سورۃ الفاتحہ: آیت 1 - بسم الله الرحمن الرحيم... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الفاتحہ

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اردو ترجمہ

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bismi Allahi alrrahmani alrraheemi

آیت 1 کی تفسیر

سورة فاتحہ ایک نظر میں

اس مختصر اور سات آیتوں پر مشتمل چھوٹی سی صورت کو ایک مسلمان ‘ رات دن میں کم از کم سترہ مرتبہ دہراتا ہے اور جب وہ سنتیں پڑھتا ہے تو یہ تعداد اس سے بھی دوچند ہوجاتی ہے اور اگر کوئی فرائض وسنن کے علاوہ نوافل بھی پڑھتا ہے تو وہ اسے بیشمار مرتبہ دہراتا ہے ۔ اس سورت کی تلاوت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ صحیح حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ” اس کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہ پڑھی “

اس سورت میں اسلامی عقائد کے بلند اصول ‘ اسلامی تصور حیات کے کلیات و مبادی اور انسانی شعور اور انسانی دلچسپیوں کے لئے نہایت ہی اہم اصولی ہدایات بیان کی گئی ہیں ‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی ہر رکعت میں اس سورت کا پڑھنا ضروری قرار دیا ہے ‘ اور جس نماز میں اس سورت کی تلاوت نہ ہو اسے فاسد قرار دیا گیا ہے۔

اس سورت کا آغاز ”﷽“ سے ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے یا پورے قرآن مجید کی ایک آیت ہے ‘ اور صرف پڑھتے وقت ہر سورت کا آغاز اس سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن راسخ بات یہی ہے کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے اور اس کو ملاکر ہی سورة فاتحہ کی آیتوں کی تعداد سات ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے : وَ لَقَد اٰتَینَکَ سَبعًا مِّنَ المَثَانِی وَ القُراٰنَ العَظِیمَ (حجر :87) ” ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائے جانے کے لائق ہیں ‘ اور تمہیں قرآن کریم عطا کیا ۔ “ اس آیت کے مفہوم کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے ‘ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور اسے مثانی اس لئے کہا گیا ہے کہ اسے نماز میں باربار دہرایا جاتا ہے ۔

بسم اللہ سے آغاز کرنا ان اداب میں سے ہے جو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو آغاز وحی کے وقت بتادیئے تھے ۔ اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ ” پڑھئے اپنے رب کے نام سے ۔ “ اور یہ ان آداب میں سے ہے ‘ جو اسلامی تصور حیات کے اساسی عقیدے سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ھُوَ الاَوَّلُ وَ الاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ البَاطِنُ (حدید :3) ” وہی پہلے ہے ‘ وہی پیچھے ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی مخفی ہے۔ “ صرف اللہ موجود برحق اور حقیقی وجود رکھتا ہے اور تمام دوسرے موجودات اپنا وجود اس سے لیتے ہیں ۔ ہر چیز کا آغاز اس سے ہوتا ہے لہٰذا ایک مسلمان ہر آغاز اور ہر حرکت اسی کے نام سے کرتا ہے۔

اللہ کی صفات رحمان ورحیم ‘ جنہیں شروع میں لایا گیا ہے ۔ رحمت کے تمام حالات اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں کو یکجا طور پر اللہ ہی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ الرحمن اکیلا بھی صرف اللہ ہی کے لئے استعمال ہوسکتا ہے ۔ یہ تو جائز ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی انسان کو بھی رحیم کہہ دیں لیکن اسلامی عقائد کی رو سے یہ جائز نہیں کہ ہم بندے کو رحمان کہیں ۔ افضل یہ ہے کہ اللہ کے لئے ان دونوں صفات کو بیک وقت استعمال کیا جائے یعنی ” رحمان ورحیم “ اگرچہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں سے کس لفظ کے معنی وسیع تر ہیں لیکن قرآن کے اس سائے میں ہمیں ایسی بحثوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ‘ ہاں ان کا خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں صفات ملکہ رحمت کے تمام معانی ‘ تمام وسعتوں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ﷽سے آغاز کلام ‘ اللہ کی عظمت اور وحدانیت کے معانی پر مشتمل ہوتے ہوئے اگر اسلامی تصور حیات کا پہلا اصول ہے رحمان رحیم کی دوصفتوں میں رحمت کے تمام مفاہیم تمام حالات اور تمام وسعتوں کا سمو دینا ‘ اسلامی تصور حیات کا دوسرا زریں اصول ہے ۔ جس سے ایک بندے اور اس کے اللہ کے درمیان تعلق کی صحیح نوعیت کا اظہار ہوتا ہے۔

سورة الفاتحہ اگرچہ قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے ‘ اس کی کل سات آیات ہیں ‘ لیکن یہ قرآن حکیم کی عظیم ترین سورت ہے۔ اس سورة مبارکہ کو اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی۔ یعنی یہ پورے قرآن کے لیے جڑ ‘ بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الفاتحہ کس اعتبار سے ہے ؟ فَتَحَ یَفْتَحُ کے معنی ہیں کھولنا۔ چونکہ قرآن حکیم شروع اس سورت سے ہوتا ہے لہٰذا یہ ”سورة الفاتحہ“ The Opening Surah of the Quran ہے۔ اس کا ایک نام ”الکافیہ“ یعنی کفایت کرنے والی ہے ‘ جبکہ ایک نام ”الشافیہ“ یعنی شفا دینے والی ہے۔ دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ یہ سورة مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے سورة العلق کی پانچ آیتیں ‘ پھر سورة نٓ یا سورة القلم کی سات آیتیں ‘ پھر سورة المزمل کی نو آیتیں ‘ پھر سورة المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورة الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔ لیکن یہ پہلی مکمل سورت ہے جو نازل ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ سورة الحجر میں ایک آیت بایں الفاظ آئی ہے : وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ”ہم نے اے نبی ﷺ آپ ﷺ ‘ کو سات ایسی آیات عطا کی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن۔“سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں دوہرا دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں ‘ نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں ‘ اور یہ سورة مبارکہ خود اپنی جگہ پر ایک قرآن عظیم ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیُّ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِیْ اُوْتِیْتُہٗ 1”سورة اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہی ”سبع مثانی“ اور ”قرآن عظیم“ ہے جو مجھے عطا ہوئی ہے۔“تعداد کے اعتبار سے اس کی سات آیات متفق علیہ ہیں۔ البتہ اہل علم میں ایک اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ‘ جن میں امام شافعی رض بھی شامل ہیں ‘ آیت بسم اللہ بھی سورة الفاتحہ کا جزء ہے۔ ان کے نزدیک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ساتویں آیت ہے۔ لیکن دوسری طرف امام ابوحنیفہ رح کی رائے یہ ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے ‘ بلکہ آیت بسم اللہ قرآن مجید کی کسی بھی سورة کا جزء نہیں ہے ‘ سوائے ایک مقام کے جہاں وہ متن میں آئی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو جو خط لکھا تھا اس کا تذکرہ سورة النمل میں بایں الفاظ آیا ہے : اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ سورتوں کے آغاز میں یہ علامت کے طور پر لکھی گئی ہے کہ یہاں سے نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پانچویں آیت ہے ‘ جبکہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 چھٹی اور غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ساتویں آیت ہے۔ جن حضرات کے نزدیک آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء ہے وہ نماز میں جہری قراءت کرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بھی بالجہر پڑھتے ہیں ‘ اور جن حضرات کے نزدیک یہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے وہ جہری قراءت کرتے ہوئے بھی بسم اللہ خاموشی سے پڑھتے ہیں اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے قراءت شروع کرتے ہیں۔ نماز کا جزو لازم اس سورة مبارکہ کا اسلوب کیا ہے ؟ یہ بہت اہم اور سمجھنے کی بات ہے۔ ویسے تو یہ کلام اللہ ہے ‘ لیکن اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔ یہ دعا اللہ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ مجھ سے اس طرح مخاطب ہوا کرو ‘ جب میرے حضور میں حاضر ہو تو یہ کہا کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی بنا پر قرآن مجید کی اس سورت کو نماز کا جزو لازم قرار دیا گیا ہے ‘ بلکہ سورة الفاتحہ ہی کو حدیث میں ”الصَّلاۃ“ کہا گیا ہے ‘ یعنی اصل نماز سورة الفاتحہ ہے۔ باقی اضافی چیزیں ہیں ‘ تسبیحات ہیں ‘ رکوع و سجود ہیں ‘ قرآن مجید کا کچھ حصہ آپ اور بھی پڑھ لیتے ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رض سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ 2 یعنی جو شخص نماز میں سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں یہ مضمون آیا ہے۔اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں ایک فقہی اختلاف موجود ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا ہے کہ آپ باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں تب بھی ان کے نزدیک آپ امام کے ساتھ ساتھ ضرور سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ چناچہ امام ہر آیت کے بعد وقفہ دے۔ امام جب کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ تو اس کے بعد مقتدی بھی کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ خواہ اپنے دل میں کہے۔ پھر امام کہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ تو مقتدی بھی دل میں کہہ لے : اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ موقف ہے امام شافعی رح کا کہ نماز چاہے جہری ہو چاہے سری ہو ‘ اگر آپ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہیں تو امام اپنی سورة الفاتحہ پڑھے گا اور آپ اپنی پڑھیں گے اور لازماً پڑھیں گے۔امام ابوحنیفہ رض کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے کہ امام جب سورة الفاتحہ پڑھے گا تو ہم پیچھے بالکل نہیں پڑھیں گے ‘ بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدیوں کی قراءت ہے۔ ان کا استدلال آیت قرآنی وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ الاعراف اور حدیث نبوی ﷺ مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَاءَ ۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَ ۃٌ 3 سے ہے۔ نیز ان کا کہنا ہے کہ نماز باجماعت میں امام کی حیثیت سب کے نمائندے کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی وفد کہیں جاتا ہے اور اس وفد کا کوئی سربراہ ہوتا ہے تو وہاں جا کر گفتگو وفد کا سربراہ کرتا ہے ‘ باقی سب لوگ خاموش رہتے ہیں۔اب اس ضمن میں ایک انتہائی معاملہ تو وہ ہوگیا جو امام شافعی رح کا موقف ہے کہ چاہے جہری نماز ہو چاہے سریّ ہو ‘ اس میں امام کے پیچھے مقتدی بھی سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ظہر اور عصر سریّ نمازیں ہیں ‘ ان میں امام خاموشی سے قراءت کرتا ہے ‘ بلند آواز سے نہیں پڑھتا ‘ جبکہ فجر ‘ مغرب اور عشاء جہری نمازیں ہیں ‘ جن میں سورة الفاتحہ اور قرآن کا مزید کچھ حصہ پہلی دو رکعتوں میں آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رح کا موقف ہے کہ نماز خواہ جہری ہو خواہ سریّ ہو ‘ نماز باجماعت کی صورت میں مقتدی خاموش رہے گا اور سورة الفاتحہ نہیں پڑھے گا۔ان کے علاوہ ایک درمیانی مسلک بھی ہے اور وہ امام مالک رح اور امام ابن تیمیہ رح وغیرہما کا ہے۔ اس ضمن میں ان کا موقف یہ ہے کہ جہری رکعت میں مقتدی سورة الفاتحہ مت پڑھے ‘ بلکہ امام کی قراءت خاموشی سے سنے ‘ ازروئے نص قرآنی : وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ الاعراف ”اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم پوری توجہ سے اسے سنا کرو اور خود خاموش رہا کرو ‘ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ اسی طرح حدیث نبوی ﷺ ہے : اِذَا قَرَأَ [ الْاِمَامُ ] فَاَنْصِتُوْا 4 ”جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو“۔ چناچہ جب امام بالجہر قراءت کر رہا ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ تو آپ سنیے اور خود خاموش رہیے ‘ لیکن جو سرّی نماز ہے اس میں امام اپنے طور پر سورة الفاتحہ پڑھے اور آپ اپنے طور پر خاموشی سے پڑھیں۔ یہ درمیانی موقف ہے ‘ اور میں نے بہرحال اسی کو اختیار کیا ہوا ہے۔فطرت سلیمہ کی پکار سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں ‘ مَیں نے عرض کیا کہ یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر ذرا قرآن مجید کی حکمت اور فلسفہ پر اگر غور کریں گے تو اس سورت کی ایک اور شان سامنے آئے گی۔ بنیادی طور پر قرآن کا فلسفہ کیا ہے ؟ انسان اس دنیا میں جب آتا ہے تو فطرت لے کر آتا ہے ‘ جسے قرآن حکیم ”فِطْرَت اللّٰہِ“ قرار دیتا ہے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط الرّوم : 30 یہی حقیقت حدیث نبوی ﷺ میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے : مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ الاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ‘ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 5 ”نسل انسانی کا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘ لیکن یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے فطرت اسلام لے کر آتا ہے۔ تو انسان کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور اپنی محبت ودیعت کردی ہے۔ اس لیے کہ جو روح انسانی ہے وہ کہاں سے آئی ہے ؟ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ”اے نبی ﷺ ! یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“۔ ہماری روح رب تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے ‘ لہٰذا اس کے اندر اللہ کی معرفت بھی ہے ‘ اللہ کی محبت بھی ہے۔ تو جب تک ایک انسان کی فطرت میں کوئی کجی نہ آئے ‘ وہ بےراہ روی perversion سے محفوظ رہے تو اسے ہم کہتے ہیں فطرت سلیمہ ‘ یعنی سالم اور محفوظ فطرت۔ اس فطرت والا انسان جب بلوغ کو پہنچتا ہے اور اسے عقل سلیم بھی مل جاتی ہے ‘ یعنی صحیح صحیح انداز میں غور کرنے کی صلاحیت مل جاتی ہے تو ان دونوں چیزوں کے امتزاج کے نتیجہ میں ایمانیات کے کچھ بنیادی حقائق انسان پر خود منکشف ہوجاتے ہیں ‘ خواہ اسے کوئی وحی ملے یا نہ ملے۔ یہ ہے فطرت کا معاملہ اور یہ ہے قرآن کی حکمت اور فلسفہ کا اصول۔ اس کی ایک بڑی شاندار مثال قرآن مجید میں حضرت لقمان کی دی گئی ہے ‘ جو نہ نبی تھے نہ کسی نبی کے پیروکار اور امتی تھے ‘ لیکن انہیں اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی۔”حکمت“ فطرت سلیمہ ‘ قلب سلیم اور عقل سلیم کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ اگر فطرت بھی محفوظ ہے ‘ عقل بھی ٹیڑھ پر نہیں چل رہی ‘ بلکہ صحیح اور سیدھے راستے پر چل رہی ہے تو ان دونوں کے امتزاج سے جو حکمت پیدا ہوتی ہے ‘ انسان کو جو دانائی wisdom میسرّ آتی ہے اس کے نتیجہ میں وہ پہچان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پیدا کرنے والا ہے ‘ یہ خود بخود نہیں بنی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اکیلا ہے ‘ تنہا ہے ‘ کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے لَا مِثْلَ لَہٗ وَلَا مِثَالَ لَہٗ وَلَا مَثِیْلَ لَہٗ وَلَا کُفُوَ لَہٗ وَلَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ ۔ کوئی اس کا مدّمقابل نہیں ہے اور اس میں تمام صفات کمال بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر ہے ‘ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم ہے ‘ ہر جگہ موجود ہے ‘ اور اس کی ذات میں کوئی نقص ‘ کوئی عیب ‘ کوئی کوتاہی ‘ کوئی تقصیر ‘ کوئی کمزوری ‘ کوئی ضعف ‘ کوئی احتیاج قطعاً نہیں ہے۔یہ پانچ باتیں فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کے نتیجہ میں انسان کے علم میں آتی ہیں ‘ چاہے اسے ابھی کسی وحی سے فیض حاصل نہ ہوا ہو۔ چناچہ آپ دیکھتے ہیں کہ چین کا بڑا فلسفی اور حکیم کنفیوشس ان تمام باتوں کو ماننے والا تھا ‘ حالانکہ وہ نبی تو نہیں تھا ! مزیدبرآں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی صرف یہ دنیا کی زندگی نہیں ہے ‘ اصل زندگی ایک اور ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی اور اس میں انسان کو اس زندگی کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا ‘ نیکیاں کمائی ہیں تو ان کی جزا ملے گی اور بدیاں کمائی ہیں تو ان کی سزا ملے گی۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جہاں تک انسان اپنی عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہستی جو یکتا ہے ‘ وہی پیدا کرنے والا ہے ‘ پروردگار ہے ‘ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر ہے ‘ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم ہے ‘ وہی رازق ہے ‘ وہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی مشکل کشا ہے ‘ تو اب اسی کی بندگی ہونی چاہیے ‘ اسی کا حکم ماننا چاہیے ‘ اسی سے محبت کرنی چاہیے ‘ اسی کو مطلوب بنانا چاہیے ‘ اسی کو مقصود بنانا چاہیے۔ یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور یہاں تک انسان عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔درخواست ہدایت البتہ اب آگے مسئلہ آتا ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں ؟ اس میں بھی جہاں تک انفرادی معاملات ہیں ‘ ان کے ضمن میں ایک روشنی اللہ نے انسان کے باطن میں رکھی ہوئی ہے ‘ اس کے ضمیر کے اندر ‘ قلب اور روح کے اندر یہ روشنی موجود ہے کہ انسان نیکی اور بدی کو خوب جانتا ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰٹھَا۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰٹھَا۔ الشمس ”قسم ہے نفس انسانی کی اور جو اسے سنوارا درست کیا ‘ اس کی نوک پلک سنواری ‘ پھر اس میں نیکی اور بدی کا علم الہامی طور پر رکھ دیا“۔ ہر انسان جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا برا ہے ‘ سچ بولنا اچھا ہے ‘ وعدہ پورا کرنا اچھا ہے ‘ وعدہ خلافی بری بات ہے ‘ پڑوسی کو ستانا بہت بری بات ہے جبکہ پڑوسی کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا انسانیت کا تقاضا ہے۔ تو انفرادی سطح پر بھی انسان صحیح اور غلط ‘ حق اور باطل میں کچھ نہ کچھ فرق کرلیتا ہے۔ لیکن جب اجتماعی زندگی کا معاملہ آتا ہے تو اس کے لیے مجبوری ہے کہ وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اعتدال کا راستہ کون سا ہے۔ عائلی زندگی میں عورت کا مقام کیا ہونا چاہیے ‘ عورت کے حقوق کیا ہونے چاہئیں۔ چناچہ ایک انتہا تو یہ ہے کہ دنیا میں عورت کو مرد کی ملکیت بنا لیا گیا۔ جیسے بھیڑ بکری کسی کی ملکیت ہے ‘ ایسے ہی گویا بیوی بھی خاوند کی ملکیت ہے ‘ اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ‘ اس کے کوئی حقوق ہی نہیں ‘ اس کا کوئی legal status ہی نہیں ‘ اس کے کوئی دستوری حقوق ہی نہیں۔ وہ نہ کسی شے کی مالک ہوسکتی ہے ‘ نہ کوئی کاروبار کرسکتی ہے۔ اور ایک انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی قلوپطرہ ہے جو کسی قوم کی سربراہ بن کر بیٹھ جائے اور پھر اس کا بیڑا غرق کر دے ‘ جیسے مصر کا بیڑا قلوپطرہ نے غرق کیا۔ تو یہ دو متضاد انتہائیں ہیں۔آج ہمیں مغرب میں نظر آ رہا ہے کہ مرد و زن بالکل شانہ بشانہ اور برابر ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ فیملی لائف ختم ہو کر رہ گئی۔ اب وہاں صرف one parent family ہے۔ بل کلنٹن نے سال نو پر اپنی قوم کو جو پیغام دیا تھا اس میں کہا تھا کہ عنقریب ہماری امریکی قوم کی عظیم اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔ اس نے الفاظ استعمال کیے تھے : Born without any wedlock۔ حلال زادہ اور حرام زادہ میں یہی تو فرق ہے کہ اگر ماں باپ کا نکاح ہوا ہے ‘ شادی ہوئی ہے تو ان کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ ان کی حلال اور جائز اولاد ہے۔ لیکن اگر ایک مرد اور ایک عورت نے بغیر نکاح کے تعلق قائم کرلیا ہے تو اس طرح بغیر کسی Legal marriage کے ‘ بغیر کسی شادی کے بندھن کے جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہے۔ بل کلنٹن کو معلوم تھا کہ ان کے یہاں اب جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ اکثر و بیشتربغیر کسی شادی کے بندھن کے پیدا ہو رہے ہیں ‘ لہٰذا اس نے کہا کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔ ایک قوم کی کج روی اور perversion کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی فارموں میں سے باپ کا نام ہی نکال دیا ہے۔ اس لیے کہ بہت سے بچوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ ہمارا باپ کون ہے ‘ وہ تو اپنی ماں سے واقف ہیں ‘ باپ کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں ہے۔ اسی طرح سرمایہ اور محنت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن کیا ہو ‘ یہاں بھی انسان بےبس ہے۔ سرمایہ دار کی اپنی مصلحتیں ہیں اور مزدور کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ سرمایہ دار کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ مزدور پر کیا بیت رہی ہے ‘ وہ کن مشقتوں میں ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات !لہٰذا سرمایہ کے کیا حقوق ہیں اور لیبر کے کیا حقوق ہیں ‘ ان میں توازن کیا ہو ‘ یہ کس طرح معینّ ہوگا ؟اسی طرح کا معاملہ فرد اور معاشرے کا ہے۔ ایک طرف انفرادی حقوق اور انفرادی آزادی ہے اور دوسری طرف معاشرہ ‘ قوم اور ریاست state ہے۔ کس کے حقوق زیادہ ہوں گے ؟ ایک فرد کہتا ہے میں آزاد ہوں ‘ میں مادر زاد برہنہ ہو کر سڑک پر چلوں گا ‘ تم کون ہو مجھے روکنے والے ؟ آیا اسے روکا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر اسے روک دیا جائے تو اس کی آزادی پر قدغن ہوجائے گی۔ اگر اسے کہا جائے کہ تم اس طرح نہیں نکل سکتے تو آزادی تو نہیں رہی ‘ اس کی مادر پدر آزادی تو ختم ہوجائے گی ! لیکن ظاہر بات ہے کہ ایک ریاست اور معاشرہ کے کچھ اصول ہیں ‘ اس کے کچھ اخلاقیات ہیں ‘ کچھ قواعد و قوانین ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ ان کی پابندی کی جائے ‘ اور پابندی کرانے کے لیے وہ چاہتی ہے کہ اس کے پاس اختیارات ہوں ‘ اتھارٹی ہو۔ دوسری طرف عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کا سارا معاملہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اب اس میں اعتدال کا راستہ کون سا ہے ؟ یہ ہے وہ عقدۂ لاینحل dilemma کہ جس میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں ہے کہ گھٹنے ٹیک کر اللہ سے دعا کرے کہ پروردگار ! میں اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتا ‘ میں تجھ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔ تو مجھے ہدایت دے ‘ سیدھے راستہ پر چلا ! میں نے تجھے پہچان لیا ‘ میں نے یہ بھی جان لیا کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے اور حساب کتاب ہوگا اور مجھے جواب دہی کرنی پڑے گی ‘ اور میں اس نتیجہ پر بھی پہنچ چکا ہوں کہ تیری ہی بندگی کرنی چاہیے ‘ تیری ہی اطاعت کرنی چاہیے ‘ تیرے ہی حکم پر چلنا چاہیے۔۔ لیکن اس سے آگے میں کیا کروں کیا نہ کروں ؟ کیا صحیح ہے کیا غلط ہے ؟ کیا جائز ہے کیا ناجائز ہے ؟ میرا نفس تو مجھے اپنی مرغوب چیزوں پر اکساتا ہے۔ لیکن جس چیز کے لیے میرے نفس نے مجھے اکسایا ہے وہ جائز بھی ہے یا نہیں ؟ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ فوری طور پر تو مجھے اس سے مسرت حاصل ہو رہی ہے ‘ مجھے اس سے ّ لذت حاصل ہو رہی ہے ‘ منفعت پہنچ رہی ہے ‘ لیکن میں نہیں جانتا کہ آخر کار ‘ نتیجے کے اعتبار سے یہ چیز معاشرے کے لیے اور خود میرے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے ؟ اے اللہ ! میں نہیں جانتا ‘ تو مجھے ہدایت دے ‘ مجھے راستہ دکھا ‘ سیدھا راستہ ‘ درمیانی راستہ ‘ ایسا راستہ جو متوازن ہو ‘ جس میں انصاف ہو ‘ جس میں عدل اور قسط ہو ‘ جس میں کسی کے حقوق ساقط نہ ہوں اور کوئی جابر بن کر مسلطّ نہ ہوجائے ‘ جس میں نہ کوئی حزن و ملال اور مایوسی ودرماندگی depression ہو ‘ نہ کوئی معاشی استحاصل ہو ‘ نہ کوئی سماجی امتیاز ہو۔ اے ربّ ! ان تینوں چیزوں سے پاک ایک صراط مستقیم میں اپنے ذہن سے تلاش نہیں کرسکتا ‘ میرے فیصلے جو ہیں غلط ہوجائیں گے۔ تو میں ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس سیدھے راستے کی ہدایت بخش دے۔یوں سمجھئے کہ پس منظر میں ایک شخص ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اللہ کو پہچان لیا ‘ آخرت کو پہچان لیا ‘ یہ بھی طے کرلیا کہ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی بندگی کا راستہ ‘ لیکن اس کے بعد اسے احتیاج محسوس ہو رہی ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ اب میں دائیں طرف مڑوں یا بائیں طرف مڑوں ؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔ قدم قدم پر چورا ہے آ رہے ہیں ‘ سہ را ہے آ رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے ان میں سے ایک ہی راستہ ہوگا جو سیدھا منزل مقصود تک لے کر جائے گا۔ کہیں میں غلط موڑ مڑ گیا تو میرا حال اس شعر کے مصداق ہوجائے گا ؂رستم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ راہم دور شد !ایک چھوٹی سی غلطی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سیدھے راستہ سے آپ ذرا ساکج ہوگئے تو جتنا آپ آگے بڑھیں گے اسی قدر اس صراط مستقیم سے آپ کا فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ آغاز میں تو محض دس ڈگری کا اینگل تھا ‘ زیادہ فاصلہ نہیں تھا ‘ لیکن یہ دس ڈگری کا اینگل کھلتا چلا جائے گا اور آپ صراط مستقیم سے دور سے دور تر ہوتے چلے جائیں گے۔اللہ کرے کہ سورة الفاتحہ کو پڑھتے ہوئے ہم بھی اسی مقام پر کھڑے ہوں کہ ہمارا دل ٹھکا ہوا ہو ‘ ہمیں اللہ پر ایمان ‘ اللہ کی ربوبیتّ پر ایمان ‘ اللہ کی رحمانیتّ پر ایمان ‘ اللہ کے مالک یوم الدینّ ہونے پر ایمان حاصل ہو۔ یہ بھی ہمارا عزم ہو اور ہمارا طے شدہ فیصلہ ہو کہ اسی کی بندگی کرنی ہے ‘ اور پھر اس کے سامنے دست سوال دراز کریں کہ پروردگار ہمیں ہدایت عطا فرما !سورۃ الفاتحہ کے تین حصے اس سورة مبارکہ کے اسلوب کے حوالے سے اب میں اس کے مضامین کا تجزیہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس سورة مبارکہ کو آپ تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلی تین آیات میں اللہ کی حمد و ثنا ہے ‘ آخری تین آیات میں اللہ سے دعا ہے ‘ جبکہ درمیان کی چوتھی آیت میں بندے کا اپنے رب سے ایک عہد و پیمان ہے۔ یہ گویا اللہ اور بندے کا ایک hand shake ہے۔جزوِ اوّل : پہلی تین آیات میں انسان کی طرف سے ان حقائق کا اظہار ہے جہاں تک وہ خود پہنچ گیا ہے۔ یہ تین آیتیں مل کر ایک جملہ بنتی ہیں۔ گرامر کے اعتبار سے بھی یہ بڑی خوبصورت تقسیم ہے۔ پہلی تین آیتوں میں جو مل کر ایک جملہ بنتی ہیں اللہ کی حمدوثنا ہے۔

بسم اللہ سورة نمل کی ایک آیت یا ؟ صحابہ نے اللہ کی کتاب کو اسی سے شروع کیا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورة نمل کی ایک آیت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ اور ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورة فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں ؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لئے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور متاخرین کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نازل نہیں ہوتی تھی۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ایک مرسل حدیث میں یہ روایت حضرت سعید بن جبیر سے بھی مروی ہے۔ چناچہ صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ کو سورة فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت عطا، حضرت طاؤس، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مکحول اور حضرت زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ بسم اللہ ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورة برات کے۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق بن راہو یہ اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ البتہ امام مالک امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ بسم اللہ نہ تو سورة فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔ امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورة کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔ داؤد کہتے ہیں کہ ہر سورت کے اول میں بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔ امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے ابوبکر رازی نے ابو حسن کرخی کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔ یہ تو تھی بحث بسم اللہ کے سورة فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔ (صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے واللہ اعلم۔ مترجم) بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے ؟ اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورة فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورة فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے۔ ان میں اختلاف ہے۔ شافعی رحمۃ اللہ کا مذہب ہے کہ سورة فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و موخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، ابن عباس، حضرت معاویہ ؓ ہیں۔ بیہقی، ابن عبدالبر نے حضرت عمر اور حضرت علی سے بھی روایت کیا اور امام خطیب بغدادی نے چاروں خلیفوں سے بھی روایت کیا لیکن سند غریب بیان کیا ہے۔ تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر، حضرت عکرمہ حضرت ابوقلابہ، حضرت زہری، حضرت علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطا، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابو وائل ابن سیرین کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابو شعثا، مکحول، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبداللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورة فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں۔ اس حدیث کو دار قطنی خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا انداز قرأت صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس ؓ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرأت کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سنائی بسم اللہ پر مد کیا الرحمن پر مد کیا الرحیم پر مد کیا۔ مسند احمد، سنن ابو داؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر الحمد للہ رب العالمین پھر ٹھہر کر الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر ملک یوم الدین دار قطنی اسے صحیح بتاتے ہیں۔ امام شافعی، امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چناچہ پھر جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو بسم اللہ پڑھی۔ غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لئے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا چاہیے۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہی ثابت ہے۔ ابو حنیفہ، ثوری، احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے بسم اللہ پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند کیا۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو الحمد للہ رب العالمین سے ہی شروع کیا کرتے تھے۔ صححین میں ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔ مسلم میں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں۔ سنن میں حضرت معقل ؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ ہے دلیل ان ائمہ کے بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ فالحمد للہ (بسم اللہ کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلندو پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں واللہ اعلم۔ مترجم) فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں۔ ابن مردویہ میں بھی یہی کی روایت ہے۔ ابن مردویہ یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عیسیٰ ؑ کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے بسم اللہ حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا بسم اللہ کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا " ب " سے مراد اللہ تعالیٰ کا " بہا " یعنی بلندی ہے اور " س " سے مراد اس کی سنا یعنی نور اور روشنی ہے اور " م " سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور " اللہ " کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور " رحمن " کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو " رحیم " کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو۔ ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے لیکن سند کی رو سے یہ بیحد غریب ہے، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو واللہ اعلم۔ ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے حضرت سلیمان ؑ کے نہیں اتری۔ وہ آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں جب یہ آیت " بسم اللہ الرحمن الرحیم " اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہوگئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لئے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہوگی۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے۔ اس کے بھی انیس حروف ہیں۔ ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے اس کی تائید ایک اور حدیث بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ حضور ﷺ نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ پڑھا تھا اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح بسم اللہ میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ نے فرمایا یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا۔ ہاں بسم اللہ کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہوجاتا ہے۔ نسائی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللی لہ میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ بسم اللہ کہہ کر بسم اللہ کی برکت سے شیطان ذلیل ہوگا۔ اسی لئے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں بسم اللہ کہہ لینا مستحب ہے۔ خطبہ کے شروع میں بھی بسم اللہ کہنی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جائے وہ بےبرکتا ہوتا ہے۔ پاخانہ میں جانے کے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔ حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے۔ مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ، سعید بن زید اور ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا۔ " یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ " جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور بسم اللہ پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی " لیکن یہ روایت بالکل بےاصل ہے، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی بسم اللہ پڑھنی مستحب ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ " رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن ابو سلمہ سے فرمایا (جو آپ کی پرورش میں حضرت ام المومنین ام سلمہ کے اگلے خاوند سے تھے) کہ بسم اللہ کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو۔ " بعض علماء اس وقت بھی بسم اللہ کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔ بیوی سے ملنے کے وقت بھی بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقتنا یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا " فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بسم اللہ کی " ب " کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ بسم اللہ ابتدائی یعنی اللہ کے نام سے میری ابتدا ہے۔ قرآن میں ہے ارکبوا فیھا (بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا) 11۔ ہود :41) اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کردیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ ابدا بسم اللہ اور ابتدات بسم اللہ ان کی دلیل آیت اقرا باسم دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لئے کہ فعل کے لئے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لئے امداد چاہنے کے لئے اور قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے واللہ اعلم۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے " حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب سب سے پہلے جبرائیل ؑ محمد ﷺ پر وحی لے کر آئے تو فرمایا اے محمد کہئے استعیذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پھر کہا کہئے بسم اللہ الرحمن الرحیم مقصود یہ تھا کہ اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو۔ " بے معنی بحث اسم یعنی نام ہی مسمیٰ یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی مسمی ہے۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے۔ باقلانی اور ابن نور کی رائے بھی یہی ہے۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں۔ حشویہ اور کر امیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس مسمیٰ ہے اور نفس تسمیہ کا غیر ہے اور معزلہ کہتے ہیں کہ اسم مسمی کا غیر ہے اور نفس تسمیہ ہے۔ ہمارے نزدیک اسم مسمی کا بھی غیر ہے اور تسمیہ کا بھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ مسمی کا غیر ہے اور اگر اسم سے مراد ذات مسمی ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور مسمی کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے مسمی ہوتا ہی نہیں جیسے معدوم کا لفظ۔ کبھی ایک مسمی کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مشترک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور مسمیٰ اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے۔ اور نام والا الگ ہے۔ اور دلیل سنئے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے۔ مسمیٰ کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے۔ اور سنئے اگر اسم ہی کو مسمیٰ مانا جائے تو چاہئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ اور دلیل سنئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو۔ حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ مسمی ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ ہے اسی طرح اسماء کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا، اور جگہ فرمانا فسبح باسم ربک العظیم وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور مسمی اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت ہے۔ اسی طرح یہ وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا وظللہ الاسماء الحسنی یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور۔ اب ان کے دلائل بھی سنئے جو اسم اور مسمی کو ایک ہی بتاتے ہے۔ تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینت پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینت ہے ہوجاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ " باسم " کے متعلق تھا اب لفظ " اللہ " کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لئے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے ھو اللہ الذی یعنی وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہرو باطن کا جاننے والا ہے، جو رحم کرنے والا مہربان ہے۔ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، محافظ ہے، غلبہ والا ہے، زبردست ہے، برائی والا ہے، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام اللہ ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں ٭٭ پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ اور فرماتا ہے اللہ کو پکارو۔ یا رحمن کو پکارو جس نام سے پکارو۔ اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کرلے جنتی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں ! اللہ ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں حضرت امام شافعی امام خطابی امام الحرمین امام غزالی بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ الف لام اس میں لازم ہے۔ امام خطابی نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ یا اللہ اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ یا داخل نہ ہوسکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ہذا کا الف لام والے اسم پر داخل نہ ہوسکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم میں داخل ہونا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن لجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں مصدر تَاَلَہ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع اَلَہَ یأَلَہ، اَلھتہ اور تالھا ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ ویذرک الھتک پڑھتے تھے مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔) مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت (وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ) 6۔ الانعام :3) اور آیت میں ہے (وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ) 43۔ الزخرف :84) یعنی وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ الہ تھا جیسے فعال پھر ہمزہ کے بدلے الف و لام لایا گیا جیسے " الناس : کہ اس کی اصل " اناس " ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل الاہ ہے الف لام حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل الالہ تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے لام کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت (لٰكِنَّا۟ هُوَ اللّٰهُ رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا) 18۔ الکہف :38) میں لکن انا کا لکنا ہوا ہے۔ چناچہ حسن کی قرأت میں لکن انا ہی ہے اور اس کا اشتقاق ولہ سے ہے اور اس کے معنی تحیر ہیں ولہ عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہوجاتی ہے اس لئے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ ولاہ تھا۔ واؤ کو ہمزہ سے بدل دیا گیا جیسے کہ وشاح اور وسادۃ میں اشاح اور اسادہ کہتے ہیں۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ الھت الی فلان سے مشتق ہے جو کہ معنی میں " سکنت " کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اس کی معرفت میں ہے اس لئے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے آیت (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ) 13۔ الرعد :28) یعنی ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لاہ یلوہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الہ الفصیل سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب الہ الرجل یالہ اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے، اس لئے اس کو اللہ کہتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے آیت (وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ) 23۔ المومنون :88) یعنی وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا (وھو منعم) حقیقی منعم وہی فرماتا ہے تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں، وہی مطعم ہے فرمایا ہے وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا۔ وہی موجد ہے فرماتا ہے ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہا کا یہی قول ہے، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے رحمن، رحیم، مالک، قدوس وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ آیت (عزیز الحمید اللہ) الخ جو آتا ہے وہاں یہ عطف بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے آیت (ھل تعلم لہ سمیا) یعنی کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو ؟ لیکن یہ غور طلب ہے واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی فرماتے ہیں کہ " مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کرچکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سر گشتہ و یران ہے۔ " ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو " لاہ " کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں لاھت الشمس چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند وبالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور الہ کے معنی عبادت کرنے اور تالہ کے معنی حکم برداری اور قربانی کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لئے اسے اللہ کہتے ہیں۔ ابن عباس کی قرأت میں ہے ویذرک والھتک اس کی اصل الالہ ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کا لام زائد لام سے جو تعریف کے لئے لایا گیا ہے ملا دیا گیا پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کردیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ " اللہ " کی تھی۔ اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی ٭٭آیت (الرحمن الرحیم) کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے الرحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی حضرت عیسیٰ ؑ کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمن مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں بالمومنین رحیما آیا ہے۔ مبرد کہتے ہیں رحمن عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابو اسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ رحیم عربی لفظ ہے اور رحمن عبرانی ہے دونوں کو جمع کردیا گیا ہے۔ لیکن ابواسحق فرماتے ہیں " اس قول کو دل نہیں مانتا۔ " قرطبی فرماتے ہیں " اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا۔ " اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی گوئی گنجائش نہیں۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ " رحمن اور رحیم کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے ندمان اور ندیم۔ " ابو عبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فعلان فعیل کی طرح نہیں۔ فعلان میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے غضبان اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور فعیل صرف فاعل اور صرف مفعول کے لئے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ " رحمن عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ رحیم باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے آیت (وَكَان بالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا) 33۔ الاحزاب :43) مومنون کے ساتھ رحیم ہے۔ " ابن عباس فرماتے ہیں " یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔ " حضرت ابن عباس کی اس روایت میں لفظ ارق ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ ارفق کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ " اللہ تعالیٰ رفیق یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا۔ " ابن المبارک فرماتے ہیں " رحمن اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔ " ترمذی کی حدیث میں ہے " جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ " بعض شاعروں کا قول ہے۔ اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وبنی ادم حین یسال یغضب یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ رحمن کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور رحیم کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ دیکھئے قرآن کریم کی دو آیتوں آیت (ثم استوی علی العرش اور الرحمن علی العرش استوی) میں استویٰ کے ساتھ رحمن کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ رحیم فرمایا آیت (وَكَان بالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا) 33۔ الاحزاب :43) پس معلوم ہوا کہ رحمن میں مبالغہ بہ نسبت رحیم کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں یا رحمن الدنیا والاخرۃ ورحیمھما بھی آیا ہے۔ رحمن یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے آیت (وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ) 43۔ الزخرف :45) یعنی ان سے پوچھ لو تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے رحمن کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام رحمن العیامہ رکھا تو پروردگار نے اسے بےانتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہوگیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ رحیم میں رحمن سے زیادہ مبالغہ ہے اس لئے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت رحمن بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ اللہ کو یا رحمن کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لئے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی کے دل میں نہ آئی۔ رحیم کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے۔ فرماتا ہے آیت (لقد جاء کم) الخ اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے وابستہ کیا ہے۔ جیسے آیت (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ) 76۔ الانسان :2) میں انسان کو سمیع اور بصیر کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہوسکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہوسکتا جیسے اللہ اور رحمن، خالق اور رزاق وغیرہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت رحمن سے کی۔ اس لئے کہ رحیم کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لئے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم۔ پھر اس سے کم۔ اگر کہا جائے کہ جب رحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا ؟ تو اس کے جواب میں حضرت عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے رحمن کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لئے رحیم کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔ رحمن و رحیم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب رحمن سے واقف ہی نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت (قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى) 17۔ الاسراء :110) نازل فرما کر ان کی تردید کی۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے۔ بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم رحمن یمامہ کو جانتے ہیں کسی اور رحمن کو نہیں جانتے۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے آیت (وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ ۚ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا) 25۔ الفرقان :60) یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ رحمن کون ہے ؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں۔ درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر رحمن سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے۔ اس لئے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام رحمن موجود ہے جو انہی کے سلامہ اور دوسرے شعرا کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس سے کہ رحمن فعلان کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔ حسن فرماتے ہیں رحمن کا نام دوسروں کے لئے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ ام سلمہ والی حدیث جس میں کہ ہر آیت پر حضور ﷺ ٹھہرا کرتے تھے۔ پہلے گزر چکی ہے اور ایک جماعت اسی طرح بسم اللہ کو آیت قرار دے کر آیت الحمد کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ میم کو دو ساکن جمع ہوجانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب میم کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر میم کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت (الم اللہ لا الہ الا ھو) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی تفسیر ختم ہوئی اب آگے سنئے۔

آیت 1 - سورۃ الفاتحہ: (بسم الله الرحمن الرحيم...) - اردو