سورۃ الفاتحہ: آیت 2 - الحمد لله رب العالمين... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الفاتحہ

ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ

اردو ترجمہ

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi rabbi alAAalameena

آیت 2 کی تفسیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ آغاز کرنے کے بعد ‘ اب انسان اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اس کی تعریف کرتا ہے اور پوری کائنات کے لئے اس کی عالمگیر ربوبیت کا اعلان کرتا ہے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے “۔ اللہ کی تعریف وہ شعور ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتے ہی قلب مومن میں موجزن ہوتا ہے اور مومن کا دل اس سے سرشار ہوجاتا ہے کیونکہ وجود انسانی اپنے آغاز ہی میں بےپایاں نعمتوں اور فیوض میں سے ایک فیض ہے ‘ جو قلب مومن میں اللہ کی حمد وثناکے جذبات کے مہمیز کا کام کرتا ہے۔

اللہ کی نعمتیں قدم قدم پر ‘ لمحہ لمحہ ‘ مسلسل اور جوق درجوق آتی ہیں اور اللہ کی تمام مخلوقات اور بالخصوص اس ” انسان “ کو فیض یاب کررہی ہے۔ لہٰذا اللہ کی حمد سے ہر کام کا آغاز اور اسی کی تعریف وثنا پر ہر کام کا انجام اسلامی تصور حیات کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول ہے وَ ھُوَ اللہ ُ لَآ اِٰلہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الحَمدُ فِی الاُولٰی وَ الاٰخِرَةِ ’ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے مستحق نہیں اس کے لئے حمد ہے ۔ اول میں بھی اور آخر میں بھی ۔ “ ایسے بندے پر ذرا اللہ کے فضل وکرم کو تو دیکھئے ! جب وہ اپنی زبان سے ” الحمدﷲ“ ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں وہ بھلائی لکھ دیتا ہے جو سب نیکیوں پر بھاری ہوتی ہے ۔ ابن ماجہ میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کردہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا یَارَبِّ لَکَ الحَمدُ کَمَا یَنبَغِی لِجَلَالِ وَجھِکَ وَعَظِیمِ سُلطَانِکَ ” اے اللہ تیرے لئے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہو۔ “

” فرشتے اس معاملے میں متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اسے کس طرح لکھیں چناچہ وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ” یا خدایا ! تیرے بندے نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کس طرح لکھیں ۔ “ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا ” تو میرے بندے نے کیا کہا ؟ “ فرشتوں نے عرض کی ‘ اس نے کہا ” اے اللہ تیرے لئے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی عظمت و جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اسی طرح لکھو کہ جس طرح میرے بندے نے کہا ۔ قیامت کے دن وہ مجھ سے ملے گا اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔ “

غرض اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا ایک مومن کا وہ شعور ہے جو اللہ کا نام زبان پر آتے ہی ‘ قلب مومن میں موجزن ہوتا ہے ۔ اس آیت کا دوسرا حصہ رب العالمین بھی لفظ اسلامی تصور حیات کا ایک بنیادی اصول ہے ۔ اللہ کی عالمگیر اور مطلق ربوبیت اسلامی عقائد کا اصل الاصول ہے ۔ رب اس ذات کو کہتے ہیں جو مالک اور متصرف ہو اور عربی لغت میں یہ لفظ اس سربراہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو اصلاح وتربیت کی خاطر کسی چیز میں تصرف کرتا ہے ۔ اصلاح تربیت کے لئے تصرف اور ربوبیت تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کو شامل ہے ‘ اللہ نے مخلوقات کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ اسے یونہی مسلسل چھوڑدیا جائے ‘ بلکہ اللہ ہی اس کائنات میں متصرف اور اس کا مصلح ہے ‘ وہ اس کی نگرانی کرتا ہے اور اسے مسلسل پال رہا ہے ‘ تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کی دیکھ بھال رب العالمین کی نگرانی میں کی جارہی ہے ‘ خالق اور مخلوق کے درمیان ربط وصلہ ہر لمحہ اور ہر حال میں قائم ہے اور ہر وقت رواں دواں ہے۔

اس مکمل اور ہمہ گیر عقیدہ توحید کی تشریح و توضیح اور اس ژولیدہ فکری کے درمیان قطعی امتیاز کرکے رکھ دیتی ہے ۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے اور اب بھی ہورہا ہے کہ لوگ خدائے واحد اور صانع کائنات کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود وہ متعدد الٰہوں اور ارباب کے بھی قائل ہیں اور وہ ان الٰہوں اور ارباب کو اپنی زندگی میں حاکم تسلیم کرتے ہیں ۔ اگرچہ بادی النظر ہی میں یہ عقیدہ نہایت ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت واقعہ یہی ہے کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا اور اب بھی ہے۔ قرآن کریم نے ‘ بعض مشرکین کا یہ عقیدہ بیان کیا ہے ۔ جو وہ اپنے الٰہوں اور ارباب کے بارے میں رکھتے تھے۔

مَا نَعبُدُہُم اِلَّا لِیُقَرِّبُونَآ اِلَی اللہ ِ زُلفٰی (زمر : 3) ” ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں “۔ جیسا کہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا ۔ اِتَّخَذُوآ اَحبَارَھُم وَ رُہبَانَہُم اَربَابًا مِّن دُونِ اللہ ِ (توبة : 13) ” انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے ۔ “ نزول قرآن کے وقت مشرکین عرب کی حالت یہ تھی کہ وہ بڑے الٰہوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ارباب کے بھی قائل تھے ‘ اور یہ چھوٹے ارباب ان کے خیالات کے مطابق وہ تھے جو بڑے خداؤں کے ساتھ ساتھ خدائی کا کام کررہے تھے ۔

غرض اس صورت میں عالمگیر ربوبیت کا بیان کرنا اور اسے تمام جہانوں کے لئے عام و شامل کرنے سے غرض یہ ہے کہ جاہلیت کے فکری انتشار اور اسلام کی نظریاتی ہم آہنگی کے درمیان واضح طور پر خط فاضل کھینچ دیا جائے تاکہ یہ پوری کائنات اور تمام لوگ صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی حاکمیت مطلقہ (Boundless Sovereignty) کا اقرار کریں اور اپنی گردنوں سے ارباب متفرقوں کی غلامی کا جو اتار پھینکیں اور بیشمار خداؤں کو ماننے سے وہ جس فکری انتشار و پریشانی میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اس سے نجات پائیں ۔ اور اس طرح اللہ کی مخلوق کا ضمیر اللہ تعالیٰ کی دائمی نگرانی اور قائم ربوبیت کے سائے میں مطمئن ہوجائے ‘ وہ ربوبیت جو کسی وقت بھی منقطع نہیں ہوتی ‘ جس کا سلسلہ ابد الآباد تک قائم دائم اور جاری وساری ہے ۔ یاد رہے یہ کوئی ایسی ربوبیت نہیں جس کا تصور ارسطو نے پیش کیا کہ اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کی اور پھر اسے یونہی چھوڑدیا ۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے سے فرو تر چیزوں کے بارے میں فکر کرے ‘ وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں فکر کرتا ہے ۔ “ یہ خیال اس شخص کا ہے جو ایک عظیم فلسفی سمجھا جاتا ہے ‘ اس کا فلسفہ ایک ٹھوس مانا جاتا ہے اور اس کی عقل کو عقل رسا اور اسے عبقری تسلیم کیا جاتا ہے۔

جب اسلامی تعلیمات کا آغاز ہوا تو اس دنیا میں عقائد و تصورات ‘ افکار وتوہمات اور فلسفوں اور روایات کا ایک عظیم ذخیرہ موجود تھا جس میں حق و باطل کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ کھرے اور کھوٹے میں کوئی جدائی نہ تھی ۔ خرافات دین کا جزو تھے ۔ فلسفے اور عقائد اوہام و خرافات کا پلندہ تھے ‘ اور انسانی ضمیر ان اوہام وروایات کے تہہ بہ تہہ ذخیرے کے نیچے دب گیا تھا اور یقین سے محروم وہم و گمان کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا ۔

یہ حیرانی و پریشانی کیا تھی ‘ جس میں اسے نہ سکون ملتا اور نہ نور ہدایت کی کرن نظر آتی ؟ یہ فقط اس وقت کا تصور الٰہ تھا ۔ الٰہ العالمین اس کی صفات ‘ مخلوق سے اس کا تعلق ایسے مسائل ‘ بالخصوص اللہ تعالیٰ اور انسان کے باہم تعلق کی صحیح نوعیت ‘ اس وقت کے تمام عقائد اس ضلالت اور گمراہی کا شکار تھے ۔

اور اس سے قبل کے انسان اپنے اللہ اور اس کی صفات کے بارے میں کوئی تصور قائم کرتا اور اس وقت کی موجود سرگرمی ‘ سرگردانی اور اوہام و تخیلات کے بھاری بھرکم ذخیرے سے نجات پاتا ‘ انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اس کا ضمیر اس کائنات کے بارے میں یا خود اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے لئے کسی نظام زندگی کے بارے میں مطمئن ہوجائے اور اسے قرار و سکون حاصل ہوسکے (لہٰذا سب سے پہلے تصور الٰہ کی درستگی اور ان باطل نظریات سے نجات ضروری تھی)

اس سکون اور تطہیر عقائد کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ‘ انسان کو اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس فکری ضلالت کے طول وعرض سے خوب واقفیت نہ رکھتا ہو ‘ اور اسے اس بارے میں پوراعلم نہ ہو کہ جب اسلام آیا تو انسان کے دل و دماغ پر غلط عقائد و تصورات ‘ باطل فلسفوں اور غلط روایات کی کس قدر تہیں جمی ہوئی تھیں ۔ ہم نے یہاں تو ان کی طرف اجمالی اشارہ کیا ہے۔ تفصیلی بحث ان مقامات میں ہوگی جہاں قرآن کریم نے تفصیلاً ان تصورات سے بحث کی ہے ۔

ان وجوہات کی بناپر اسلام نے سب سے پہلے اسلامی عقائد اور اسلام کے اساسی تصورات سے تفصیلی بحث کی اور اللہ کی ذات وصفات ‘ مخلوقات سے اس کے تعلق اور مخلوق کے اپنے خالق کے ساتھ ربط کی نوعیت کے بارے میں اسلامی تصور کو قطعی اور یقینی طور پر واضح اور متعین کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تصور حیات کی بنیاد ‘ وہ کامل ‘ خالص اور ہمہ گیر توحید بنی جس میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا۔ اسلامی تعلیمات میں مسلسل اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس کے بارے میں اٹھنے والے تمام شکوک و شبہات کا قلع قمع کیا گیا ۔ اس کے متعلق ہر قسم کے خلجان اور اجمال کو دور کیا گیا اور اسے پاک وصاف کرکے خالص اور واضح شکل میں دل مومن میں جاگزیں کیا گیا تاکہ وہ اس معاملے میں کسی طرح وہم و گمان کا شکار نہ ہو ‘ اسلام نے اللہ کی صفات اور صفت ربوبیت مطلقہ کے بارے میں بھی دوٹوک اور واضح تعلیمات دیں ۔ کیونکہ غلط فلسفوں اور بےاصل نظریات کا ایک بڑا حصہ انہی شرکیہ اوہام واساطیر پر مشتمل تھا جو اللہ کی صفات کے بارے میں ‘ ان غلط فلسفوں نے لوگوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کردی تھیں اور انسانی ضمیر پر ان کا بڑا اثر تھا اور پھر انسانی طرزعمل پر بھی یہ تصورات اثر انداز ہورہے تھے ۔

جن لوگوں نے ان کوششوں کا سرسری مطالعہ کیا ہے جو اسلام نے اللہ کی ذات وصفات اور مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لئے اور جن کے بیان میں قرآن کی لاتعداد آیات نازل ہوئیں اور اس نے ان باطل فلسفوں اور شرکیہ نظریات کا مطالعہ نہیں کیا جن کے بھاری بھرکم بوجھ تلے انسانی ضمیر دبا ہوا تھا ۔ اور پوری انسانیت ان نظریات میں گم گشتہ تھی ‘ تو وہ قرآن مجید کی ان کوششوں ‘ عقائد کے بارے میں بےحد تاکید و تکرار اور تفصیل و توضیح کی حقیقی وجہ کو ہرگز نہ پاسکے گا۔ لیکن اس کے برعکس جو شخص ان باطل نظریات و عقائد کا گہرا مطالعہ کرے گا جو نزول قرآن کے وقت رائج تھے ‘ اس پر ان کوششوں کی حقیقت واہمیت اور ضرورت اچھی طرح واضح ہوجائے گی ۔ وہ سمجھ سکے گا کہ عقیدہ توحید نے انسانی ضمیر کی آزادی میں کیا پارٹ ادا کیا ۔ کیونکہ اس سے انسان کو اوہام و اساطیر اور متعدد خداؤں کی دیومالائی تصورات سے نجات دی۔

غرض عقیدہ توحید کا حسن ‘ اس کا کمال ‘ اس کی ہم آہنگی اور جس حقیقت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے ‘ اس کی سادگی اور واقعیت پسندی ‘ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک انسان ان باطل تصورات و عقائد اور اساطیر وروایات کا اچھی طرح جائزہ نہ لے جو اس وقت دنیا میں رائج تھے ۔ بالخصوص ذات باری کی حقیقت ‘ اس دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت وغیرہ ‘ غرض ان باطل افکار کے گہرے مطالعے کے بعد ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات دراصل ایک نعمت ہے ۔ یہ قلب ونظر دونوں کے لئے رحمت ہے ‘ اس کا حسن اور سادگی انعام الٰہی ہے ‘ انسانی فطرت سے اس کی ہم آہنگی اور معقولیت ‘ ذہن انسانی سے قرب اور مانوسیت اور اس کا توازن اور اعتدال یہ سب کچھ اللہ کی رحمت خاص ہے جو اس نے اپنی مخلوق پر کی ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلْحَمْدُ مبتدأ ‘ لِلّٰہِ خبر۔ ”کل تعریف کل حمد و ثنا اور کل شکر اللہ کے لیے ہے“۔ اب وہ اللہ کون ہے ؟ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ”جو تمام جہانوں کا مالک ہے پروردگار ہے ‘ پرورش کنندہ ہے“۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ”جو رحمن اور رحیم ہے“۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں لام حرف جر ہے لہٰذا ”اللّٰہ“ مجرور ہے۔ اس کے بعد آنے والے کلمات رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ”اللّٰہ“ کا بدل ہونے کے باعث مجرور ہیں۔ یہ گویا ایک جملہ چلا آ رہا ہے : کل حمد ‘ کل ثنا ‘ کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے ‘ مختار ہے ‘ آقا ہے ‘ پروردگار ہے ‘ رحمن ہے اور رحیم ہے۔نوٹ کر لیجیے کہ آیت بسم اللہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ یہ دونوں صفاتی نام ‘ ”الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ آئے ہیں۔ بلکہ دونوں جگہ اللہ کے لیے تین نام ہیں۔ سب سے پہلا نام ”اللّٰہ“ ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات ہے۔ اگرچہ میں اس کا قائل نہیں ہوں۔ یہ بھی ایک صفاتی نام ہے۔ ”الٰہ“ پر ”ال“ داخل ہو کر ”اللّٰہ“ بن گیا۔ لیکن بہرحال ”اللّٰہ“ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے اور عرب میں سب سے زیادہ معروف یہی نام تھا۔ جب قرآن نے رحمن کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ رحمن کیا ہوتا ہے ؟ مَا الرَّحْمٰنُ تب یہ کہا گیا : قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَط اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ج بنی اسراء یل : 110 ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دو کہ اسے اللہ کہہ کر پکارلو یا رحمن کہہ کر پکار لو ‘ جو کہہ کر بھی پکارو گے تو تمام اچھے نام اسی کے ہیں“۔ یہ تمام صفات کمال اسی کی ذات میں موجود ہیں۔ Call the rose by any name it will smell as sweetاسم ”اللہ“ کے تین معنی ہیں۔ تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے عرض کر رہا ہوں کہ عوام کے نزدیک اللہ سے مراد حاجت روا ہے ‘ جس کی طرف انسان تکلیف اور مصیبت میں ‘ مشکلات میں ‘ رزق کے لیے اور اپنی دیگر حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے۔ ”اللہ“ کا ایک اور مفہوم یہ ہے کہ وہ ہستی جو انسان کو سب سے زیادہ محبوب ہو وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ یہ صوفیاء کرام کا تصوّر ہے۔ اور ایک ہے فلاسفہ کا تصوّر کہ ”اللہ“ وہ ہستی ہے جس کی کنہ سے کوئی واقف نہیں ہوسکتا ‘ اس کے بارے میں غور وفکر سے سوائے تحیّر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ تو اس مادّہ ”ا ل ھ“ یا ”و ل ھ“ کے اندر تین معانی ہیں 1 وہ ہستی کہ جس کی طرف اپنی تکلیف و مصیبت کے رفع کرنے کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرانے کے لیے رجوع کیا جائے۔ 2 وہ ہستی جس سے انتہائی محبت ہو۔ 3 جس کی ہستی کا ادراک ممکن نہیں ‘ جس کی کنہ ہمارے فہم اور ہمارے تصوّر سے ماوراء ‘ وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔

ساتوں قاری الحمد کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور الحمد للہ کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔ سفیان بن عینیہ اور روبہ بن عجاج کا قول ہے کہ دال پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔ ابن ابی عبلہ الحمد کی دال کو اور اللہ کے پہلے لام دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس لام کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے مگر اس کی شہادت زبان عرب سے ملتی ہے شاذ ہے۔ حسن اور زید بن علی ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور لام کے تابع دال کو کرتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں " الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بیشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے شائق ہے۔ الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔ " بعض نے کہا کہ الحمد للہ کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند وبالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور الشکر للہ کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق، ابن عطا صوفی بھی فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ الحمد للہ ہے۔ قرطبی نے ابن جریر کے قول کو معتبر کرنے کے لئے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی الحمد للہ شکرا کہے تو جائز ہے۔ دراصل علامہ ابن جریر کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ حمد کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ حمد کا لفظ عام ہے یا شکر کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ حمد کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر شکر کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر حمد تہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہوسکتا ہے یہ لفظ خاص اور شکر کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے شکر کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر شکرتہ نہیں کہہ سکتے البتہ شکرتہ علی کرمہ واحسانہ الی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ماحصل واللہ اعلم۔ ابو نصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں " حمد " مقابل ہے " ذم " کے۔ لہذا یوں کہتے ہیں کہ حمدت الرجل احمدہ حمداو و محمدۃ فھو حمید و محمود تحمید میں حمد سے زیادہ مبالغہ ہے۔ حمد شکر سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو شکر کہتے ہیں۔ عربی زبان میں شکرتہ اور شکرت لہ دونوں طرح کہتے ہیں لیکن لام کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ حمد سے بھی زیادہ عام ہے اس لئے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا واللہ اعلم۔ حمد کی تفسیر اقوال سلف سے ٭٭ حضرت عمر نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ اکبر کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ الحمد للہ کا کیا مطلب ؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا۔ اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العالمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرلو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا اسود بن سریع ایک مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی) ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہوگی۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد للہ کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہوگا۔ قرطبی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی الحمد للہ کہنے کی توفیق دینا ہے اس لئے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے المال والبنون الخ یعنی مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں۔ ابن ماجہ میں ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک و عظیم سلطانک تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے، فرمایا تم یونہی اسے لکھ لو میں آپ اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا۔ قرطبی ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ سے بھی الحمد للہ رب العالمین افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔ اور علماء کا خیال ہے کہ لا الہ الا اللہ افضل ہے اس لئے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے، اس کے کہلوانے کے لئے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری مسلم حدیث میں ہے ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔ حضرت جابر کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ افضل ذکر لا الہ الہ اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے، الحمد میں الف لام استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں۔ رب کہتے ہیں مالک اور متصرف کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لئے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لئے یہ خوب جچتا ہے۔ رب کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جاسکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔ عالمین سے مراد ٭٭ عالمین جمع ہے عالم کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ لفظ عالم بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی عوالم یعنی کئی عالم کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے، ایک ایک وقت کو بھی عالم کہا جاتا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ علی ہذا القیاس۔ اس سے جنات اور انسان بھی مراد لئے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح سے بھی یہ مروی ہے۔ حضرت علی سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت لیکون للعالمین نذیرا بھی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ عالمین یعنی جن اور انس کے لئے ڈرانے والا ہوجائے۔ فرا اور ابو عبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہذا انسان، جنات، فرشتے، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ زید بن اسلم، ابو محیص فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں ابن مروان بن حکم عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔ ابوالعالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہوگئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیر المومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہوگی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے درپے اور سب امتیں ہلاک ہوجائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔ اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں۔ سعید بن میب ؒ سے بھی یہ قول مروی ہے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ ؑ نے فرمایا تھا کہ آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب۔ عالم کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لئے کہ عالم یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ فیا عجبا کیف یعصی الا لہ ام کیف یجحدہ الجاحد وفی کل شی لہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے الحمد کے بعد اب الرحمن الرحیم کی تفسیر سنئے۔

آیت 2 - سورۃ الفاتحہ: (الحمد لله رب العالمين...) - اردو