے اور صرف ایک اللہ سے نصرت طلب ہو تو انسانی ضمیر کو دوسرے انسانوں ، جاہلی نظامہائے حیات اور رسم و رواج کی جکڑبندیوں سے آزادی نصیب ہوتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اوہام و خرافات اور مذہبی دیومالائی تصورات (Mythology) اور کائناتی قوتوں (Physical Power) کے بارے میں ایک مسلمان کے نقطہ نظر کو واضح کردیاجائے ۔

ایک مسلمان کے نقطہ نظر سے انسانی قوت واقتدار کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک وہ قوت ہے جو ہدایت اور صراط مستقیم پر قائم ہوتی ہے اور اسلامی نظام زندگی کی مطیع ہوتی ہے ۔ اس کے بارے میں ایک مسلم کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ بھلائی ، سچائی اور اصلاحی کاموں میں اس کا معاون و مددگار ہوتا ہے اور اسے اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ۔ دوسری جاہلی قوت ہوتی ہے جو صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی ہوتی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کی مطیع نہیں ہوتی ۔ اس کے بارے میں ایک مسلمان کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرتا ہے ، اس سے لڑتا ہے اور اسے ختم کرکے اس کی جگہ صحیح قوت واقتدار قائم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔

یادرکھیئے ! مسلم کو جاہلی قوت کی ظاہری جسامت اور شان و شوکت کو دیکھ کر مضطرب نہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لئے قوت کا اصل سرچشمہ ذات باری ہے ۔ اور جاہلیت اپنی طاقت کے اس اصل سرچشمے کو کھوچ کی ہوتی ہے ، جو مسلسل اور دائمی طور پر انسان کو قوت فراہم کررہا ہوتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اجرام فلکی میں سے کوئی عظیم جسم جب کسی جلتے ہوئے ستارے سے جدا ہوتا ہے تو بہت دیر نہیں گزرتی کہ وہ بجھ کر رہ جاتا ہے ۔ اس کی روشنی مدہم اور تپش ختم ہوجاتی ہے ، اگرچہ اس کا ظاہری جسم عظیم الشان ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک حقیر ذرہ بھی اپنی قوت اور روشنی کے اصل منبع سے جڑا ہوتا ہے تو وہ اس سے مسلسل حرارت و روشنی حاصل کرتا رہتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے : کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَت فِئَةً کَثِیرَةً م بِاِذنِ اللہ ِ ” بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل جماعت نے اللہ کے حکم سے ایک کثیر جماعت پر غلبہ پایا “ (البقرہ : 249) ۔

رہی طبیعاتی قوت تو اس کے ساتھ ایک مومن کا تعلق علم ومعرفت اور دوستی وہم آہنگی کا تعلق ہوتا ہے ۔ خوف اور دشمنی کا تعلق نہیں ہوتا ۔ کیونکہ انسانی اور طبعی دونوں قوتیں ایک مصدر اور ایک مشیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ یعنی ارادہ ربی کے تابع ہوتی ہیں اور دونوں خالق کائنات کے ارادوں کے سامنے محکوم ومقہور ہیں ۔ ان کے درمیان مکمل آہنگی اور پوراتعاون ہے۔ وہ یکساں طور پر متحرک ہوتی ہیں اور ان کی حرکت کی سمت بھی ایک ہوتی ہے ۔

ایک مسلمان کا عقیدہ اور نظریہ حیات ہی اسے یہ سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایاہی اس لئے ہے کہ مومن اس کا دوست ، معاون اور پشتیبان ہو اور اس دوستی کا تحقق اس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک مومن کائنات میں غور وفکر کرے ، اس سے متعارف ہو ۔ اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کائنات کے ساتھ مل کر اپنے رب کی طرف منہ موڑے۔ اگرچہ بظاہر بعض اوقات طبعی قوتیں انسان کے لئے باعث مضرت ہوتی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہوتی ہے انسان ان کے سمجھنے میں غلطی کرتا ہے ۔ وہ ان کے بارے میں گہری سوچ وبچار نہیں کرتا اور وہ اس اصلی طاقت کو بھول جاتا ہے جو اس پوری کائنات کو چلارہی ہے۔

رومی جاہلیت کے وارث مغرب کے ہاں یہ فیشن سا ہوگیا ہے کہ وہ طبعی طاقتوں کے استعمال کو ” تسخیر طبیعت “ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ تعبیر صاف صاف بتارہی ہے کہ اس جاہلیت کا رشتہ رب کائنات سے ٹوٹ چکا ہے اور اسے کائنات کی اس روح سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اللہ کو لبیک کہہ رہی ہے ۔ رہا وہ مسلمان جس کا دل رحمان ورحیم سے متعلق ہے اور وہ اس کائنات سے بھی پیوستہ ہے جو اللہ رب العالمین کی تسبیح وتہلیل میں ہر قوت محو ہوتی ہے ، وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قہر وجفا کے علاوہ کائنات کے ساتھ تعلق کی ایک دوسری نوعیت بھی ہے ۔ اس کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ ہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اسی نے اس پوری کائنات اور اس کی تمام قوتوں کو پیدا کیا ہے ۔ اور اس کے لئے قانون قدرت کا ضابطہ کار مقرر کیا تاکہ یہ تمام قوتیں ، اس کے دائرے کے اندر اندر ، وہ مقاصد پورے کریں جو اللہ کو مطلوب ہیں ۔ اللہ نے اس کائنات کو صرف انسان کے لئے پیدا کیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سہولت دی کہ وہ اس کے قوانین و ضوابط کو سمجھ سکے اور اس کے بھیدوں کو پاسکے ۔ جب بھی وہ ان رازوں میں سے کسی نئے راز کو پالے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے اس کیلئے اس کائنات کو مسخر کیا ہے ۔ ازخود انسان کے بس میں یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے اس کے لئے اس کائنات کو مسخر کیا ہے۔ ازخود انسان کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ اس کائنات کو مسخر ومغلوب کرسکتا۔ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی الاَرضِ ۔” مسخر کیا اس نے تمہارے لئے ان سب چیزوں کو جو زمین میں ہیں۔ “

اس تصور کے نتیجے میں ، ان کائناتی قوتوں کے بارے میں ایک مومن کا احساس و شعور ، ہر قسم کے اوہام و خرافات سے پاک ہوتا ہے ۔ اس کے اور ان کائناتی قوتوں کے درمیان خوف وہراس کے پردے حائل نہیں ہوتے ۔ وہ صرف خدائے واحد پر ایمان لاتا ہے ، صرف خدائے واحد کی بندگی کرتا ہے اور صرف رب یکتا سے نصرت کا طلب گار ہوتا ہے ۔ رہیں یہ طبعی قوتیں تو اس کے تصور کائنات کی رو سے، یہ بھی اللہ کی مخلوقات کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ وہ ان میں غور وفکر کرتا ہے ، ان میں دلچسپی لیتا ہے ، اور ان کے بھیدوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے ، اس کے جواب میں یہ تکوینی قوتیں اس کی مددگارہوتی ہیں اور اس کے سامنے اپنے رازکھول کر رکھ دیتی ہیں اور وہ ان قوتوں کے ساتھ پرامن ” شفیقانہ “ ایک صدیق صمیم اور یار مانوس کی سی زندگی بسر کرتا ہے ۔ جبل احد کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے کیا خوب کہا ” یہ پہاڑ ہے اسے ہم سے محبت ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے ۔ “ یہ کلمات اس حقیت کا اظہار کررہے ہیں کہ مسلم اول حضرت نبی ﷺ کے دل میں اس کائنات کی ٹھوس ترین شکل ایک پہاڑ کی بھی کس قدر وقعت اور محبت تھی اور ان کو اس کے ساتھ کس قدر لگاؤ تھا۔

اسلامی تصور حیات کی ان اصولی باتوں کے بعد اور اس بات کی وضاحت کے بعد کے عبادت واستعانت میں ایک مسلم کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہوتا ہے ۔ اب ان باتوں کی عملی تطبیق شروع ہوتی ہے ۔ دعا اور تضرع کے ذریعے اب بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یہ دعا بھی ایک اصولی دعا ہے جو اس صورت کی اصولی فضاء اور اس کے مجوعی مزاج سے مکمل ہم آہنگی اور مطابقت رکھتی ہے۔

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ضمیر مخاطب ”کَ“ کو مقدمّ کرنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ پھر عربی میں فعل مضارع ‘ زمانۂ حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے ‘ لہٰذا میں نے ترجمہ میں ان باتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ بندے کا اپنے پروردگار سے عہد و پیمان ہے جسے میں نے hand shake سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا صحیح تصور ایک حدیث قدسی کی روشنی میں سامنے آتا ہے جسے میں بعد میں پیش کروں گا۔ یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرلینا تو آسان ہے کہ اے اللہ ! میں تیری ہی بندگی کروں گا ‘ لیکن اس فیصلہ کو نبھانا بہت مشکل ہے ؂یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا !اللہ کی بندگی کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنا آسان نہیں ہے ‘ لہٰذا بندگی کا عہد کرنے کے فوراً بعد اللہ کی پناہ میں آنا ہے کہ اے اللہ ! میں اس ضمن میں تیری ہی مدد چاہتا ہوں۔ فیصلہ تو میں نے کرلیا ہے کہ تیری ہی بندگی کروں گا اور اس کا وعدہ کر رہا ہوں ‘ لیکن اس پر کاربند رہنے کے لیے مجھے تیری مدد درکار ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کے اذکارِ مأثورہ میں ہر نماز کے بعد آپ ﷺ کا ایک ذکر یہ بھی ہے : رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ 6 ”پروردگار ! میری مدد فرما کہ میں تجھے یاد رکھ سکوں ‘ تیرا شکر ادا کرسکوں اور تیری بندگی احسن طریقے سے بجا لاؤں“۔ تیری مدد کے بغیر میں یہ نہیں کرسکوں گا۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ جب بھی آپ اس آیت کو پڑھیں تو آپ کے اوپر ایک خاص کیفیت طاری ہونی چاہیے کہ پہلے کپکپی طاری ہوجائے کہ اے اللہ ! میں تیری بندگی کا وعدہ تو کر رہا ہوں ‘ میں نے ارادہ تو کرلیا ہے کہ تیرا بندہ بن کر زندگی گزاروں گا ‘ میں تیری جناب میں اس کا اقرار کر رہا ہوں ‘ لیکن اے اللہ ! میں تیری مدد کا محتاج ہوں ‘ تیری طرف سے توفیق ہوگی ‘ تیسیر ہوگی ‘ تعاون ہوگا ‘ نصرت ہوگی تب ہی میں یہ عہد و پیمان پورا کرسکوں گا ‘ ورنہ نہیں۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ آیت ایک ہے لیکن جملے دو ہیں۔ ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ“ مکمل جملہ ہے ‘ جملہ فعلیہ انشائیہ ‘ اور ”اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ دوسرا جملہ ہے۔ بیچ میں حرف عطف واؤ ہے۔ اس سے پہلے اس سورة مبارکہ میں کوئی حرف عطف نہیں آیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری صفات اس کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں۔ یہاں حرف عطف آگیا : ”اے اللہ ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے“ اور ”تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے“۔ ہمارا سارا دار و مدار اور توکل تجھ ہی پر ہے۔ ہم تیری مدد ہی کے سہارے پر اتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ ! ہم تیری ہی بندگی کرتے رہیں گے۔ہم نماز وتر میں جو دعائے قنوت پڑھتے ہیں کبھی آپ نے اس کے مفہوم پر بھی غور کیا ہے ؟ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اقرار کرتے ہیں : اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ ‘ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ‘ اَللّٰہُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ ‘ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ”اے اللہ ! ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ‘ اور تجھ ہی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ اور ہم تجھ پر ایمان رکھتے ہیں ‘ اور تجھ پر توکل کرتے ہیں ‘ اور تیری تعریف کرتے ہیں ‘ اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے۔ اور ہم علیحدہ کردیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ‘ اور ہم تیری طرف کوشش کرتے ہیں اور ہم حاضری دیتے ہیں۔ اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ‘ بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔“واقعہ یہ ہے کہ اس دعا کو پڑھتے ہوئے لرزہ طاری ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بڑی باتیں ہم اپنی زبان سے نکال رہے ہیں۔ ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ ”اے اللہ ! ہم صرف تیری ہی مدد چاہتے ہیں“ لیکن نہ معلوم کس کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کس کس کے سامنے جبیں سائی کرتے ہیں ‘ کس کس کے سامنے اپنی عزت نفس کا دھیلا کرتے ہیں۔ پھر یہ الفاظ دیکھئے : نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ کہ جو بھی تیری نافرمانی کرے اسے ہم علیحدہ کردیتے ہیں ‘ اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ‘ اس سے ترک تعلق کرلیتے ہیں۔ لیکن کیا واقعۃً ہم کسی سے ترک تعلق کرتے ہیں ؟ ہم کہتے ہیں دوستی ہے ‘ رشتہ داری ہے کیا کریں ‘ وہ اپنا عمل جانیں میں اپنا عمل جانوں۔ ہمارا طرز عمل تو یہ ہے۔ تو کتنا بڑا دعویٰ ہے اس دعا کے اندر ؟ اور وہ پورا دعویٰ اس ایک جملے میں مضمر ہے : اِیَّاکَ نَعْبُدُ ”پروردگار ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے“۔ چناچہ اس وقت فوری طور پر بندے کے سامنے یہ کیفیت آ جانی چاہیے کہ اے اللہ میں یہ اسی صورت میں کرسکوں گا اگر تیری مدد شامل حال رہے۔جزو ثالث : سورة الفاتحہ کا تیسرا حصہ تین آیات پر مشتمل ہے ‘ تاہم یہ ایک ہی جملہ بنتا ہے۔

عبادت کا مفہوم ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے " ایاک " پڑھا ہے۔ عمرو بن فائد نے ایاک پڑھا ہے۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے۔ اس لئے کہ " ایا " کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ھیاک پڑھا ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی ھیاک ہے۔ نستعین کی یہی قرأت تمام کی ہے۔ سوائے یحییٰ بن وہاب اور اعمش کے۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں۔ قبیلہ بنو اسد، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو۔ اسی طرح بغیر معبد اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کا۔ لفظ ایاک کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہوجائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہوجائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حل صرف یہی دو حیزیں ہیں۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورة فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین میں ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ) 11۔ ہود :123) یعنی اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔ فرمایا آیت (قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا) 67۔ الملک :29) کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا فرمایا آیت (رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا) 73۔ المزمل :9) یعنی مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لئے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الٰہی میں حاضر ہوگیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ " الہ " ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی " ثناء " انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لئے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورة فاتحہ نہ پڑھے۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ جب بندہ آیت (الحمد للہ رب العلمین) کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب کہتا ہے آیت (الرحمن الرحیم) اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب وہ کہتا ہے آیت (مالک یوم الدین اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ عبادت اور طلب مدد٭٭ جب وہ آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لئے ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (ایاک نعبد) کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں، نہ ڈریں، نہ امید رکھیں۔ اور آیت (ایاک نستعین) سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو آیت (ایاک نعبد کو پہلے لانا اس لئے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر یہ جمع کے لئے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لئے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لئے آگے بڑھا ہوا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لئے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ آیت (ایاک نعبد) میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ ایاک عبدنا میں نہیں اس لئے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔ کسی شاعر کا قول ہے (ترجمہ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، معراج کرانا وغیرہ۔ فرمایا آیت (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا) 18۔ الکہف :1) فرمایا آیت (وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا) 72۔ الجن :19) فرمایا آیت (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) 17۔ الاسراء : ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی ﷺ جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہوجاؤ۔ فرمان ہے آیت (ولقد نعلم یعنی ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لئے۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لئے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا۔ اس کی تکالیف کے لئے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لئے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو۔ اسی لئے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لئے ہو تو باطل ہے۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لئے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضور ﷺ میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ حضرت معاذ جیسا میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں حضور ﷺ نے فرمایا اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں۔

آیت 5 - سورۃ الفاتحہ: (إياك نعبد وإياك نستعين...) - اردو